پس منظر
اہل علم عرصے سے اس جانب توجہ دلاتے رہے ہیں کہ جاوید غامدی صاحب کے مکتب فکر کی بنیادوں میں سےایک انکارِ حدیث بھی ہے۔ محترم مولانا زاہد الراشدی نے برسوں قبل، غامدی صاحب کے موقف کو حدیث ہی نہیں، بلکہ سنتِ مواترہ کے انکارکے مترادف قرار دیا تھا، اور یہ بھی فرمایا کہ اس کی وجہ سے غامدی صاحب مسلمانوں کے بعض اجماعی عقائد کے منکر ہیں۔ اُن سے قبل مفتی عبدالواحد صاحب کی تنقید “تحفہ غامدی” کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، اور مجلہ “صفدر” کے ایک خصوصی شمارے میں بہت سے علمائے کرام نے جاوید غامدی صاحب کی فکر کو گمراہی، انکار حدیث، تحریف قرآن وغیرہ سے متصف کیا۔ بہت عرصے تک یہ گفتگو اہل علم کے حلقوں ہی میں محدود رہی۔ تاہم، جب محترم ہارون الرشید صاحب نے اپنے انٹرویو میں عامۃ المسلمین کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی تو یہ بات بڑے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے علم میں آئی۔ ہارون الرشید صاحب نے فرمایا کہ جاوید غامدی صاحب حدیث کا ادراک نہیں رکھتے، اور یہ بھی فرمایا کہ جاوید غامدی صاحب اور ان کے حلقے کے لوگوں میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں ہے کہ غلام احمد پرویز کی طرح اپنے انکارِ حدیث کا کھُل کر اظہار ہی کر دیں۔ یعنی یہ لوگ منکرِ حدیث ہیں، لیکن مانتے نہیں۔ ہارون الرشید صاحب کے انٹرویو کی اشاعت کے بعد غامدی صاحب کا انکارِ حدیث بڑے پیمانے پر گفتگو کا موضوع بنا، جس کے نتیجے میں جاوید غامدی صاحب کے انکارِ حدیث کی اطلاع ان لوگوں کو بھی ہو گئی، جو اس سے قبل غور کیے بغیر، سادہ لوحی کی وجہ سے، یا بعض خوش نما جدت پسند آراء کی وجہ سے، غامدی صاحب سے حسنِ ظن رکھتے تھے۔ گویا اب جاوید غامدی صاحب کے دینی انحرافات پبلک ڈومین میں آ گئے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے کہ کیا جاوید غامدی صاحب منکرِ حدیث ہیں؟ اسی اثناء میں، ہمارے ایک کرم فرما نے جاوید احمد غامدی صاحب کے مندرجہ ذیل اقتباس پر تبصرہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں وہ قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیادپر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اس دائرے کے اندر البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمٔن ہو جانے کے بعد رسول ﷺ کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہےتو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے” (جاوید احمد غامدی، میزان، لاہور، سنہ ۲۰۰۸ء، صفحہ ۱۵)۔
تبصرہ:
گزارش ہے کہ تنہا یہ بیان غامدی صاحب کے موقف کو واضح نہیں کرتا، بلکہ اسے مصنف کی کچھ اور تحریروں کی روشنی ہی میں کامل طریق پر سمجھا جا سکتا ہے اور جامع جائزے سے قبل محض اس اقتباس کی بنا پر ان کے موقف پر حتمی حکم لگانا درست نہ ہو گا، کیونکہ دوسری عبارتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنے ہی سے اُن کا موقف پوری طرح سمجھ میں آ سکے گا (۱)۔ چنانچہ بہتر ہو تا اگر جاوید غامدی صاحب نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے، اس کا جامع جائزہ لیا جاتا۔ تاہم، چونکہ فی الحال فقط اس اقتباس کے تجزیے ہی میں دلچسپی ظاہرکی گئی ہے، تو راقم حکم بجا لاتا ہے، لیکن اس صورت میں راقم کے تجزیے کو غامدی صاحب کے انکارِ حدیث کے موضوع پر گفتگو کی ابتدا سمجھنا چاہیے۔ اب اس اقتباس کی جانب آتے ہیں۔
راقم کی رائے میں:
جاوید غامدی صاحب کا محولہ بالا بیان علمی و دینی اعتبار سے بالکل بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔ یہ تقریر محض دعووں پر مشتمل ہے، کوئی دلیل نہیں دی۔ نیز ان کا یہ اقتباس کہیں باہم تضاد کا شکار ہے، اور کہیں بے معنی و مہمل ہے، اور جس قدر حصہ متبادر ہے وہ دینی اعتبار سے سخت مضر ہے۔ اور دوسرے، جاوید غامدی صاحب کا یہ بیان دین میں نبی ﷺ کے مقام اور مرتبے، اور آپ ﷺ کے ارشادات ِ طیبہ کی حیثیت کو از سرِ نو متعین کرنے، اور ان کی تشکیل نو کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ان دونوں نکات کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا دعویٰ:
ایک دعویٰ یہ ہے کہ اخبار آحاد سے ” جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا”۔ اس میں دو لفظ اہم ہیں:”اس لیے”۔ یعنی دین میں عقیدے اور عمل کے ثبوت کے لیے فقط ایسا علم کفایت کرتا ہے جو “درجۂ یقین” کو پہنچے، اور چونکہ اخبار آحاد “درجۂ یقین” کو نہیں پہنچتیں لہذا ان سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ یہ اصول میں احادیثِ طیبہ کی حجیت کا انکار ہے۔ حدیث پاک سے کوئی عمل یا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، یہ دعویٰ خود ایک اور دعوے پر کھڑا ہے۔ اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ دین کے اعمال و عقائد قطعی ذرائع سے ہی ثابت ہوتے ہیں، یا ہو سکتے ہیں۔ یعنی پہلا دعویٰ ایک اور دعوے پر مبنی ہے، اورنہ پہلے کی کوئی دلیل دی ہے نہ دوسرے کی۔ یہ بناء الفاسد علی الفاسد ہے۔ سرِ دست ہمارا سوال یہ ہے کہ اس دعوے (کہ”دین میں کسی عقیدہ و عمل کے ثبوت کے لیے وہ علم چاہیے جو درجۂ یقین کو پہنچتا ہو”) کے حق میں قرآن و حدیث میں کیا دلیل ہے؟ اور اگر ہے تو غامدی صاحب نے کیوں نہیں پیش کی؟
دوسرا دعویٰ:
دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ دین فقط “قرآن و سنت میں محصور ہے”۔ اس سے بھی بظاہر یہی غرض سمجھ میں آتی ہے کہ احادیثِ مبارکہ کی حجیت کا انکار کیا جائے۔ لیکن سرِ دست سوال یہ ہے کہ دین کو قرآن مجیداور “سنت” میں کس نے محصور کیا ہے؟ کیوں کیا ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟ (واضح رہے کہ غامدی صاحب “سنت” کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید وہ نبی ﷺ کی اسی سنتِ طیبہ کا ذکر کر رہے ہیں، جو مسلمانوں کے ہاں معروف و مقدس مأخذ ہے۔ لیکن، “سنت” سے غامدی صاحب کی مراد کچھ اور شے ہے، کم از کم اس سے مراد حدیث نہیں ہے۔ لہذا یہاں پر اس اصطلاح کے استعمال سے اس دھوکے میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ غامدی صاحب حدیث کو بھی دین سمجھتے ہیں)۔
تیسرا دعویٰ:
تیسرا دعویٰ یہ فرمایا ہے کہ حدیث کا دائرہ “یہی” ہے کہ وہ ” قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ کا بیان ” ہے۔ اس دعوے کی کیا دلیل ہے؟ یہ دائرہ کس نے لگایا ہے اور کیوں لگایا ہے؟ کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ یہاں بھی التباس کا ایک موقع ہے جس سے بچنا چاہیے۔ دین کی “تبیین” سے بھی غامدی صاحب کی مراد وہ نہیں ہے جو قرآن مجید میں بالعموم اس لفظ سے ہوتی ہے، بلکہ ان کا اپنا ہی ایک تصور ہے جس کے نتیجے میں تبیین میں کسی قسم کے دینی حکم کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (دیکھیے ان کی کتاب برہان)۔ لہذا اس “دائرے” کا بھی بظاہر مقصد حدیث کی حجیت ہی کا انکار ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ اس “دائرے” کے حق میں نصوص میں کیا دلیل ہے، اور اگر ہے تو پیش کیوں نہیں کی گئی؟
چوتھا دعویٰ:
چوتھا دعویٰ یہ ہے کہ جس شخص کو حدیث کی صحت پر “اطمینان” حاصل ہو جائے، اس کے لیے بھی بس اُسی صورت میں حدیث کے حکم کو ماننا ضروری ہوتا ہے، جب یہ حدیث “اس دائرے” کے اندر ہو۔ اس کی کیا دلیل ہے؟ کیونکہ جو “دائرہ” جاوید غامدی صاحب لگا رہے ہیں (جس “دائرے “کو لگانے کی کوئی دلیل انہوں نے یہاں پیش نہیں کی) کسی شخص کو اگر اس “دائرے” کی صحت و جواز پر “اطمینان” نہیں ہے، تو اس دائرے کی حدود کو ماننا اس کے لیے کس بنا پر لازم کیا جا رہا ہے؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ یعنی حدیث کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے تو زید و بکر کو اس کی صحت پر “اطمینان” حاصل ہونا چاہیے، لیکن جاوید غامدی صاحب کے اصولوں کو ماننے کے لیے ان اصولوں کی صحت پر “اطمینان” کیوں ضروری نہیں؟ ایک کے وضع کیے ہوئے، طبع زاد اصول، جن کی کوئی دلیل نہیں، دوسرے پر حجت کیسے ہو گئے؟ (۲)۔
پانچواں دعویٰ:
پانچواں دعویٰ یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اُن کے لگائے ہوئے “دائرے” کے اندر کسی حدیث کی صحت پر “اطمینان” ہو جائے، تو “تبیین و تشریح” اور “اسوہ حسنہ” کو ماننا، اُس شخص کے لیے ضروری ہو جاتا ہے، انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، اور سر تسلیم خم کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اس دعوے کا حاصل یہ ہے کہ اس صورت میں “تبیین و تشریح”، اور “اسوہ حسنہ” پر عمل کرنا ضروری ہے۔
اگر ہم ان کی بات درست سمجھے ہیں تو یہ دعویٰ بھی مہمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان فقط دین پر، اور بقول ان کے “خالص دین” پر، عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے، “غیر دین” پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ “تبیین و تشریح” اور “اسوہ حسنہ” دین ہیں یا نہیں؟
اگر وہ فرمائیں کہ یہ دین ہیں، تو انہیں قطعی ذرائع سے پہنچنا چاہیے تھا، جیسا کہ وہ اس اقتباس کے شروع میں سمجھا چکے ہیں۔ لیکن یہ “تبیین و تشریح” اور “اسوہ حسنہ” جن روایات (اخبار آحاد) سے پہنچی ہیں، وہ قطعی نہیں ہیں، اور اس کا اعلان بھی اس اقتباس میں کر چکے ہیں۔ تو پھر ان کا دعویٰ غلط ہے، کیونکہ ان کے اصول کی رُو سے ظنی شے دین نہیں بن سکتی۔ بلکہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ دو سطر پہلے دین کے ذرائع پر قطعیت کی جو شرط بلا دلیل لگائی تھی، خود ہی اس کا الغا کر دیا، اور جو دین چند سطروں قبل “قرآن و سنت” میں محصور تھا، اب اِن میں محصور نہ رہا!
اور اگر وہ فرمائیں کہ “تبیین و تشریح” اور “اسوہ حسنہ” سرے سے دین ہی نہیں ہیں، تو پھر ان پر عمل کرنا بھی کسی مسلمان کے لیے ضروری نہیں ہو گا، لیکن اس کے باوجود وہ ان پر عمل کرنے کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو “خالص دین” کی بجائے “غیر دینی احکام” پر عمل کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ جو چیز دین نہیں ہے اسے دین قرار دے رہے ہیں، جو افتراعلی اللہ کی تعریف میں آتا ہے، اور بالاتفاق بہت بڑی گمراہی ہے۔
یعنی دونوں صورتوں میں یہ بات ان کے اپنے دعووں کے خلاف ہے، اور شدید تضاد کو جنم دے رہی ہے۔ اس تضاد کو وہ کیسے حل کرتے ہیں، کس تحریر میں حل کرتے ہیں، اور ان کے دلائل کیا ہیں؟
خلاصہ:
ہمارے دین میں تو فروعات بھی شرعی دلیل کے بغیر قبول نہیں کی جاتیں، یہ تو دین کے اصول و مبادی بیان ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے نصوص پر مبنی بیّن دلائل ضروری ہیں۔ ایسے بڑے بڑے دعوے کرنا، جن میں سے بعض مہمل ہیں، بعض باہم متضاد ہیں، اور ان کی کوئی دلیل بھی نہ دینا، دین میں بہت بڑی جسارت ہے، بلکہ اپنے خیالات کو دین کی بنیاد قرار دینے کے مترادف ہے، اللہ ہمیں معاف رکھے۔ جو بات دلیل کے بغیر ہو، وہ بے بنیاد ہوتی ہے، اور بے بنیاد اصولوں پر دین کی بنیادیں اٹھانا خود قابل مذمت ہے۔ البتہ انہیں اس بات پر خراجِ تحسین پیش کرنا بنتا ہے، کہ اتنی بڑی تعداد میں کمزور اور بے دلیل دعوے، چھ سات سطروں میں سمو دیے ہیں، جو یقیناً صنعتِ تحریر کا کمال ہے! یاد رہے کہ دین میں کوئی بات محض غلام احمد پرویز یا جاوید غامدی صاحبان کے ادّعا پر قبول نہیں کی جا سکتی، اور کسی کا یہ گمان کرنا کہ میری بات محض میرے دعوے کے زور پر قبول کر لی جائے گی، دلیل طلب کرنے کی جسارت نہیں ہو گی، اور اس بنا پر پورے دین کی ایک جدید تعبیر مسلمانوں کے حلق میں اُتاری جا سکتی ہے، کس قدر لایعنی خواہش ہے!
متجددانہ شطحات:
ہمیں کہنے کی اجازت دیجیے، کہ گفتگو کے اس مرحلے پر، عبوری نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ “حدیث و سنت” کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کے یہ بلند آہنگ دعوے متجددانہ شطحات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے (۳)۔
شطحات اس لیے، کہ کوئی دلیل نہیں دی، محض تحکم کی بنا پر مہمل دعوے کیے ہیں جو داخلی تضاد کا شکار ہیں، اور ان کے بعض ناگزیر نتائجِ قبیحہ سے صرفِ نظر کیا ہے۔
متجددانہ اس لیے، کہ اس اقتباس کے الفاظ، جملوں، ترتیب، اورفحوائے کلام سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ اُسی استعماری متجددانہ فکر کی جانب پیش قدمی ہو رہی ہے جس کا قصہ ہم برّصغیر میں گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے سن رہے ہیں۔
استعماری تجدد کا تناظر اہم ہے۔ اس اقتباس میں بظاہر نبی ﷺ کے مرتبہ و مقام کو، اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ کی دینی حیثیت کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یعنی دین میں نبوت کے تصور اور مرکزی کردار کو، اور نبی ﷺکے ساتھ اُمتیوں کے تعلق کو از سر نو متعین کیا جا رہا ہے۔ اس تشکیلِ نو کے بارے میں بھی ایک بات واضح ہے: تشکیلِ نو کے ذریعے نبوت کی مرکزی اہمیت میں اضافہ بھی کر سکتے تھے، اور کمی بھی۔ لیکن یہاں یہ بات واضح ہے کہ اس تمام دراز نفسی سے، نبی ﷺ کے ارشادات مقدسہ کی اہمیت میں نقص و کمی ہی مقصود ہے۔ اس اعتبار سے یہ کوشش مغربی غلبے کے بعد مسلمانوں میں پیدا ہونے والے استعماری متجددین کے اُسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے، جس کا امتیازی نشان یہ ہے کہ اس سلسلے سے منسلک لوگ مقامِ نبوت کی نئی تعریف کرتے ہیں، اور کسی نہ کسی طرح، اور کسی نہ کسی درجے میں، احادیثِ طیبہ کا استخفاف و انکار کرتے ہیں۔
استعماری متجددین میں سے ہر کسی نے یہ کام بقدرِ ظرف کیا ہے: ان میں سے بعض حضرات اپنے جذبۂ تجدّد میں چند منتخب احادیث کے انکار و تاویل پر کفایت کرتے ہیں، بعض اصول میں حدیث کی حجیت مانتے ہیں لیکن عملاً انکار و تاویل کی روش اختیار کرتے ہیں، بعض اصول ہی میں احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں، بعض تجدّد کی دھُن میں انکارِ سنتِ متواترہ تک چلے جاتے ہیں، اور بعض قرآن مجید کا بھی انکار کر دیتے ہیں۔ (اگر یہ گفتگو جاری رہی، تو غامدی صاحب کے بارے میں بھی کسی علمی رائے تک پہنچنے میں مدد ملے گی، کہ وہ اس راہ میں کہاں جا کر رُکتے ہیں؟)۔
استعماری تجدد کی تاریخ بہرحال اہم ہے۔ غامدی صاحب کی فکر کو سمجھنے کے لیے سرسید احمدخاں، مرزا غلام احمد قادیانی، مولوی چراغ علی، عبداللہ چکڑالوی، حمید الدین فراہی، اسلم جیراج پوری، احمد الدین امرتسری،امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر فضل الرحمن، اور غلام احمد پرویز کی تصانیف کامطالعہ بہت مددگار ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک وسیع ثانوی علمی ذخیرہ میسر ہے، جو استعماری علوم کے نظریات، تجزیے، اور تحلیل پر مشتمل ہے۔ غامدی صاحب کو پڑھتے ہوئے، استعماریات سے بے اعتنائی ناقابلِ معافی تساہُل ہو گا، ور یہ تساہُل غامدی صاحب کی فکر کے سُوئے فہم پر منتج ہو گا۔ ہماری تاریخ کے ایک خاص (یعنی استعماری) دور میں اس فکر کے ظہور کی وجہ سے، اور مخصوص موضوعات میں اس فکر کے اساطین کی مشترکہ دلچسپی کے پیش نظر، اس فکری تحریک کو “استعماری تجدّد” (۴) کہنا مناسب ہے، تاکہ استعماری متجددین اور دوسری جانب ما قبل جدیدیت میں ظاہر ہونے والے ملحدین و مبتدعہ کے درمیان فرق بھی واضح رہے، اور اس تحریک کا تاریخی و استعماری تناظر بھی۔
اس مرحلے پر کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر زیرِ تبصرہ تحریر اسی رُخ پر جا رہی ہے۔ اس قیاس کی تصدیق و تکذیب مصنف کے دیگر ارشادات پر، اور اوپر اُٹھائے گئے سوالات کا جواب ملنے پر منحصر ہے، اور اس وقت تک حتمی فیصلہ موخر کرنا چاہیے۔ فی الحال اس تحریر سے احادیث مبارکہ کے دینی مقام پر ایک ہمہ گیر نظر ثانی کے جواز کا مقدمہ تیار کرنے کا عندیہ مل رہا ہے۔ تاہم، جیسا ہم نے عرض کیا، یہ غامدی صاحب کی خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن بہت کوشش کے بعد بھی، غالباً اس کے حق میں کوئی دلیل مہیا نہیں کر پا رہے۔
تاہم، یہ ممکن ہے کہ ہم غامدی صاحب کی عبارت میں موجود دلائل کو نہ پا سکے ہوں، یا سمجھ نہ سکے ہوں۔ اگر یہ صورت ہے، تو اہل علم کو چاہیے کہ رہنمائی فرمائیں، کہ ان دعووں کے دلائل غامدی صاحب نے کہاں بیان کیے ہیں، تاکہ ہمیں بھی اُن کی معرفت ہو سکے۔ پھر اگر ممکن ہُوا، تو اُن دلائل سے بھی طالب علمانہ تعرض کر لیں گے۔
یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہم جاوید غامدی صاحب کے مسلک کا تجزیہ کر رہے ہیں، جس میں اصل کی حیثیت غامدی صاحب کی بات کو حاصل ہو گی، اور اسی کی بنا پر ان کاموقف واضح کیا جانا چاہیے۔ ثانوی ذرائع کی بھی بڑی افادیت ہے: ہم عصر ماڈرن مسلمان مفکرین کی فکر کو سمجھنے میں بعض اوقات اِن کے پیش رَو ماڈرن مفکرین کے خیالات مفید ہوتے ہیں، اور اسی طرح غامدی صاحب کے متبعین ان اصولوں کو، اُن کی آنکھوں کے سامنے، جس طرح برت رہے ہیں، اور جس پر جاوید غامدی صاحب خاموش ہیں، وہ بھی اصولوں کے اغراض و مقاصد کو سمجھنے میں مفیدہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ بہرحال ثانوی ذرائع ہی رہیں گے۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم
حواشی:
(۱)۔ مثلاً، جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس سے معاً قبل جملہ بھی اہم ہے، جس میں حدیث کی دینی حیثیت کا صراحت کے ساتھ انکار کیا گیا ہے۔ جاوید غامدی صاحب لکھتے ہیں: “دین لاریب انہی دو صورتوں [یعنی قرآن مجید اور غامدی صاحب کی بیان کردہ مخصوص “سنت”] میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے” (میزان، ۱۵ (.اس پر مفصل کلام کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قدر واضح ہے کہ احادیث پاک میں دین نہیں پایا جاتا “۔ نعوذباللہ۔ یہاں بھی غالباً ارادتاً ابہام کا اہتمام کیا گیا ہے: یہ تو بتا دیا ہے کہ قرآن مجید اور “سنت” دین ہیں، لیکن جس غرض سے یہ عبارت لائی گئی تھی، اور جو اس عبارت کا منطقی نتیجہ ہے، اُس کو صراحت سے بیان کرنے سے احتراز کیا ہے، یعنی یہ کہ حدیث دین کا مأخذ نہیں۔ یہ کوشش سادہ لوح قارئین پر تو موثر ہو سکتی ہے، غور و فکر کرنے والوں پر نہیں۔ تامل سے واضح ہے کہ حدیث کی حجیت کا اصول میں انکار کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ غامدی صاحب کے علم الکلام میں “سنت” احادیثِ مبارکہ سے الگ ایک شے کا نام ہے، جسے اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ غامدی صاحب اور ان کے فرقے کے دیگر اکابرین ہی سمجھ سکے ہیں، اُن سے قبل کسی عالمِ دین کو اس کی ہوا نہیں لگی، جس سے پڑھنے والے کو دھوکہ ہوتا ہے کہ شاید مصنف اہل سنت والجماعت کے موقف پر ہے، اور “سنت” کو مانتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے ہاں اصطلاحات تو وہی ہیں جو اسلاف کی تھیں، لیکن ان کا مطلب بدل دیا ہے۔ بہرحال، اس تحکمانہ جملے کے نتیجے میں احادیثِ مبارکہ دین سے یکسر خارج ہو جاتی ہیں۔نیز یہ تحکم فرع میں نہیں، اصول میں چلایا جا رہا ہے، لہذا اس سے ایک اور غلط فہمی بھی دُور ہو جانی چاہیے، اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ غامدی صاحب اصول میں نہیں، بس چند خاص مسائل ہی میں حدیث کی دینی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔ یہ گفتگو ضمناً کی گئی ہے۔ اس امر پر بھی مفصل بحث ہم موخر کر رہے ہیں، کیونکہ کسی وجہ سے یہ جملہ فی الحال ہمارے محترم مستفتی کے پیش نظر نہیں ہے۔
(۲)۔ ایک اور نکتہ اہم ہے، گو وہ حدیث کے مقام سے براہ راست متعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اسے ضمناً ذکر کر رہے ہیں۔ دعویٰ بظاہر یہ ہے کہ ہر شخص، یعنی زید بکر، کے لیے ضروری ہے کہ اسے صحتِ حدیث پر “اطمینان” حاصل ہو، پھر عمل کرنے کا پابند ہو گا۔ یہ شخص کون ہے؟ عالم یا عامی؟ اس کی وضاحت نہیں کی۔ یعنی اب ہر مسلمان کے لیے کیا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ علم و اصول حدیث، اور اخبار کے وسیع ذخیرے کا علم حاصل کرے، اور ان کے ردّ و قبول کی صلاحیت بہم پہنچائے؟ غامدی صاحب کے نزدیک صحتِ حدیث کے لیے یہ طے کرنا پہلے ضروری ہے کہ وہ ان کے لگائے ہوئے “دائرے” کے اندر ہے یا باہر، اوراس کے لیے قرآن مجید کا مکمل علم بھی ضروری ہے ؛ اس کی زبان، صرف و نحو، لغت و اشتقاق، اور اس کے نظم کے لطائف وغیرہ کی بھی پوری سمجھ بھی دررکار ہے۔ لہذا بظاہر لگتا ہے کہ اس اطمینان کے حصول کے لیے یہ سب علوم بھی زید و بکر کی دسترس میں ہونے چاہییں۔ اس میں جو مشکلات ہیں وہ واضح ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس بے بنیاد دعوے پر عملاً کیا نتائج مترتب ہوئے ہیں؟ تو معلوم ہے کہ عملاً یہ نتیجہ ہُوا ہے، کہ مصنف نے سادگی سے، بلا دلیل ایک اصول بیان کر دیا ہے، لہذا ان کے فرقے کے متبعین (دینی علوم میں رسوخ کے بغیر) اس پر دل و جان سے عمل کر رہے ہیں، یعنی اپنے “اطمینان” کے مطابق کسی حدیث کو قبول کرتے ہیں، کسی کو ردّ کرتے ہیں، بلکہ زیادہ تر ردّ ہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا اس بے دلیل اصول سازی کا یہی منشا تھا؟ اگر نہیں تھا تو اس مفسدے، اور اس کی اصلاح کی کچھ ذمہ داری فاضل اصول ساز پر بھی تو ہو گی؟ مطلوبہ علوم میں دسترس کے بغیر محض ذاتی “بے اطمینانی” کی بنیاد پر احادیثِ مبارکہ کو ردّ کرنے کی یہ عام اجازت کس قدر بے معنی ہے؟ چنانچہ یہ دعویٰ بھی ایک مہمل بات لگ رہی ہے۔ اور جاوید غامدی کے متبعین اس کا جو مطلب لے رہے ہیں، اس سے ہمارے سوال کی اہمیت دوچند، اور مصنف کی خاموشی بامعنی ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ سوال کہ یہ اختیار کس کو دیا جا رہا ہے؟ اور اگر صرف مجتہدین کو دیا جا رہا ہے تو ان کے ارد گرد جو دادِ تحقیق دی جا رہی ہے، اس کے قبیح نتائج پر ان کا موقف کیا ہے؟
(۳)۔ ہم نے”شطحات” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ فنِّ تصوف کی معروف اصطلاح ہے۔ ورنہ جاوید غامدی صاحب اپنے مخالفوں کے اقوال کے لیے مبتذل الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہیں، چنانچہ اپنی تحریروں میں جن آراء سے اختلاف کرتے ہیں، انہیں “خرافات” قرار دیتے ہیں (دیکھیے : برہان (لاہور: المورد، ۲۰۰۹ء)، صفحہ ۱۹۶، حاشیہ: ۲۷)۔ جو لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں انہیں “علم و نظر کے افلاس” سے متصف کرتے ہیں (میزان، قانون جہاد، حاشیہ بر قصہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ) اور حال ہی میں اپنی تقاریر میں اپنے معترضین کو “سفید جھوٹ” کا مرتکب قرار دیا ہے۔ جب زیادہ غیظ و غضب میں ہوں تو امتِ مسلمہ کی اکثریت کے موقف کو “متوازی دین” قرار دے کر، دائرۂ اسلام ہی سے خارج کر دیتے ہیں۔ اُن کے متبعین میں بھی یہ علت جڑ پکڑ چکی ہے، دیکھیے طارق محمود ہاشمی صاحب کا مضمون، “ابویحییٰ کے داعیانہ فتوے: مریضانہ سوچ، پست، سگِ آزاد”، جو دلیل کی ویب گاہ پر شائع ہوا تھا۔
(۴)۔ یعنی: (Post colonial Modernism)