محترم جاوید احمد غامدی کے تصور سنت کے بارے میں’’الشریعہ‘‘ کے صفحات میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے ہمارے فاضل دوست اس میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی’’غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے عنوان سے’ ’الشریعہ‘‘ کے جو ن ۲۰۰۸ء کے شمارے میں کچھ معروضات پیش کی تھیں – غامدی صاحب کے متعدد مضامین اور توضیحات کو سامنے رکھتے ہوئے راقم الحروف نے درج ذیل نکات پیش کیے تھے:
غامدی صاحب سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجت ہونے کے قائل ہیں اور اس بارے میں وہ جمہور امت کے ساتھ ہیں، مگر سنت کی تعریف اور تعیین میں وہ جمہور امت سے ہٹ کر ایک الگ مفہوم طے کر رہے ہیں۔
وہ سنت کے صرف عملی پہلوؤں پر یقین رکھتے ہیں اور سنت کے ذریعے علم میں کسی نئے اضافے کے قائل نہیں ہیں۔
سنت کے عملی پہلوؤں میں بھی وہ اسے صرف دین ابراہیمی کی سابقہ روایات کی تجدید واصلاح اور ان میں جزوی اضافوں تک محدود رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک دین ابراہیمی کی سابقہ روایات سے ہٹ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نیا عمل یا ارشاد سنت نہیں ہے۔
سنت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کریم کا وظیفہ بھی صرف اس دائرے تک محدود کر ر ہے ہیں کہ وہ پہلے سے موجود و متعارف چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ گویا پہلے سے موجود ومتعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں بھی شامل نہیں ہے۔
ان کے نزدیک سنت کسی اصول وضابطہ پر مبنی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی کام کے سنت یا غیرسنت ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہو، بلکہ سنت صرف لگی بندھی اشیا کی ایک فہرست کانام ہے جس میں کسی بھی حوالے سے کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔
اس فہرست سے ہٹ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی ارشاد یا عمل غامدی صاحب کے نزدیک سنت کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور نہ ہی اسے حجت کا درجہ حاصل ہے۔
سنتوں کی اس فہرست میں شامل تمام امور کا تعلق ایک مسلمان کی ذاتی زندگی اور زیادہ سے زیادہ خاندانی معاملات سے ہے جب کہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واعمال کو سنت کا درجہ حاصل نہیں ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حاکم، قاضی، کمانڈر اور ڈپلومیٹ وغیرہ کے طور پر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا ہے، وہ بھی سنت کے مفہوم سے خارج ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک عقیدہ کے تعین وتعبیر میں سنت وحدیث کا کوئی دخل نہیں ہے۔
سنت کے اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے جو ہم نے غامدی صاحب کی عبارتوں سے سمجھا ہے، یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مفہوم نہ صرف یہ کہ جمہور امت بالخصوص خیرالقرون کے اجماعی تعامل کے منافی ہے بلکہ انتہائی گمراہ کن اور عملاً سنت کے حجت ہونے سے انکار کے مترادف ہے۔