سعید حمید
ممبئی :خلافت ، کانگریس اور جمعتہ کے نیشنلسٹ مسلمانوں پر ان کے مخالفین نے الزام عائد کیا کہ وہ مہاتما گاندھی کی اندھی تقلید کر رہے تھے اور ان پر مہاتما گاندھی کی شخصیت کا سحر اس قدر چل چکا تھا کہ وہ کسی بھی قدم پر غور کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے تھے ، مہاتما گاندھی کے مشورے پر آنکھ بند کرکے چلنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ، اس اندھی تقلید اور مہاتما گاندھی کی شخصیت کے سحر نے ان سے ایسے کام بھی کروالئے ، جن سے ہندوستانی مسلمانوں کا بھاری نقصان ہوا ، ان میں سے ایک ہے ، تحریک ہجرت ۔ بعض مصنفین اور صحافی اس تحریک کو گاندھی کی سازش اور نیشنلسٹ مسلمانوں ، خلافت ، جمعیتہ کے اکابرین کی فاش غلطی بھی قرار دیتے ہیں ۔
خلافت کمیٹی کو بعض مورخین جس قصور کیلئے معاف نہیں کرتے ہیں ، وہ ہے بغیر کسی حکمت و منصوبہ بندی کے اعلان یا فتوی ہجرت ۔ سادہ لوح مسلمان اس جوش میں کہ اب یہ ملک دارلحرب ہے ، اور یہاں سے افغانستان ہجرت ہی واحد راستہ ہے ، بھارت کے مسلمانوں کو تباہی کے راستہ پر پہنچا دیا ، لاہور کے روزنامہ پیسہ نے اپنے اداریہ میں ہجرت تحریک کی ناکامی اور اس کے تباہ کن اثرات پر حسب ذیل لکھا ؛ ’’خلافت کمیٹی کے علم برداروں نے سب سے پہلے ہجرت کا ڈنکہ بجایا ۔ہزاروں سادہ لوح لیکن ایمان کے پکے مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں فروخت کیں ، عورتوں کو طلاق دیا ،چھوٹے چھوٹے بچوں کو بلکتا چھوڑ دیا ، بہتوں کی جانیں پشاور اور کابل کی سڑکوں پر تلف ہوئیں ، بعض منزل مقصود پر پہنچ کر جاں بحق ہوئے ، بعض واپسی پر راہ میں تباہ ہوئے ، اکثر کا روپیہ پیسہ لوٹا گیا ۔جو بچ کر واپس آئے ان میں سے اکثر گداگر ی کرنے پر مجبور ہوئے ، اس طرح خلافت کمیٹی نے ہزاروں کلمہ گو مسلمانوں کی شہادت اور بربادی کا ثواب حاصل کیا ‘
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے
کیا دین برحق کو بد نام انہوں نے ‘‘
( حوالہ ؛ روزنامہ پیسہ اخبار ، لاہور ، ۸ ؍اپریل ۱۹۲۱ ء ۔ اداریہ ؛ بعنوان ۔ معاملہ ہجرت میں صریح ناکامی )
مہاتما گاندھی اور خلافت تحریک کے مخالفین نے یہ الزام عائد کیا کہ تحریک ہجرت مسلمانوں کو تباہ کرنے کی ایک چال تھی اور اس کے پس پشت مہاتما گاندھی کا دماغ کام کر رہا تھا ۔
مرتب جلال الدین قادری کی کتاب ’’ابولکلا م آزاد کی تاریخی شکست ‘‘ میںتحریر ہے ؛
’’۱۹۲۰ ء میں گاندھی نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے ایک اور چال چلی ، جمعتہ العلماء ہند اور خلافتی لیڈروں سے ہندوستان کو دارلحرب قرار دلوا کر ہندوستان سے ہجرت کا فتوی جاری کروادیا ۔گاندھی کی اس سازش کا یہ مقصد تھا کہ مسلمان احتجاجاً ہندوستان سے ہجرت
کرکے افغانستان چلے جائیں گے ۔اس سارے پروگرام میں ہندوؤں کا فائدہ ہی فائدہ تھا ۔مسلمانوں نے اپنے مکانات اور تجارتی ادارے و مراکز چند ہی دنوں میں ہندوؤں کے ہاتھوں کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردئیے ۔مسلمانوں کی اس تباہی و بربادی کو دیکھ کر گاندھی اور کانگریسی لیڈر اپنے ناپاک منصوبہ کے تحت کام ہوتے ہوئے دیکھ خوش ہو رہے ہوں گے ۔ ( صفحہ نمبر : ۵۰ )
تحریک خلافت کا کاندھا ، مہاتما گاندھی کی بندوق؟
بھارت میں تحریک خلافت تب شروع ہوئی جب سلطنت ترکی کے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے تھے ، پہلی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی ۔ برٹش ، اور فرانس اور ان کے حلیف ممالک نے سلطنت عثمانیہ کے کئی حصوں پر قبضہ جمالیا تھا ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عملی طور پر خلافت ختم ہوچکی تھی ، پھر ایسے میں خلافت تحریک کیوں شروع کی گئی ؟ اس پر ناقدین آج بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں ۔
خلافت کے قائدین نے ہندوستان کی برٹش سرکار کو یہ آگاہ کیا تھا کہ ترکی کے سلطان ہمارے خلیفہ ہیں ، ان کی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی حیثیت ہے ، اور خلیفہ کے ساتھ ساتھ خلافت کا قائم رہنا بھی ضروری ہے ، اسلئے پرانی ترک مملکت بحال کی جائے ۔ اس مطالبہ کو کچھ ناقدین اور مفکرین جذباتی قرار دیتے ہیں کیونکہ اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل عرب ممالک بھی آزاد ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے ، اور انہیں یہ بات منظور نہیں تھی کہ وہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن کر رہیں ۔ عربوں کے اس موقف کی بناء پر بھی خلافت کمیٹی اور قائدین خلافت تنقید کا نشانہ بنے کہ ہندوستان کے مسلمان کیونکر عربوں کے معاملات میں دخل اندازی کرسکتے ہیں ؟
خلافت تحریک اوراس کے قائدین پر مخالفین نے تضاد کا بھی الزام عائد کیا ہے ۔
یہ کہا جاتا ہے کہ خلافت کے قائدین کا کہنا تھا کہ خلافت مسلمانوں کا اندرونی یا داخلی معاملہ ہے ، اور اس میں کسی بھی غیر مسلم طاقت کی مداخلت انہیں برداشت نہیںہوگی ، مملکت خلافت کے اہتمام میں مقامات مقدسہ شامل تھے ، اور ان مقامات مقدسہ کا اہتمام کسی غیر مسلم حکومت یا حکمرانوں کے پہاس ہو ، یہ تحریک خلافت کیلئے ناقابل قبول بات تھی ۔
لیکن ، یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے نام پر خلافت کے قائدین نے جس طرح غیر مسلم قائدین کو سر آنکھوں پر جگہ دی اور ان کے مطالبات کو تسلیم کیا وہ ان کے اپنے ہی موقف سے بذات خود ایک تضاد تھا ۔
اس ضمن میں کچھ باتیں پیش کی جاتی ہیں ؛ مثلاً ۔
گائے کی قربانی اور ذبیحہ کو ترک کرنے کا مطالبہ منظور کرلیا گیا ، مہاتما گاندھی اور ان کے رفقا ء نے خلافت کی حمایت کی اور اس کے عوض انہیں گئو رکشا کیلئے سپورٹ کردیا گیا ۔ مہاتما گاندھی کے ساتھ ساتھ لالہ لاجپت رائے ، سوامی شردھانند سرسوتی کو بھی سر آنکھوں پر بٹھا لیا گیا ۔مہاتما گاندھی خلافت کے ہی اہم قائد بن گئےاور سارے علما ء کرام ان کی پیروی کرتے نظر آنے لگے ۔
کسی مسجد میں بھی خلافت کا جلسہ ہو تو اس کی صدارت بھی گاندھی جی کے سپرد کی جاتی تھی ۔دہلی میں آل انڈیا خلافت کانفرنس کی صدارت بھی گاندھی جی نے کی اور اس میں بڑے بڑے علما ء ان کی زیر صدارت شریک تھے ، خلافت کمیٹی کی اہم میٹنگوں میں بھی گنادھی جی کو مدعو کیا جاتا تھا ، اور وہی خلافت قائدین کی ہر معاملہ میں رہنمائی کرتے تھے ۔کلکتہ میں کسی دینی مدرسہ کا افتتاح ہو تو وہ بھی گاندھی جی کے ہاتھوں کروایا جا رہا تھا ۔ آریہ سماجی لیڈران لالہ لاجپت رائے اور سوامی شردھانند سرسوتی کو دہلی کی جامع مسجد میں بلوا کر ان سے مسجد میں تقاریر کروائی گئیں ۔ یہی سوامی شردھانند سرسوتی ہیں جنہوں نے چار سال بعد ہی شدھی مہم شروع کردی جس نے ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ، اسی طرح لاہور کی شاہی جامع مسجد میں چاودھری رام بھیم دت کو بلوایا گیا اور ان کی تقریر کروائی گئی ۔متنازعہ لیڈروں کو جو فرقہ پرستی پھیلا رہے تھے ، قائدین خلافت نے مسجدوں میں بلاکر منبر امامت سے تقاریر کا موقع دیا لیکن خلافت تحریک کے کچھ برسوں بعد ہی یہ لیڈران کٹر مسلم دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ، مخالفین کا کہنا ہیکہ گاندھی جی نے خلافت کے کاندھے کو استعمال کرکے اپنی بندوق چلانے کیلئے خلافت تحریک اور اس کے لیڈران کو استعمال کرلیا ۔
جیل سے چھوٹتے ہی شدھی مہم کیوں شروع کردی ؟
آریہ سماجی لیڈر منشی رام ۱۹۱۷ ء میں سوامی بن گیا ، اس نے اپنا نام سوامی شردھانند سرسوتی رکھ لیا اور دہلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنادیا ۔۱۹۱۹ ء میں اس نے گاندھی جی کے اہم رفیق اور دست راست کے طور پر خلافت تحریک کی حمایت کی اور دہلی کے مسلمانوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔اس نے بھی تحریک ترک موالات اور عدم تعاون میں شرکت کی ۔گاندھی جی کی گرفتاری پر سوامی شردھانند سرسوتی نے ایک احتجاجی جلوس دہلی میں نکالا ۔ان کی بھی عدم تعاون تحریک میں گرفتاری ہوئی ،
مورخین اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں ، کہ برٹش جیل میں (۱۹۲۲ ء ) میں قید کے دوران جانے کیا ہوا کہ جیل جانے سے قبل جو سوامی ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار بن کر سامنے آئے تھے ، اور جن کو مسلمانوں نے دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران منبر سے تقریر کا موقعہ دیا ، ان کا جلوس نکالا گیا اور جامع مسجد میں مسلمانوں نے استقبال کیا ، (یہ استقبال راؤلٹ ایکٹ کے خلاف ہندوستان بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران ہوا ، جب کہ مسلمان احتجاج میں پیش پیش تھے )، جنہوں نے ۴ اپریل ۱۹۱۹ ء دہلی کی جامع مسجد سے کھڑے ہو کر جب خطاب کیا تو ’’ اوم وشوانی دیو ‘‘ کے اپنے ویدک منتر سے اپنی تقریر کا آغاز کیا ، اور کسی مسلمان نے اعتراض نہیں کیا ۔
انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ جدوجہد آزادی کیلئے اپنی مہم جاری رکھیں ، ہندو مسلم اتحاد کی جو فضا پیدا ہوگئی تھی ، اس کی تعریف کی ۔
لیکن اگلے دو برس میں اور خاص طور پر جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر کیوں آمادہ ہوگئے ؟
انہوں نے ۱۹۲۳ ء میں پنڈت مدن موہن مالویہ کے ساتھ مل کر بھارتیہ شدھی سبھا قائم کر ڈالی جس کے زیر اہتمام شدھی مہم یعنی مسلمانوں کو ہندو بنانے کا کام شروع کیا گیا ۔مسلمانوں نے جس طرح گاندھی جی کے ایک دست راست اور اہم ساتھی و کانگریس کے لیڈر کو ہندو مسلم اتحاد کے جذبہ سے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا ، اس نے جیل سے رہا ہوتے ہی مسلمانوں کے خلاف ہی شدھی مہم شروع کردی ، اس سے خلافت تحریک کو اور اس کے حامیوں کو بڑا دھچکہ پہنچا ۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ خلافت تحریک کی وجہ سے عارضی طور پر ہی سہی ، پورے ملک میں ہندو مسلم اتحاد کا ایسا ہی ماحول پیدا ہوگیا تھا ، جیسا ۱۸۵۷ ء سے قبل تھا اور خلافت کے ہی پلیٹ فارم سے عدم تعاون و ترک موالات کی تحریک شروع ہوئی جس میں مسلمان ہی پیش پیش تھے ، اس لئے ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے برٹش حکمرانوں نے بھی ا نتشار کا کھیل شروع کیا ، جس کا ایک مہرہ سوامی شردھانند سرسوتی تھے ، جنہوں نے جیل سے چھوٹنے کے بعد مہاتما گاندھی سے بھی علیحدگی اختیار کی اور شدھی مہم شروع کردی ۔ خلافت تحریک سے مسلمانوں نے دو مہاتما بنائے تھے ۔ گاندھی کو مہاتما گاندھی ، اور منشی رام کو مہاتما منشی رام اور سوامی شردھانند سرسوتی ۔ لیکن مسلمانوں کو بدلہ میں کیا ملا ؟ اس کا ثبوت تاریخ سے ملتا ہے ۔
گاندھی کا مشورہ تھا : خلافت عدم تعاون تحریک شروع کرے
مورخین کی رائے ہے کہ خلافت تحریک کو برٹش سرکار سے عدم تعاون اور تحریک عدم موالات
( NON – COPERATION ) کا مشورہ مہاتما گاندھی نے دیا تھا ، اور خلافت تحریک نے اسے اپنا لیا ۔ وکرم سمپت نے اپنی کتاب
SAVARKAR : ECHOES FROM A FORGOTTEN PAST . 1883-1924
میں لکھا ؛ ـ
’’ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گاندھی ہی تھے جنہوں نے عدم تعاون کا اپنا مشہور منتر خلافت کمیٹی کو دیا ، اس کی ان کی کمیٹی میں توثیق کروائی ، اور پھر کانگریس کو بھی اس بات کیلئے آمادہ کیا کہ خلافت کی حمایت کرے ۔ اور اسی طرح عدم تعاون کے فلسفہ کی بھی حمایت کی جائے ۔یہ ایک غضب کی سیاسی چال تھی ، اور گاندھی کی ایک نہایت دلیرانہ کوشش تھی ۔کئی دہائیوں سے کانگریس مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔اب کانگریس ان کے مقصد ( خلافت ) کیلئے کھڑی ہوگئی تو لاتعداد مسلمان اور ان کے لیڈران ، بھلے ہی عارضی طور پر ہی سہی ، لیکن کانگریس میں جوق در جوق گھس پڑے ۔اس بات نے گاندھی کا رتبہ بھی قومی لیڈر کے طور پر بلند کردیا ۔اور کانگریس کی ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کیا جو تجاویز اور کانفرنسوں کے حد سے نکل کر میدانی سطح کی عوامی مہم بن گئی ۔ بے شک ، اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ بھارت کی آزادی کے مقصد کیلئے خلافت تحریک کو اس قدر اہمیت دینا مناسب تھا ؟ ‘‘
اشوک سمپت کی کتاب کے اس اقتباس سے اس خیال اور نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ خلافت تحریک کو گاندھی جی نے ہائی جیک کیا تھا اور وہ اس تحریک کے ذریعہ اپنے وہ سیاسی تجربات کر رہے تھے جن کی انہیں کانگریس میں اجازت بھی نہیںمل سکتی تھی ، نہ ہی اس دور میں انہیں کانگریس پر اس قدر اختیار حاصل تھا ۔ اس لئے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ خلافت تحریک اور خلافت قائدین مہاتما گاندھی کے مکمل کنٹرول میں تھے ، اور ا ن کی کمانڈ کو ہر طرح منظور کر چکے تھے ، دوسرے لفظوں میں خلافت تحریک گاندھی جی کے ہاتھوں کا ایک کھلونا بن چکی تھی ، اس الزام کو بہر حال خلافت تحریک و قائدین کے حامی تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔
قوم پرستی کی ایک مثال : میاں محمد چھوٹانی
میاں محمد چھوٹانی ممبئی کے ایک بہت بڑے اور مالدار بزنس مین تھے ، وہ خلافت تحریک میں شامل ہوگئے ، ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک قوم پرست تھے ، اس لئے قومی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے ، ان کا تعلق ہلائی میمن جماعت سے تھا ۔ان کا خاندان ایک تاجر اور متمول خاندان تھا ۔ ان کے خاندان کا لکڑی کے کاروبار سے تعلق تھا ۔ان کے خاندان کی لکڑی کی سا ء ملز اور بکھاریں تھیں ۔
سیٹھ میاں محمد چھوٹانی گورنمنٹ کنٹریکٹر بھی تھے ، اور بامبے پورٹ ٹرسٹ و ریلویز کے بڑے بڑے ٹھیکہ ان کو ملا کرتے تھے ۔خلافت تحریک سے قبل وہ مسلم لیگ سے وابستہ تھے ۔وہ دسمبر ۱۹۱۵ ء میں مسلم لیگ کے آٹھویں اجلاس کی کمیٹی کے رکن تھے ۔
اور جب خلافت تحریک شروع ہوئی تو اس کے اولین قائدین میں وہ شامل ہوگئے ۔
مارچ ۱۹۱۹ ء میں ممبئی کے ناگپاڑہ علاقہ مستان تالاب گراؤنڈ پرخلافت تحریک کی جانب سے ایک زبردست جلسہ عام ہوا تھا جس میں ایک اندازہ کے مطابق پندرہ تا بیس ہزار مسلمان شریک ہوئے تھے ۔ میاںمحمد چھوٹانی سیٹھ نے اس جلسہ کی صدارت کی تھی ،اس جلسہ میں خلافت تحریک کی صوبائی کمیٹی قائم کی گئی ، جسے بعد میں سنٹرل خلافت کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا ۔
ایک المیہ یہ ہوا کہ بعد میں خلافت کمیٹی کے انگورہ فنڈ میں خرد برد کا الزام عائد ہوا ، خلافت کمیٹی نے کل ہند سطح پر کئی فنڈ اکٹھا کئے تھے ۔ سیٹھ میاںاحمد چھوٹانی انگورہ فنڈ کے ایڈمنسٹریٹر تھے ۔۱۹۲۲ ء میں ان پر انگورہ فنڈ کے متعلق الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اس فنڈ کی رقم کو خود اپنے مصارف کیلئے استعمال کیا ۔ اس الزام کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی ذاتی ملکیت کی دو لکڑی کی ملوں (SAW- MILLS ) کو جن کی قیمت اس زمانہ میں اٹھارہ لاکھ تجویز کی گئی ، بطور ہرجانہ سنٹرل خلافت کمیٹی کے حوالہ کردیا تھا ۔ حالانکہ یہ بھی بتایا گیا کہ چونکہ وہ برٹش مخالف خلافت تحریک میں شامل ہوچکے تھے ، اس لئے برٹش سرکار نے ان کے ریلویز اور پورٹ ٹرسٹ کے کنٹراکٹ بھی منسوخ کردئے اور اس سے ان کو بھاری تجارتی نقصان ہوا ۔ان کو برٹش سرکار نے یہ بھی آفر کی تھی کہ اگر وہ خلافت تحریک سے دست بردار ہوجائیں گے ، تو ان کو (BARONET ) کے خطاب سے نوازا جائے گا ۔ لیکن انہوں نے برٹش سرکار کی اس پیش کش کو بھی ٹھکرادیا تھا ۔
ان کا انتقال جون ۱۹۳۲ ء میں مدینہ میں ہوا تھا ، جب وہ حج بیت اللہ کیلئے وہاں گئے تھے ۔