جاوید غامدی کا ذاتی اور علمی پس منظر

کہتے ہیں کہ انسان اپنے استادوں سے اور استاد اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے۔ آیئے! اس حوالے سے ایک شاگرد، استاد اور استاذ الاساتذہ کی سوانح اور کردار وعمل کا جائزہ لیتے ہیں ۔

“حمیدالدین فراہی “

یہ 1900ء کا ذکر ہے۔ ہندوستان پر برطانوی سامراج کی دوسری صدی چل رہی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے مشہور ذہین اور شاطر دماغ یہودی ”لارڈ کرزن” تھا۔ ان صاحب کو مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر اور صہیونی مقاصد کی تکمیل کا شیطانی شغف تھا۔ انگریز نے برصغیر کی زمین پاؤں تلے سے کھسکتے دیکھ لی تھی۔ سونے کی ہندوستانی چڑیا کے پر وہ نوچ چکا تھا۔ اب مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور ارض اسلام کو اپنے گماشتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔

لارڈ کرزن کو انگریز سرکار کی جانب سے حکم ملا تھا کہ وہ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں مقیم عرب سرداروں سے ملاقات کرے اور مطلب کے لوگوں کی فہرست بنائے۔ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں سے مراد کویت، سعودی عرب کا تیل سے لبالب مشرقی حصہ جو اس وقت آل سعود کے زیرنگیں تھا، نیز بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات میں شامل سات مختلف ریاستیں اور عمان ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ ریت پر لکیریں کھینچ کر ”جتنا کم اتنا لذیذ” کے اُصول پر عمل کرتے ہوئے جس طرح کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں اسی طرح ”جتنا مالدار اتنا چھوٹا” کے اصول پر عرب ریاستیں اپنے دوست عرب سرداروں میں تقسیم کرچکے تھے۔ اب اس تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فیلڈ ورک کی ضرورت تھی اور لارڈ کرزن اپنے مخصوص یہودی پس منظر کے سبب یہ کام بخوبی کرسکتا تھا۔

لارڈ کرزن خلیج عرب کے خفیہ دورے پر فوری روانہ ہونا چاہتا تھا اور اسے کسی معتمد اور رازدار عربی ترجمان کی ضرورت تھی۔ برصغیر میں عربی اس وقت دو جگہ تھی۔ یا تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ دینی مدارس، یا پھر علی گڑھ کا شعبہ عربی۔ اول الذکر سے تو ظاہر ہے کوئی ایسا ٹاؤٹ ملنا دشوار تھا۔ لارڈ کرزن کی نظر انتخاب اسی طرح کی مشکلات کے حل کے لیے قائم کیے گئے ادارہ علی گڑھ پر پڑی وہاں ایک مانگو تو چار ملتے تھے۔ مسئلہ چونکہ وائسرائے ہند کے ساتھ خفیہ ترین دورے پر جانے کا تھا جس کے مقاصد اور کارروائی کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا اس لیے کسی معتمد ترین شخص کی ضرورت تھی جو عقل کا کورا اور ضمیر کا مارا ہوا ہو۔ سفارشوں پر سفارشیں اور عرضیوں پر عرضیاں چل رہی تھیں کہ خفیہ ہاتھ نے کارروائی دکھائی اور علی گڑھ کے سر پرستان اعلیٰ کی جانب سے ایک نوجوان فاضل کا انتخاب کرلیا گیا۔

لارڈ کرزن صاحب کو ان کی عربی دانی سے زیادہ سرکار سے وفاداری کی غیرمشروط یقین دہانی کرادی گئی اور یوں یہ عجمی عربی دان مسلمان ہوکر بھی اس تاریخی سفر پر انگریز وائسرائے کا خادم اور ترجمان بننے پر راضی ہوگیا جس کے نتیجے میں آج خلیجی ریاستوں میں استعمار کے مفادات کے محافظ حکمران کلا گاڑے بیٹھے ہیں اور امریکی وبرطانوی افواج کو تحفظ اور خدمات فراہم کررہے ہیں۔

یہ نوجوان فاضل حمید الدین فراہی تھے۔ جو اُترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک گاؤں ”فراہا” میں پیدا ہوئے۔ آپ مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی (1858-1914) کے کزن تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور MAO کالج میں عربی پڑھاتے رہے۔ لارڈ کرزن کی ہم راہی کے لیے ان کے انتخاب میں علی گڑھ میں موجود ایک جرمنی پروفیسر ”جوزف ہوروز” کی سفارش کا بڑا دخل تھا جو یہودی النسل تھا اور آپ پر اس کی خاص نظر تھی۔ آپ نے اس سے عبرانی زبان سیکھی تھی تاکہ تورات کا مطالعہ اس کی اصل زبان میں کرسکیں۔

لارڈ کرزن صاحب جناب فراہی کی صلاحیت اور کارکردگی سے بہت خوش تھے چنانچہ واپسی پر انہیں انگریزوں کی منظور نظر ریاست حیدر آباد میں سب سے بڑے سرکاری مدرسہ میں اعلیٰ مشاہرے پر رکھ لیا گیا اور آپ نے وہاں سے اس کام کا آغاز کیا جو قسمت کا مارا یہودیوں کا پروردہ ہر وہ شخص کرتا ہے جسے عربی آتی ہو۔ آپ نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی ”مخصوص انداز” میں خدمت کے لیے وقف کرلیا۔ مخصوص انداز سے مراد یہ ہے کہ تمام مفسرین سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کی کہ قرآن کریم کو محض لغت کی مدد سے سمجھا جائے۔ یہ لغت پرست مفسرین دراصل اس راستے سے قرآنی آیات کو وہ معنی پہنانا چاہتے تھے جس کی ان کو ضرورت محسوس ہو اگرچہ دوسری آیات یا احادیث، مفسرین صحابہ وتابعین کے اقوال اس کی قطعی نفی کرتے ہوں۔ درحقیقت قرآن سے ان حضرات کا تعلق، انکار حدیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتا ہے جیسا کہ تمام منکرین حدیث کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے اس عیب کو چھپانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ چڑھ کر تعلق اور شغف کا اظہار کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔ فراہی صاحب پر لارڈ کرزن کا دست کرم تھا کہ حیدر آباد کی آغوش ان کے لیے خود بخود وا ہوگئی اور انہیں ایک بڑے ”علمی منصوبے” کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

اس منصوبے نے جو برگ وبار لائے انہیں مسلمانان برصغیر بالخصوص آج کے دور کے اہالیان پاکستان خوب خوب بھگت رہے ہیں۔ فراہی صاحب نے ”تفسیر نظام القرآن” لکھی جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کتب خانوں میں تلاش کرنے سے بھی مل کے نہیں دیتی۔ علامہ شبلی نعمانی، فراہی صاحب کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحریر ”دارالمصنفین” میں شائع ہونے کے لیے آئیں لیکن ان کی طباعت سے انکار کردیا گیا کہ زبردست فتنہ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فراہی صاحب اپنے پیچھے چند شاگرد، چند کتابیں اور بے شمار شکوک وشبہات چھوڑ کر 1930ء میں دنیا سے رُخصت ہوگئے۔

“امین احسن اصلاحی “

فراہی صاحب نے حیدر آباد سے منتقل ہونے کے بعد اعظم گڑھ کے ایک قصبے ”سرائے میر” میں ”مدرسۃ الاصلاح” نامی ادارہ قائم کیا۔ نام سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ تفسیر کے مسلّمہ اُصولوں کی اصلاح کرکے نئی جہتیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے اس مدرسے میں 1922ء میں ایک نوجوان فارغ ہوا جو اساتذہ کا منظور نظر اور چہیتا تھا۔ فراہی صاحب نے اسے دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ”قرآن کریم کا مطالعہ” کرے۔ یہ نوجوان آگے چل کر فراہی صاحب کا ممتازترین شاگرد اور ان کے نظریات وافکار کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔

یہ جب مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوا تو امین احسن تھا، فارغ ہوا تو ”امین احسن اصلاحی” (1904-1997) بن چکا تھا۔

اس نے فراہی صاحب کی وفات کے بعد آپ کی یاد میں رسالہ ”الاصلاح” جاری اور ”دائرہ حمیدیہ” قائم کیا۔

اصلاحی صاحب انکار حدیث اور اجماع امت کا منکر ہونے کے علاوہ جماعت اسلامی کے بانیوں میں سے تھے۔ قیام کے دوران مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ 1958ء میں مودودی صاحب سے اختلافات کی بنا پر جماعت سے علیحدہ ہوئے اور وہی کام شروع کیا جو ان کے استاذ نے آخری عمر میں کیا تھا۔

آپ نے ”حلقہء تدبر قرآن” قائم کیا جس میں کالج کے طلبہ کو قرآن کریم اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ ”تدبر قرآن” کے نام سے تفسیر لکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی لیکن اسے مقبول کروانے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ فراہی صاحب بہرحال عالم فاضل شخص تھے لیکن اصلاحی صاحب اس پائے کے عالم نہ تھے۔ مغربی علوم تو کیا وہ شرعی علوم سے بھی کماحقہ، واقف نہ تھے۔ ان کی تفسیر میں کئی بچگانہ غلطیاں ہیں جن میں سے کچھ اگلے مضمون میں قارئین کے سامنے پیش کی جائیں گی ۔ اصلاحی صاحب ہفتہ وار درس بھی دیتے تھے لیکن انکار حدیث، تجدد پسندی اور لغت پرستی نے انہیں اپنے پیش رو استاذ کی طرح کہیں کا بھی نہ چھوڑا تھا۔آخر خالد سعود اور جاوید غامدی جیسے شاگرد تیار کرکے 1997ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

“محمد شفیق المعروف جاوید احمد غامدی”

قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ 18 اپریل 1951ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عرف کاکوشاہ پڑگیا۔ یہ خاندان ککّے زئی کہلاتا تھا۔ اس طرح اس کا پورا عرفی نام ”کاکوشاہ ککّے زئی” بنا۔

محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککّے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس نام کے ساتھ تو وہ ”لہوریوں” کا سامنا نہ کرسکتا تھا۔ سوچ سوچ کر اسے ”جاوید احمد” نام اچھا معلوم ہوا کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی اب ”کاکو شاہ ککے زئی” کے لاحقے کا مسئلہ تھا لیکن فی الحال اسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔

اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا۔”رفیق احمد چوہدری”۔ وہ ان دنوں اور اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1972ء کا دور تھا۔ کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جدوجہد کررہا تھا۔ اس کی انگریزی تو یوں ہی سی تھی لیکن قدرت نے اسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا۔۔ وہ تھی طاقت لسانی۔ اس کے بل بوتے پر وہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا۔

آخر کار اس کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر 29جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ”دائرۃ الفکر” کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اسے مولانا مودودی مرحوم کے سایہ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو جماعتِ اسلامی میں پذیرائی ملی۔ رکنیت مجلس شوریٰ تو چھوٹی شے ہے، اس کے حواری اسے مولانا مودودی کا ”جانشین” بتانے لگے ۔ آخرکار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے 1957ء میں الگ ہونے والے مولانا امین اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا۔

آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔ اس لقب کی جناب ‘جاوید احمد غامد ی صاحب ‘ دو چار وجوہات بیان کرتے ہیں اور صحیح ایک کو بھی ثابت نہیں کرسکتے۔ حال ہی میں ان کے ایک شاگرد خاص نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ ”اصل میں وہ اصلاحی صاحب سے عقیدت کی وجہ سے اصلاحی لقب رکھنا چاہتے تھے لیکن ”مدرسۃ الاصلاح” سے فارغ نہ تھے۔ اس لیے غامدی نام رکھ لیا۔” سبحان اللہ! چھوٹے میاں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ غامدی نہ اصلاحی کے ہم وزن ہے نہ ہم معنی! آخر کس طرح سے اصلاحی سے غامدی تک چھلانگ لگادی گئی؟ گویا یہ پانچویں وجہ بھی عار ہے اور پورا مکتب فکر مل کر اپنے بانی کے نام کی درست توجیہ کرنے سے قاصر ہے۔

2001ء سے قبل غامدی صاحب کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی لیکن اسے کسی لارڈ کرزن کی سرپرستی دستیاب نہ تھی۔ 2001ء میں یہ کمی بھی پوری ہوگئی اور ان کے سرپر عصر حاضر کے لارڈ کرزن کا دست شفقت کچھ ایسا جم کرٹکا کہ وہ شخص جو دینی اور مذہبی علم کسی باقاعدہ مسلمہ دینی درس گاہ کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس کا علم جنگلی گھاس کی طرح خود رو ہے، اور ان کی عقل و فہم کسی مسلمہ ضابطہ کی پابند نہیں ہے، جو عربی کی دوسطریں سیدھی نہیں لکھ سکتا، جو انگریزی کی چار نظموں اور 4مصرعوں کی پونجی میں آدھے سے زیادہ مصرع چوری کرکے ٹانکتا ہے، وہ آج ملک کا مشہور ومعروف اسکالر ہے ۔
”فراہی سے اصلاحی اور اصلاحی سے غامدی تک” استاذی شاگردی کا سلسلہ اس مقولے کی صداقت کے لیے کافی سے زیادہ شافی، اور درکار ضرورت سے زیادہ پکی سچی گواہی ہے۔

غامدی صاحب کے متعلق اوپر جو باتیں لکھی گئیں یقینا یہ ان کے بہت سے محبین کے لئے نئی ہونگی – جناب جاوید احمد غامدی صاحب دین اسلام کے مقابلہ میں نئے ترمیم شدہ دین اور مذہب کی ایجاد کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح منصوص دینی مسلمات کے انکار پر کمر ہمت باندھی ہوئی ہے۔

……

جناب جاوید احمد غامدی…. شخصیت کا تعارف

ولادت: ١٩٥١ء کو ساہیوال کے علاقہ پاک پتن میں پیدا ہوانے والے اِن صاحب کا آبائی علاقہ سیالکوٹ کا ”داؤد” نامی قصبہ ہے۔
نام: نام کا قصہ یہ ہے کہ والدہ محترمہ کو ”جاوید” پسند تھا، والد کے شیخ نے ”کاکوشاہ”کہا۔ چھوٹی خالہ کے بیٹے کا نام رفیق تھا، انہوں سے ”شفیق” رکھ دیا۔ بڑی خالہ نے ”کاکامحمد” تجویز کیا۔بعد میں ایک استاذ کے مشورے سے ”شفیق احمد جاوید” اور پھر ”جاویداحمد” نام رکھ لیا۔
نسبت: ”غامدی” نسبت کی کہانی یہ ہے کہ اپنے آبائی گاؤں کے ایک بزرگ مصنف مقبول انوری داؤدی صاحب کو دیکھ کر شوق ہوا کہ میری بھی کوئی نسبت ہونی چاہیے۔ دادااِصلاح کا کام کرتے تھے، لہٰذا ”غمد الأمر” کا معنی ”أصلح الأمر” دیکھ کر ”غامدی” نسبت اختیار کرلی۔
تعلیم: پاک پتن کے ایم سی پرائمری سکول، پکاسدھار کے سکول، اسلامیہ ہائی سکول پاک پتن میں دسویں تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پانچ سال گورنمنٹ کالج لاہور میں گزارے۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میں بی اے کے ساتھ آرنر زکیا۔١٩٧٢ء کو فراغت ہوئی۔
دینی تعلیم: نانگپال(ضلع ساہیوال) کی مسجد کے امام مولوی نورمحمد (دیوبندی) صاحب سے شرح جامی تک عربی اور پند نامہ تک فارسی پڑھی۔ نویں جماعت تک فنون کی تمام کتب (گمنام اساتذہ سے) ختم کرلیں۔ بعد میں صوفی ضیاء الحق صاحب سے ”مقامات ہمدانی”، مولانا عطاء اللہ حنیف غیر مقلد سے ”دارمی” کا کچھ حصہ پڑھا۔ امین احسن اصلاحی صاحب سے ”زخرف” تا آخر قرآنِ پاک، مؤطا مالک، قرآن وحدیث پر تدبر کے اُصول ومبادی اور فلسفہ جدید کے بعض مباحث پڑھے۔
شعرگوئی: شعروشاعری کا شروع سے شوق رہا۔ ٦٨،٦٩ کے زمانہ میں کچھ اشعار بعض مجلات میں شائع بھی ہوئے۔
فکری تعلق: کالج کے آخری سال میں مولانا فراہی کی بعض کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کسی کتاب کے دیباچے میں اُن کے تلمیذ رشیدمعروف تجدد پسند عالم جناب امین احسن اصلاحی صاحب کا تذکرہ تھا۔ پوچھتے پاچھتے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی وساطت سے اُن تک پہنچے۔ ١٩٧٣ء میں اُن سے وابستہ ہوئے اور ١٩٨٣ء تک دس سال اُن کے ساتھ گزارے۔اُنھی کی ملاقاتوں سے جناب غامدی صاحب کو یہ ”شرح صدر” ہوا کہ: ”دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے۔”اور یہ ”حقیقت” بھی واضح ہوئی کہ: ”قرآن ایک قولِ فیصل ہے، دین وشریعت ہر چیز کے لیے میزان ہے۔ (لہٰذا اپنی عقل کے مطابق ) اِس کی روشنی میں ہم (متجددین) حدیث وفقہ، فلسفہ وتصوف اور تاریخ وسیر ہر چیز کا محاکمہ کرسکتے ہیں۔” مولانا اِصلاحی کی فکر غامدی صاحب کے لیے ”نئے قرآن” کی دریافت ثابت ہوئی۔ اور ١٩٨٣ء میں جب مولانا اصلاحی سے تعلیم کا مرحلہ مکمل ہوا تو غامدی صاحب کے معتقدات کی دنیا میں ایسا اضطراب پیدا ہوچکا تھا کہ ہرچیز اپنی جگہ چھوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔لہٰذا نئی تعمیر کی ضرورت تھی۔ اگلے سات برس اِسی بندوبست کی نذر ہوگئے۔
تصنیف: زمانۂ کالج میں ہی تصنیف کا شوق ہوا۔ کچھ تھوڑا بہت لکھا بھی۔ زیادہ تر منصوبے ہی بنائے۔ ١٩٩٠ء میں جب (نئے دین کی) تعمیر کے لیے زمین ہموار ہوئی تو مستقل لکھنا شروع کردیا۔ اَب تک جو تصانیف غامدی صاحب کے قلم سے سامنے آچکی ہیں، یہ ہیں:
١)…میزان: یہ پورے ”غامدی دین” کا بیان ہے۔
٢)…برہان: وہ مباحث جن میں غامدی صاحب نے جمہور علماء کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔
٣)…مقامات: اپنے ذاتی حالات واحساسات، اجتہادی مسائل میں ”دین ِ غامدی” کا موقف اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
٤)…خیال وخامہ اشعار کا مجموعہ ہے۔
٥)… البیان: قرآن پاک کا ترجمہ وتفسیر۔جو ”دین غامدی ” کی ترجمانی کے لیے وقف ہے۔اِس کی تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک ابھی باقی ہے۔
مودودی صاحب سے تعلق: چھٹی یا ساتویں کلاس کے تاریخ کے استاذ نصیر الدین ہمایوں صاحب کی وساطت سے مودودی صاحب کے نام اور کام کا تعارف ہوا تھا۔ اسلامی جمعیة طلبہ کے سالانہ اجتماع میں بھی اُسی زمانہ میں شرکت ہوئی۔وہیں مولانا مودودی کو دیکھا اور اُن کی ”دِل نواز شخصیت” کے اسیر ہوگئے۔
قائم کردہ ادارے: کالج کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ مل کر ”دائرة الفکر” کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہنامہ ”خیال” کے نام سے رسالہ بھی جاری کرنا تھا۔ ایک دارالعلوم بھی بنانا تھا۔ اِن تینوں چیزوں نے مودودی صاحب سے ایک قدم آگے بڑھ کر ”اسلامی انقلاب” کا کام کرنا تھا۔ جوخامی اُن کی جماعت میں رہ گئی تھی، اُسے دُور کرنا تھا۔ دارالعلوم کا نام ”جامعہ الحمرائ” تجویز ہوا تو رسالے کا نام بھی ”الحمرائ” سوچ لیا گیا۔ پہلا شمارہ ناتجربہ کاری کی بنا پر ایسا تھا کہ ضائع کرنا پڑا۔
١٩٧١ء میں علامہ اقبال روڈپر بعض دیگر لوگوں کی معاونت سے درس قرآن کا حلقہ قائم کیا گیا۔ ڈیڑھ دوبرس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر باقاعدہ ”تحریک” کی شکل دیدی گئی۔ لیکن جلد ہی اِس تنظیم کو ختم کرنا پڑا۔
مارچ ١٩٧٣ء میں ”دائرة الفکر” سے ”اشراق” نامی مجلہ چھاپا۔ لیکن ڈیکلریشن نہ ملنے کے باعث وہ جاری نہ رہ سکا۔کچھ عرصے بعد ”دائرة الفکر” کا نام تبدیل کرکے ”دارالاشراق” رکھ دیا گیا۔اُس زمانے میں مودودی صاحب کی خدمت میں بکثرت حاضری رہی۔ اُن سے کام کا ذکر کیا، سرپرستی قبول کرنے کی درخواست کی جو قبول ہوگئی۔ غامدی صاحب اور مودودی صاحب کے نام سے ایک مشترک اکاؤنٹ حبیب بینک اچھرہ میں کھولا گیا۔ مودودی صاحب اُس اکاؤنٹ میں ہزار روپیہ ماہنامہ اپنی جیب سے جمع کراتے رہے۔ غامدی صاحب بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ اچھرہ منتقل ہوگئے۔اِس دوران مودودی صاحب کی خواہش پر غامدی صاحب ”جماعت ِ اسلامی” کے رکن بن چکے تھے۔
١٩٧٦ء میں اچھرہ سے بوری بستراُٹھایا اور ”مریدکے” منتقل ہوگئے۔ اور جنوری ١٩٧٧ء میں غامدی صاحب کی ”جماعت اسلامی” سے رکنیت ختم کردی گئی۔ اس وقت میاں طفیل صاحب امیر تھے۔ غامدی صاحب کو ”جماعت اسلامی” سے نکال دیا گیا ۔ لیکن وہ ابھی بھی مودودی صاحب کی زلف کے اسیر ہیں۔ اور اُن کی جماعت کو ”اپنی برادری” سمجھتے ہیں۔
قیامِ ”مریدکے” کے دوران غامدی صاحب کے توجہ دلانے پر بعض اہل ثروت نے ”فرخ فاؤنڈیشن” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اور ایک رسالہ ”الاعلام” شروع کیا گیا۔ لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔
اِسی دوران غامدی اور اُن کے بعض دیگر رفقاء رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے تو فکر معاش دامن گیر ہوئی۔ مجبوراً اپریل ١٩٧٨کو ”دارالاشراق” نامی ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔اور ماہنامہ ”اشراق” کی ڈیکلریشن غامدی صاحب کے ایک ساتھی کے نام ملنے کے بعد جنوری ١٩٧٩ء کے شمارے میں اِس کا اعلان کردیا گیا۔البتہ غامدی صاحب نے رسالہ جاری رکھنے کا سوچا۔ لیکن دوہی شماروں کے بعد اُسے بھی بند کرنا پڑا۔
غامدی صاحب کے استاذ جناب امین احسن اصلاحی صاحب بھی ابتدا میں مودودی صاحب کے رفیق رہے، پھر اُن کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اور ”حلقہ تدبر قرآن” کے نام پر تعلیم قرآن کی آڑ میں اپنے تجددپسندانہ افکار کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ غامدی صاحب نے اپنے استاذ کے اِس حلقے پر بھی قابض ہونا چاہا اور آگے بڑھ کر ”ادارۂ تدبر قرآن وحدیث” کے نام سے ادارہ قائم کرکے اُس کے تحت سہ ماہی ”تدبر” رسالہ شروع کردیا۔لیکن جلد ہی احساس ہوگیا کہ: یہاں دال نہیں گلنے والی۔ تو اُس ادارے سے الگ ہوگئے۔
المورد کا قیام: بعض تلامذہ کے اصرار اور دیگر کی ہمنوائی پر جون ١٩٨٣ء میں ایک ادارہ قائم کیا جو اَب ”المورد” کے نام سے اِلحاد وزندقہ کی نشر واشاعت میں مصروف ہے۔ ١٩٨٥ء میں ماہنامہ ”اشراق” بھی شروع ہوگیا۔ ١٩٨٧ء میں اس کی ڈیکلریشن غامدی صاحب کو مل گئی تب سے مسلسل شائع ہورہا ہے۔ شروع میں غامدی صاحب کے پاس رہا، پھر اپنے بیٹے معاذ احسن کے حوالے کردیا۔ ”رینی رساں” نامی انگریزی رسالہ بھی ١٩٩٠ء سے اب تک جاری ہے۔