جاوید غامدی اور انکارِ حدیث

حدیث نبویﷺ اور سیرت اسلام کے دفاع کی نہایت فصیل ہے، اس لئے کہ قرآن پاک میں اجمال ہے اور حدیث پاک میں پورے دین کی تعبیر و تشریح ہے۔ احادیث میں بہت سے آئندہ پیش آنے والے فتنوں کی امت کو اطلاع دی گئی ہے، عبادات و احکام، جو نفس پرستوں اور فرقہ پرستوں کے لئے وبال جان ہیں، ان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اور قرآن پاک کے اجمال کی تشریح و تفسیر کی گئی ہے۔ لہٰذا کچھ عرصہ قبل کے منکرین حدیث ہوں یا آج کل کے ملفوف منکرین جیسا کہ جاوید غامدی اور ان کے مقلدین، سب اچھی طرح اور خوب اچھی طرح جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ جب تک رسول اللہﷺ کی حدیث پاک کی مضبوط دیوار ان کے سامنے موجود ہے، وہ اِس دیوار کے اُس پار ذاتی تعبیر ات، خواہشات و نفسانیت کی وادی میں ہر گز قدم نہیں رکھ سکتے، لہٰذا یہ سب لوگ سب سے پہلے حدیث کو اپنے راستے سے ہٹانے اورپھر قرآن پاک کے معانی و مفاہیم کو من چاہا جامہ پہنا کر تروڑنے اور مروڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعتزال عقل پرستی کا فتنہ ہے، لہذا جو حدیث بھی انہیں اپنی نارسا عقل کے خلاف نظر آتی ہے، اس کی ظالمانہ باطل تاویل کرکے یا اس کو قرآن کے خلاف قرار دے کر رد کرنا ان کا عام معمول ہے، انگریز کے دور میں پیدا ہونے اور قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں پھلنے پھولنے والے منکرین حدیث واضح طور پر حدیث کا انکار کرتے، اس کا مذاق اڑاتے اور اس کے ساتھ تمسخر کرتے نظر آتے ہیں، بعض یہ گوہر افشانی کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی حیثیت محض نعوذ باللہ ایک ڈاکئے یا بڑے بھائی کی تھی اور آپﷺ کو لوگوں سے اپنی اطاعت کروانے کا کوئی حق نہیں تھا، بعض راویوں کے مزعومہ ضعف کی من پسندانہ، بد دیانت اور یکطرفہ ٹریفک چلا کر احادیث سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، بعض خبر واحد کے حجت نہ ہونے کی چنندہ بحث چھیڑ کر اپنی من مانی مراد پانے کی کوشش کرتے ہیں، بعض حدیث کو ظنی کہہ کر اسے مسترد کرنے کی نامشکور سعی کرتے ہیں اور بعض حدیث کے انکار کی بنیاد اس ڈھکوسلے کو بناتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ کے زمانے میں ان کی فرمانبرداری لوگوں پر بحیثیت حکمران ضروری تھی، آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد اب آپ کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں بلکہ ’’مرکزِ ملت‘‘ کی حیثیت سے جو بھی حکمران مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالے گا اس کی فرمانبرداری لوگوں پر اسی طرح ضروری ہوگی، وغیر ذلک من الخرافات الکثیرۃ۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب چونکہ ہمارے دیانت دارانہ نقطہ نظر کے مطابق منکرین حدیث کی ہی لڑی کا تسلسل ہیں، لہٰذا مناسب ہوگا کہ ہم ان سے پہلے ان سے پہلے کے منکرین حدیث کے افکار باطلہ کے بھی کچھ نمونے قارئین کرام کو دکھاتے جائیں تاکہ صاحبِ نظر حضرات اس شجر کی جڑوں کو بھی پہچان لیں۔ جناب رسول اللہﷺ کی حدیث پاک کے بارے میں منکرین حدیث کے خیالات و افکار اور حدیثِ رسولﷺ سے ان کے بغض کی ایک جھلک قارئین کرام ملاحظہ کریں، سرسید احمد خان کے بعد انکارِ حدیث کے فتنے کے اہم سرخیل جناب عبد اللہ چکڑالوی لکھتے ہیں:
’’کتاب اللہ کے مقابلے میں انبیاء و رسولوں کے اقوال و افعال یعنی احادیث قولی و فعلی پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے‘‘۔ [ترجمۃ القرآن بآیات القرآن :۹۷]
گوجرانوالہ کے معروف منکر حدیث جناب ڈاکٹر احمد دین صاحب صحاح ستہ کے مصنفین کے نام لکھنے کے بعد خوف خدا سے بے نیاز ہوکر لکھتے ہیں:
’’یہ مذکورہ لوگ صحاح ستہ روایات کے طوفان کے تیار کرنے والے ہیں، جو مسلمانوں میں فرقہ بندی کے اصل موجد ہیں۔۔۔ ان اماموں نے بائبل کی جھوٹی روایات اور اپنی ذاتی افتراأت رسول اللہﷺ کے نام پر لوگوں سے منوائی ہیں‘‘۔[پیغام اتحاد بالقرآن:۴، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج: ۸۸]
مشہور و معروف منکر حدیث جناب علامہ مشرقی لکھتے ہیں:
’’حتیٰ کہ کسی یقینی اور غیر یقینی حدیث کی بھی ضرورت نہیں ہے‘‘۔[دیباچہ تذکرہ: ۲۶، بحوالہ انکار حدیث:۹۴]
ایک اور جگہ حدیث کے خلاف اپنے ماؤف دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہتے ہیں:
’’کہیں حدثنا اور قال قال کا بے سُرا راگ ہے‘‘۔ [ایضاً]
منکرین حدیث کے بدبخت ٹولے کے قافلہ سالار کہلانے کے حقدار جناب چوہدری غلام احمد پرویز حدیث کے بارے میں اپنا نظریہ یوں ظاہر کرتے ہیں کہ:
’’اس بات پر بھی غور کیجئے کہ کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ رسول اللہﷺ کے ہوں، تمام احادیث روایات بالمعنی ہیں‘‘۔ [طلوع اسلام:۲۹، اکتوبر۱۹۴۹ء، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج:۱۰۶]
فتنہ انکارِ حدیث کے ایک بڑے ستون جناب اسلم جیراج پوری لکھتے ہیں:
’’حدیث پر نہ ہمارا ایمان ہے اور نہ اس پر ایمان لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔۔۔ پھر کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی غیر ایمانی اور غیر یقینی چیز کو ہم قرآن کی طرح دینی حجت مانیں‘‘۔
[مقام حدیث۱؍۱۶۹، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج:۴۲]
قرآن پاک میں اللہ جل شانہ نے ایمان والوں کو صاف الفاظ میں جناب رسول اللہﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے، یہ آیت چونکہ منکرین حدیث کی ضلالت کی جڑ کاٹ دیتی ہے، لہٰذا اسلم صاحب اس آیت کی تحریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآن میں جہاں جہاں اللہ و رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد امام وقت یعنی مرکز ملت کی اطاعت ہے‘‘۔ [مقام حدیث۱؍۱۵۵، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج:۵۴]
یہ تو ان منکرین حدیث کے حوالہ جات تھے جو صاف صاف حدیث شریف کا انکار کرتے ہیں۔
غامدی صاحب بھی نظریہ انہی جیسا رکھتے ہیں، مگر عیاری کے پردوں میں اسے چھپا کر پیش کرتے ہیں۔چنانچہ وہ حدیث کے ساتھ کھلم کھلا تمسخر اور مذاق تو نہیں کرتے، نہ ہی صاف طور پر حدیث کو باطل اور غلط کہتے ہیں، مگر اپنے قاری کو روایت، درایت، سند، متن، خبر واحد اور کتب جیسی ثقیل اور غیر سائنسی بحثوں میں گھما پھرا کر جب کہیں کھڑا کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ان منکرین حدیث ہی کے پاس کھڑا ہوا پاتا ہے۔ان کی عیاری سے ناواقف آدمی جب ان کی کتاب میں جابجا احادیث کے حوالے دیکھتا ہے تو اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ غامدی صاحب درحقیقت حدیث کے بڑے زخیرے کے منکر ہیں لیکن اپنے خاص عقیدے اور تعبیر کی موافقت میں چند چنندہ حدیثیں پیش کرتے ہیں، مگر وہی قاری جب آگے چل کر ان کی کتاب میں ان کے موقف کے خلاف صحیح و متواتر احادیث پر ان کو ظالمانہ طریقے سے آری چلاتا دیکھتا ہے اور محض من گھڑت قاعدوں اور خود تراشیدہ ضابطوں کی بنیاد پر انہیں چاند ماری کی مشق کرتا دیکھتا ہے تو حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیتا ہے۔کچھ تفصیل ان شاء اللہ آگے مضمون میں پیش کی جائے گی، یہاں ہم صرف ایک مثال دے کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ زکوٰۃ کے نصاب کے سلسلے میں جناب غامدی صاحب احادیث مبارکہ میں بیان کردہ نصاب کو بخاری و مسلم کے حوالے دے کر تفصیل سے لکھتے ہیں، قاری اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ دیکھئے غامدی صاحب تو نصاب کے سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ ایک ایک تفصیل اور ایک ایک جزئی کو تسلیم کررہے ہیں، مگر تھوڑا ہی آگے چل کر یہ خوش فہمی کافور ہوجاتی ہے جب وہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے، ان کے لئے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کرسکتی ہے‘‘۔ [میزان:۳۵۱]
دیکھ لیجئے! غامدی صاحب نے زکوٰۃ کے نصاب سے متعلق تمام احادیث کو بڑے ادب سے کتاب میں درج کرکے اپنے آپ کو حدیث کا متبع بھی ثابت کردیا اور آخر میں دو سطروں میں ان تمام احادیث پر بڑی معصومیت اور سادگی سے خط تنسیخ بھی پھیر دیا۔ یہی مکاری جناب غامدی صاحب کاطغرائے امتیاز ہے جو انہیں باقی تمام منکرین حدیث سے ممتاز کرتی ہے۔ یاد رہے کہ زکوٰۃ کے نصاب سے متعلق دوسرے منکرین حدیث بھی یہی بات کہتے ہیں اور غامدی صاحب نے انداز بدل کر ترجمانی انہی کی کی ہے۔چنانچہ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’اس لیے زکوٰۃ اس ٹیکس کے علاوہ کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے، اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی‘‘۔[طلوعِ اسلام، جنوری، ۱۹۴۹ء، ص: ۸۲، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج:۱۲۳]
مزید لکھتے ہیں: ’’میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر خدا کا منشاء یہ ہوتا کہ زکوٰۃ کی شرح قیامت تک کے لئے اڑھائی فیصدی ہونی چاہئے تو وہ اسے قرآن میں خود بیان نہ کردیتا؟اس سے ہم اس ایک ہی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ منشائے خداوندی تھا ہی نہیں کہ زکوٰۃ کی شرح ہر زمانے میں ایک ہی رہے‘‘۔
[مقام حدیث۲؍۳۹۲، بحوالہ انکار حدیث کے نتائج:۱۴۲]
قائین کرام دیکھ لیں کہ پرویز نے بھی وہی بات کہی اور غامدی صاحب نے بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا، مگر پرویز نے اپنی بات حدیث کا انکار کرکے کہی اور غامدی صاحب نے احادیث کے اقرار کا جھانسا دے کر وہی بات کہہ دی، یہ ہے فتنہ غامدیت کا دجل و فریب اور عیاری و مکاری۔۔۔!
قارئین کرام کہیں اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ جناب غامدی صاحب یوں تو اصولی طور پر احادیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں، ویسے کہیں ایک دو احادیث کا کسی عارضے کی بناء پر انکار کیا ہے۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔! وہ اصولی طور پر سرے سے ہی حدیث کی حجیت کے منکر ہیں،اور حدیث ان کے یہاں حجت کا درجہ نہیں رکھتی، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’نبیﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں، اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘‘[میزان:۶۱]
لیجئے! رسول اللہﷺ کی قول و فعل اور تقریر کی تمام روایات، (جو زیادہ تر خبر واحد ہیں، مگر خبر مشہور اور متواتر بھی ان میں شامل ہیں) ان سے دین میں ’’کسی‘‘ عقیدے اور ’’کسی‘‘ عمل کا ’’کوئی‘‘ اضافہ نہیں ہوتا۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ کس قدر دوٹوک اور واضح انداز میں قطعی حصر کے ساتھ تمام تر احادیث کو بیک قلم جناب غامدی صاحب نے شہید کرڈالا ہے، کیا اب بھی ان کے انکارِ حدیث میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟ مگر اس کے باوجود انہیں اصرار ہے کہ وہ منکرِ حدیث نہیں بلکہ حدیث کو ماننے والے ہیں، چنانچہ بڑی معصومیت سے آگے چل کر فرماتے ہیں کہ: ’’لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نبیﷺ کی سیرت و سوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ، اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم و تبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ حدیث ہی ہے۔ لہٰذا اس کی اہمیت ایسی مسلم ہے کہ دین کا کوئی طالب علم اس سے کسی طرح بے پروا نہیں ہوسکتا‘‘ [ایضا]
سبحان اللہ! رسول اللہﷺ کی سیرت و سوانح کو جاننے کا اہم ترین ذریعہ حدیث ہے، مگر اس حدیث سے نہ تو ’’کسی‘‘ عقیدے میں ’’کوئی‘‘ اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی’’ کسی‘‘ عمل میں۔
ظاہر میں اور رنگ ہے، باطن میں اور رنگ
خصلت مزاجِ یار میں رنگِ حنا کی ہے
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ جناب غامدی صاحب کے اس واضح انکار حدیث کے باوجود بھی ان کی ضد ہے کہ انہیں منکرِ حدیث نہ کہا جائے، اپنے منکرِ حدیث نہ ہونے کے ’’ثبوت‘‘ کے طور پر انہوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’مبادی تدبرِ حدیث‘‘ کے عنوان سے ایک پورا باب بھی لکھا ہے جس میں احادیث کے ردّ و قبول کے ’’زرّیں اور سنہرے‘‘ اصول بھی درج فرمائے ہیں، غامدی صاحب کی مندرجہ بالا عبارت پڑھنے کے بعدجب قاری آگے چل کر ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کو پڑھتا ہے تو شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ غامدی صاحب جب حدیث کی بنیاد پر کسی عقیدے یا عمل میں اضافے کو تسلیم نہیں کرتے، تو پھر ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ بیان کرنے کی انہیں کیا حاجت ہے؟مگر چند سطور پڑھ کر قاری پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ جناب غامدی صاحب مطلقاً حدیث کا اِنکار نہیں کرتے، وہ صرف اس حدیث کا انکار کرتے ہیں جو ان کے مطلب کے خلاف ہو، جو حدیث ان کے مطلب کی ہو، یا اس کی کوئی ان کے مطلب کی تاویل ممکن ہو، اسے وہ بڑے شوق سے اپنے ’’تدبر حدیث‘‘ کے اصولوں سے پاس کرکے اپنی کتابوں میں سجا لیتے ہیں، اور جو حدیث ان کی منشاء و مطلب سے میل نہ کھاتی ہو، اس کی کوئی احمقانہ سے احمقانہ تاویل بھی ممکن نہ ہو، تو وہ اپنے من گھڑت ’’تدبر حدیث‘‘ کے اصولوں کی بناء پر اسے صاف صاف ٹھکرا دیتے ہیں، بے شک پوری امت اس حدیث کی صحت پر متفق ہی کیوں نہ ہو اور بے شک وہ حدیث صحیح بخاری یا مؤطا امام مالک ہی کی روایت کیوں نہ ہو۔بندہ کی باتوں کی دلیل ذرا غامدی صاحب کی اس عبارت میں ملاحظہ فرمایئے! فرماتے ہیں:
’’اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس(سندِ حدیث کو پرکھنے کے) معیار کا اطلاق آپﷺ سے متعلق ہر روایت پر بغیر کسی رُو رعایت کے اور نہایت بے لاگ طریقے پر کیا جائے، اور صرف وہی روایتیں قابلِ اعتناء سمجھی جائیں جو اُس پر ہر لحاظ سے پوری اترتی ہوں(اور غامدی صاحب کے کسی ارشادیاسوچ کے خلاف نہ ہوں، [ناقل])۔ اس کے علاوہ کسی چیز کو بھی، خواہ وہ حدیث کی امہاتِ کتب، بخاری و مسلم اور مؤطا امام مالک ہی میں کیوں نہ بیان ہوئی ہو، آپ کی نسبت سے ہرگز کوئی اہمیت نہ دی جائے‘‘[میزان: ۶۲]
یہ تو صرف ایک اصول تھا، اب ذرا لگے ہاتھوں اس اصول کا غامدی صاحب کے ہاتھوں اجراء بھی دیکھتے جائیے! بخاری شریف اور مؤطا امام مالک، دونوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے کہ شادی شدہ آدمی کو رجم کی سزا دینے کے بارے میں قرآن پاک میں آیت موجود تھی، پھر اس آیت کی تلاوت منسوخ کردی گئی اور اس کا حکم باقی رکھا گیا، غامدی صاحب شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا کو حد تسلیم نہیں کرتے اور یہ حدیث ان کے من گھڑت اور مردود مؤقف کو جڑ سے اکھاڑ رہی تھی، لہذا اس کی کوئی من چاہی تاویل نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے اس حدیث کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اسے ’’منافق راویوں‘‘ کی کارستانی قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’جس منافق نے بھی اسے وضع کیا ہے، اس کا مقصد صاف یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو لوگوں کی نگاہوں میں مشتبہ ٹھہرایا جائے‘‘ [برہان:۶۱]
لیجئے! بخاری شریف اور مؤطا امام مالک کی یہ حدیث نہ صرف موضوع ہے، بلکہ اس کو وضع کرنے والا بھی کوئی منافق ہے اور اس منافق نے بھی محض دل لگی کے لیے نہیں بلکہ خاص قرآن پاک کو مشتبہ بنانے کے لیے اس حدیث کو گھڑ ا ہے، اور امام بخاری و امام مالک رحمہما اللہ نعوذ باللہ نادان محض ہیں کہ کسی منافق کی قرآن کو مشتبہ ٹھہرانے والی اس روایت کو اپنی اپنی کتابوں میں بڑے ذوق سے درج کررہے ہیں، اور ساری کی ساری امت تب سے لے کر اب تک ایسی بے سمجھ واقع ہوئی ہے کہ قرآن کو مشتبہ ٹھہرانے والی اس حدیث پر ایمان و یقین رکھتی چلی آرہی ہے اور بڑے ذوق و شوق سے اسے پڑھتی پڑھاتی ہے، اور کسی کو بھی اس کے قرآن کے مخالف ہونے کا علم نہیں ہوا، چودہ سو سال تک اس امت میں الف سے لے کر یا تک جاہل ہی جاہل اور نادان ہی نادان پیدا ہوتے رہے اور اب جا کر خدا وند قدوس کو اس امت کی حالت پر رحم آیا تو اسے غامدی صاحب جیسا محقق و مدقق اور محدث و مفسر عطاء کیاجس نے اس عظیم اور اجتماعی جہالت سے امت کو باہر نکالا۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔!
قارئین کرام۔۔۔! اگر غامدی صاحب کی تحقیق کو مانا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہم نے اوپر درج کیا، اور اگر اس نتیجے کو قبول کرنے پر ایمان و ایقان اور عقل و دانش آمادہ نہیں تو پھر دوسرا اور درست راستہ یہی ہے کہ جناب غامدی صاحب کو ہی جاہل قرار دے کر ان کی تحقیق کو ٹھکرا دیا جائے۔
یہ تو رجم کی ایک حدیث کے ساتھ غامدی صاحب کا سلوک تھا، یہی نہیں، رجم کی تمام احادیث جو متواتر ہیں، ان سب کو ذکر کرنے اور ان میں بزعم خویش تضادات ثابت کرنے کے بعد یہ خود ساختہ محقق صاحب ان سب کے بارے میں یوں گوہر افشانی فرماتے ہیں کہ:
’’یہ ہے ان روایات کی حقیقت جن سے قرآن کے حکم میں تبدیلی کی جاتی اور شادی شدہ کے لئے رجم کا قانون اخذ کیا جاتا ہے، ان کے اس ابہام و تناقض کو دیکھئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ کسی انسان کے لئے سنگ ساری کی سزا تو بڑی بات ہے، اگر کسی مچھر کو ذبح کردینے کا قانون بھی اس طریقے سے بیان کیا جائے تو کوئی عاقل کیا اسے قبول کرسکتا ہے؟‘‘۔ [برہان: ۶۳]
یہ ہے جناب غامدی صاحب کا حدیث کے بارے میں بغض جو اُبل اُبل کر باہر آرہا ہے۔
اِسی طرح ’’سبعۃ احرف‘‘ والی حدیث جو مؤطا امام مالک اور دیگر امہات کتب میں بیان ہوئی ہے اور محدثین کے نزدیک صحیح ہے، اس کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اِس روایت کے بارے میں ذیل کے چند حقائق اگر پیش رہیں تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ایک بالکل ہی بے معنیٰ روایت ہے جسے اس بحث میں ہرگز قابلِ اعتناء نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘[میزان:۳۰]
پھر وہی نادانی کی بات! کہ ساری امت ایک بے معنی روایت کو صدیوں سے سینے سے لگائے بیٹھی ہے اور آج جاکر ایک مغربی بولی بولنے والے دانشور کو اس کے بے معنی ہونے کا علم ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کی یہ ژاژ خائی اور لن ترانی کسی بھی عقل مند کے نزدیک ایک ذرہ بھی قابل التفات نہیں ہے۔اسی طرح نزولِ مسیح علیہ السلام کی روایات جو متواتر کے درجے تک پہنچتی ہیں، ان سب کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نزولِ مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھئے تو وہ بھی محل نظر ہیں‘‘۔ [میزان:۱۷۸]
نجانے قرآن مجید کی وہ کون سی روشنی ہے جو جناب غامدی صاحب سے پہلے آج تک چودہ صدیوں میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی اور چودہ صدیوں بعد جناب غامدی صاحب ہی کو وہ کہیں سے دستیاب ہوئی ہے۔ عہدِ صدیقی میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی مشاورت سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں جمعِ قرآن کی روایت جوبخاری[رقم:۴۶۷۹] میں موجود ہے، اس کا اِنکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع و تدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قرآن، جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا، اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہﷺ کی حین حیات مرتب ہوا ہے، لیکن یہ روایتیں اس کے خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہوسکتی ہے۔‘‘[میزان:۳۱، طبع پنجم]
معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کا قرآن بھی ساری امت سے الگ کوئی اپنا ہی ہے اور عقل عام سے اُن کی مراد بھی غالبا اُن کی اور اُن کے ’’لائق و فائق‘‘ شاگردوں کی عقل ہی ہے جو ساری امت کی عقل سے ماورا اور بالاتر ہے۔ اس قدر صحیح اور متواتر احادیث کو ٹھکرانے کے لیے جناب غامدی صاحب نے ’’تدبر حدیث‘‘ کے جو زرّیں اصول ایجاد کیے ہیں،مناسب ہوگا کہ ان میں سے ایک آدھ کی زیارت بھی قائین کرام کو کروا دی جائے، فرماتے ہیں:
’’لیکن ہر انسانی کام کی طرح حدیث کی روایت میں بھی جو فطری خلا اس کے باوجود باقی رہ گئے ہیں، اُن کے پیشِ نظر یہ دو باتیں اُس کے متن میں بھی لازماً دیکھنی چاہئیں:
ایک یہ کہ اُس (حدیث) میں کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔
دوسری یہ کہ علم و عقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو‘‘۔ [میزان:۶۲، طبع نہم]
لیجئے! کوئی حدیث محدثین کرام کے کڑے معیار پر پوری اترتی ہو، پوری امت اسے صحیح مانتی ہو، پھر بھی ’’انسانی کام میں رہ جانے والے خلا‘‘ (جو صرف غامدی عینک سے نظر آسکتے ہیں جو کہ حال ہی میں ایجاد ہوئی ہے) کے پیش نظر یہ ضرور دیکھ لیں کہ یہ حدیث قرآن و سنت اور ’’علم و عقل کے مسلمات‘‘ کے خلاف تو نہیں،اور یاد رہے کہ ’’علم و عقل کے مسلمات‘‘ سے جمہور امت کے علمی و عقلی مسلمات ہر گز مراد نہیں چونکہ وہ تو ’’انسانی کام‘‘ ہیں جن میں خلا باقی رہ سکتا ہے، بلکہ یہاں صرف ’’المورد‘‘ کی فیکٹری میں تیار کردہ علم و عقل کے جدید ترین غامدی مسلمات مراد ہیں جو کہ غالباً آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور جن کی بدولت آپ اب کسی بھی متفق حدیث کو بآسانی ٹھکرا سکتے ہیں۔جناب غامدی صاحب اپنی کتابوں میں جو احادیث پیش کرتے ہیں، وہ انہیں حجت سمجھ کر پیش کرتے ہیں یا کسی اور نظریے سے؟ اس سوال کا جواب بھی ہم غامدی صاحب کے حوالے سے پیش کرتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’نبیﷺ کی نسبت سے جو چیزیں روایتوں میں بیان ہوئی ہیں، وہ اس میں متابعات کی حیثیت سے آئی ہیں‘‘۔[میزان:۶۵۰]
یعنی احادیث بذات خود حجت نہیں ہیں، صرف قرآن کی تائید کے لیے انہیں ’’متابعت‘‘ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں جابجا انہوں نے اپنی مرضی کی بعض احادیث کو کھینچ تان کر قرآن پاک ہی کے کسی حکم کی ’’تبیین‘‘ یا ’’توسیع‘‘ قرار دے کر قبول فرمایا ہے اور جس کو دل چاہا قرآن کے مخالف قرار دے کر ٹھکرا دیا ہے۔ بات وہی ہے کہ جن احادیث سے جناب غامدی صاحب کے کسی نظریے اور موقف پر زد نہیں پڑتی، وہ بڑے شوق سے قبول کی جاتی ہیں، اور جو ان کے کسی باطل نظریے کو ٹھیس پہنچاتی ہیں، وہ بلا تردد مسترد کردی جاتی ہیں۔