میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ میں غامدی صاحب کے بعض افکار و نظریات سے اختلاف میں ان دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن باقاعدہ شخصی فتویٰ کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سنجیدہ مفتی صاحبان مبینہ اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کریں اور خود سوالات و اشکالات مرتب کر کے انہیں اور ان کے معتمد رفقاءکو بھجوا کر ایک معقول متعینہ مدت کے اندر جواب و وضاحت کا تقاضا کریں، اگر وہ جواب نہ دیں یا ان کے جوابات تسلی بخش نہ ہوں تو اس کے بعد باضابطہ فتویٰ اگر ضروری ہو تو صادر کر دیا جائے۔
جبکہ اس سے ہٹ کر میرا یہ ذوق بھی ہے جس کی بنیاد تجربہ و مشاہدہ پر ہے کہ ماضی قریب میں انکار حدیث کے عنوان سے دو بڑی شخصیات سامنے آئیں اور پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے حلقہ کو متاثر کیا۔ ایک چودھری غلام احمد پرویز اور دوسرے ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم تھے۔ عملی تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ چودھری غلام احمد پرویز پر ملک بھر کے سرکردہ علماءکرام کے اتفاق سے کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا جس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے مگر اس سے ان کی واپسی کا دروازہ بند ہوگیا۔ جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے خلاف کوئی شخصی فتویٰ نہیں دیا گیا بلکہ ان کی کتابوں کا باقاعدہ جواب دیا گیا بالخصوص حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے برق صاحب کے حدیث نبوی پر اعتراضات اور تنقید کا مدلل رد کیا اور حجیت حدیث کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ اس کے ساتھ ہی اٹک کے حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ فاضل دیوبند نے برق صاحب کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور سالہا سال کی باہمی گفتگو کے بعد انہیں حجیت حدیث پر نہ صرف قائل کیا بلکہ ان سے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان کروایا اور ”تاریخ الحدیث“ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچہ بھی تحریر کروایا جو شائع ہو چکا ہے۔
حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ مجاز تھے اور خود بھی ایک مفسر قرآن اور روحانی شیخ کی حیثیت سے علماءکرام کی ایک بڑی تعداد کا مرجع تھے۔ ابھی چند روز قبل ۱۵ ۔اپریل کو باغبان پورہ لاہور کی مسجد امن میں ختم قرآن کریم کی ایک تقریب میں حضرت قاضی صاحبؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینیؒ اس طویل مکالمہ و مباحثہ کا تذکرہ کر رہے تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے درمیان چلتا رہا اور جس کے نتیجے میں برق صاحب مرحوم نے انکار حدیث سے رجوع کر کے حدیث نبوی کی حجیت و تاریخ پر کتابچہ لکھا اور شاید اسی وجہ سے پرویز صاحب کی طرح ملک میں برق صاحب کا کوئی حلقہ قائم نہ ہو سکا جبکہ پرویز صاحب کا حلقہ اب بھی قائم ہے اور مسلسل مصروف عمل ہے۔
چنانچہ میں ذاتی طور پر تو اس قسم کے کسی بھی معاملہ میں اس دوسرے راستے کو ترجیح دیتا ہوں لیکن عمومی مصلحت اور مفاد عامہ کی ضرورت کے تحت اہل علم کی طرف سے کسی فتویٰ کی ضرورت و اہمیت سے بھی مجھے انکار نہیں ہے بشرطیکہ وہ محض معترضین کی نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ متعلقہ شخصیت کو وضاحت کا موقع دے کر فتویٰ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تحقیق و تجزیہ کی بنیاد پر ہو۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ضروری نہیں کہ دیگر دوستوں کو بھی اس سے اتفاق ہو البتہ یہ ضرور توقع رکھتا ہوں کہ اس طالب علمانہ رائے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے گا۔