غامدی متاعِ حیات: غامدی صاحب جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور پاک پتن میں رہائش پذیر تھے، تب مطالعہ وتحقیق کے لیے لائبریری جایا کرتے تھے۔ راستے میں ایک بینک کے دروازے پر پہرا دینے والے سنتری سے آنکھیں چار ہوتی تھیں۔ ایک روز اُس نے روک لیا۔ غامدی صاحب کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ اُس نے کہا کہ: ”یہ کتاب پڑھ لو، یہ ایک بڑے آدمی کی کتاب ہے۔ اور میں تمہیں ایک اور کتاب دوں گا جس میں اِس کتاب پر علمی تنقید کی گئی ہے، کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے وہ بھی پڑھ لینا۔ علم کی دنیا میں اشخاص کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہاں ساری اہمیت صرف دلیل کو حاصل ہے۔”غامدی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دونوں کتابیں پڑھ لیں۔ ”یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں دلیل کی اہمیت سے واقف ہوا۔ میری یہی واقفیت آج بھی میری زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔”
]مقامات:١٣ تا ٤٢[
اِسی ”متاعِ حیات” نے غامدی صاحب کو علماء امت، فقہائے دین، صحابہ کرام، اہلبیت حتی کہ خود شارع علیہ الصلوة والسلام سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اور وہ ”دلیل” کے نام پر محض اپنے علم وعقل کے پیچھے چل پڑے۔ کیونکہ اُن کے نزدیک ”دلیل” نام ہی ”اپنے مطالعہ وفہم سے سمجھ میں آنے والی چیز” کا ہے ۔
دلیل کا تقاضا…مختلف ادوار، مختلف خیالات:(حکومتی دین)
غامدی صاحب کیونکہ ”دلیل” کی اہمیت سے واقف تھے، اِس لیے حالات وزمانہ کے مطابق اپنے خیالات وافکار میں مسلسل تبدیلیاں لاتے رہے۔ مثلاً: جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں غامدی صاحب کا خیال تھا کہ: مذہب انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہی نہیں، ریاستی ضرورت بھی ہے۔ اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے پہلے تک اُن کی یہی رائے رہی۔ چنانچہ ١٩٩١ء اور ١٩٩٣ء کے مطبوعہ مضامین میں لکھتے ہیں:
”بعض جماعتوں کے لیڈر اَبھی یہ جسارت تو نہیں کرسکتے کہ اِس معاشرے کو کھلم کھلا اِلحاد اور بے دینی کی دعوت دیں۔ چنانچہ اُنھوں نے اِس کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ: مذہب لوگوں کا انفرادی مسئلہ ہے۔ وہ اگر اسے اختیار کیے رکھنا چاہتے ہیں تو کیے رکھیں، لیکن جہاں تک ریاست کا تعلق ہے ، اسے مذہب سے بالکل بے تعلق رہنا چاہیے۔ ان کے نزدیک یہ بات اب مسلمات میں سے ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ … یہ نقطۂ نظر ظاہر ہے کہ محض جہالت پر مبنی ہے۔” ]پس چہ باید کرد،ص:٤٨۔طبع: ١٩٩٣ئ…ماہنامہ تذکیرجنوری ١٩٩١ئ،ص:٢٨[
لیکن جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ”دلیل” کا تقاضایہ ہوا ”روشن خیال اسلام” تشکیل دیا جائے، چنانچہ اُس کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ اور ملکی حالات عموماً اُسی رخ پر چلنے کے باعث تاحال ”دلیل” کا تقاضا یہی ہے۔ چنانچہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:
”یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے۔ اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔” ]روزنامہ جنگ٢٧جنوری ٢٠١٥ئ[
اِسی طرح پرویز مشرف کی آمد سے قبل ”دلیل” کا تقاضا یہ تھا کہ داڑھی ”سنت” اور ”دین کا حصہ” ہو، لیکن زمانہ مشرف میں ”دلیل” کا تقاضا تبدیل ہوگیا۔غامدی صاحب اپنا حالیہ موقف یوں لکھتے ہیں:
”داڑھی مرد رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی۔ آپ کے ماننے والوں میں سے کوئی شخص اگر آپ کے ساتھ تعلق خاطر کے اظہار کے لیے یا آپ کی اتباع کے شوق میں داڑھی رکھتا ہے تو اسے باعث ِسعادت سمجھنا چاہیے، لیکن یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے۔”]مقامات:١٣٨،طبع اول[
”دلیل” کے تقاضے کی ایک اور مثال بھی پڑھتے جائیے! غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”مقامات” پہلی مرتبہ ٢٠٠٦ء میں طبع کرائی تھی، جس کے تین حصے تھے: عربی، اردو، انگریزی۔ عربی کے کل ٢٢ صفحات تھے، ہر صفحے میں ٢٢ سے زیادہ فحش غلطیاں۔ انگریزی شاعری دوسرے انگریز شاعروں کے کلام کا سرقہ تھی۔جب اِن دونوں چیزوں پر گرفت شروع ہوئی تو ”دلیل” کا تقاضا یہ ہوا کہ کتاب کتب خانوں سے اٹھالی جائے۔ لہٰذا اُٹھالی گئی۔ ٢٠٠٨ء میں دوبارہ شائع کی گئی، جس میں سے عربی اور انگریزی والا حصہ غائب تھا۔کتاب پر ”طبع اول٢٠٠٨ئ” کا لفظ جگمگا رہا تھا۔ رہے نام ”دلیل” کا۔!!
اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے نگران ڈاکٹر خالد جامعی صاحب کا غامدی دین پر تبصرہ برمحل اور درست ہی معلوم ہوتا ہے کہ: ”غامدی صاحب کا دین ”حکومتی دین” ہوتا ہے۔ جیسی حکومت، ویسا دین۔”
غامدی صاحب کی بنیادی فکر…اور دین غامدی کا خلاصہ:
مشرف کے دورِ اقتدار میں غامدی صاحب کو بالکل اُسی طرح بلکہ اُس سے بڑھ کر سرکاری مشینری کی سرپرستی اور پذیرائی حاصل ہوئی جس طرح ایوب خان کے زمانہ میں غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن اور عمر احمد عثمانی کو ملی۔ چنانچہ غامدی صاحب کو ”اسلامی نظریاتی کونسل” کا رکن چن لیا گیا۔ ہوم سیکرٹری اور اِس سے اعلیٰ درجے کے افسران میں غامدی صاحب کے ”تربیتی دروس” ہونے لگے۔ ٹی وی اور میڈیا کے ذریعے بام عروج پر پہنچایا گیا۔ اور پرویز مشرف کے ایماء پر ایک ایسے ”اسلام” کی تشکیل کے در پئے ہوئے جو دنیا کے تمام مذاہب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کے لیے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ کلمہ سے لے کر وصیت کے مسائل تک میں ”قدیم اسلام” سے الگ اور جداگانہ مسائل وضع کیے۔ چنانچہ غامدی پارٹی کا موقف ہے کہ: یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اس کے بغیر بھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔ اُن کے لیے اپنی کتاب اور اپنے نبی کو ماننا کافی ہے۔]اشراق،جنوری٢٠٠٨،ص:٧٠[
غامدی صاحب چونکہ (بحکم پرویزمشرف) اِس کوشش میں تھے کہ ایسا دین تشکیل دیا جائے جو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے قابل قبول ہو۔ لہٰذا ”سنت” کی بھی ایسی تعبیر وضع کی جو دراصل یہود ونصاریٰ میں رائج العمل ہو۔ چنانچہ غامدی صاحب کے نزدیک ”سنت” حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی فعل کا نام نہیں۔ بلکہ ”دین ابراہیمی کی روایت” کا نام ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِصلاح کے بعد ”دین کی حیثیت سے” جاری فرمایا ہو۔گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ”شارع” کے بجائے صرف ایک ”مجدد” کی رہی۔ اور ”دین کی حیثیت” سے ہونے کے فیصلے کا معیار ”عقل غامدی” کے سوا کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
صرف اِسی پر بس نہیں بلکہ غامدی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:اِس سنت کی تفصیلات کو قرآن سے اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، بلکہ اس کے حاملین کے اجماع اور تواتر سے اس کی تفصیلات لی جائیں گی۔ ]میزان،ص:٤٧،طبع مئی ٢٠١٤ئ[ظاہر بات ہے کہ دین ابراہیمی کی روایت کے حاملین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ ہی تھے۔ لہٰذا غامدی دین کی ”سنت” کی تفصیلات یہود ونصاریٰ کے اجماع اور تواتر سے حاصل کی جائیں گی۔
غامدی صاحب اپنی مزعومہ سنت کے بارے میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ: یہ قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن پر مقدم ہے۔]ایضاً[ یعنی یہود ونصاریٰ کے طریقے مسلمانوں کے قرآن پر مقدم ہیں۔اگر کہیں قرآن اور یہود ونصاریٰ کے عمل میں تقابل ہوجائے تو قرآن کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہود ونصاریٰ کے عمل کو اپنا لیا جائے گا۔ یہی ”غامدی اسلام” ہے۔
د غامدی صاحب ”حدیث” کی طرف بڑھے اور صاف صاف کہہ دیا کہ: ”حدیث سے دین میں کسی عقیدہ یا عمل کا اضافہ نہیں ہوسکتا۔” ]میزان:١٥[ یعنی حدیث شریف محض بطورِ برکت پڑھنے کی چیز ہے۔ فکری وعملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ بہت سے اسلامی عقائد اور سیکڑوں احکاماتِ شرعیہ کا دارمدار احادیث مبارکہ پر ہے۔ غامدی صاحب نے بیک جنبش قلم سب کا انکار کردیا۔
قرآن وسنت اور حدیث کے بعد تیسری دلیل شرعی ”اجماعِ امت” ہے جو غامدی صاحب کے نزدیک ویسے ہی بدعت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ”دین کے مآخذ میں اجماع کا اضافہ یقینا بدعت ہے۔” ]اشراق،اکتوبر٢٠١١ئ،ص:٢[ لیکن حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب ”امت ِمسلمہ” کے اجماع کو تو بدعت قرار دیتے ہیں، لیکن حاملین روایت ِدین ابراہیمی (یہودونصاریٰ) کے اجماع وتواتر کو تسلیم کرتے ہیں۔ ]میزان:٤٧[ ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے