جاوید غامدی صاحب کا علمی پس منظر – زاہد الراشدی

حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ برصغیر پاک و ہند کے سرکردہ علماء کرام میں سے تھے اور مولانا شبلی نعمانیؒ کے ماموں زاد تھے۔ ان کے اساتذہ میں مولانا شبلیؒ کے علاوہ مولانا عبد الحئی فرنگی محلیؒ، مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ اور پروفیسر آرنلڈ شامل ہیں۔ دینی درسیات کی تکمیل کے بعد انہوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور وہ بیک وقت عربی، اردو، فارسی، انگلش اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے دارالعلوم کے پرنسپل رہے جسے بعد میں جامعہ عثمانیہ کے نام سے یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی۔ اور کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کو ’’جامعہ‘‘ کی شکل دینے میں مولانا فراہیؒ کی سوچ اور تحریک بھی کار فرما تھی۔ بعد میں حیدرآباد کو چھوڑ کر انہوں نے لکھنو کے قریب سرائے میر میں مدرسۃ الاصلاح کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی اور قرآن فہمی کا ایک نیا حلقہ قائم کیا جو اپنے مخصوص ذوق اور اسلوب کے حوالہ سے انہی کے نام سے منسوب ہوگیا۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا فراہیؒ کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب، نزول قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات، اور اس کے ساتھ تعرف و تعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ حدیث و سنت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں مگر ’’خبر واحد‘‘ کو ان کے ہاں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو محدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، اور وہ احکام میں خبر واحد کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بعض علمی معاملات میں ان کی اور ان کے تلامذہ کی رائے جمہور علماء سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا فراہیؒ کے بعد ان کے فکر اور فلسفہ کے سب سے بڑے وارث اور نمائندہ حضرت مولانا امین احسن اصلاحیؒ تھے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل وفاقی شرعی عدالت میں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کی شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے تھے اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ رجم اور سنگسار کرنا شرعی حد نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی خبر واحد کے احکام میں حجت نہ ہونے کا تصور کارفرما تھا۔

یہ ایک مستقل علمی بحث ہے کہ احکام و قوانین کی بنیاد شہادت پر ہے یا خبر پر۔ پھر خبر اور شہادت کے نصاب و معیار میں کیا فرق ہے۔ اس میں فقہاء کے اصولی گروہ میں سے بعض ذمہ دار بزرگ ایک مستقل موقف رکھتے ہیں، جبکہ جمہور محدثین اور عملی فقہاء کا موقف ان سے مختلف ہے۔ ہمارے خیال میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کا موقف جمہور فقہاء اور محدثین کی بجائے بعض اصولی فقہاء سے زیادہ قریب ہے، اسی وجہ سے ہم اسے ان کے تفردات میں شمار کرتے ہیں۔ اور تفردات کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقہ تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی تفرد کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے اجتماعی علمی دھارے سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔ بہرحال محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب کا تعلق اسی علمی حلقہ سے ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بعد اس حلقہ علم و فکر کی قیادت غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔