خلافت معاویہ و یزید

سید متین احمد شاہ کی دیوار سے

جناب مولانا عامر عثمانی رح کا محمود عباسی صاحب کی کتاب چھاپنے سے رجوع۔۔۔۔۔۔ یوم علی المرتضی رض پر استاد محترم مولانا زاہد صاحب کی کتاب ” خلافت علی رض ” ( جس کی تدوین و تخریج خاکسار نے کی ) سے ایک اقتباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر عثمانی رح لکھتے ہیں: ” تجلی” کے دیرینہ قارئین بھولے نہ ہوں گے کہ ہم نے مہینوں تک جناب محمود احمد عباسی کی کتاب “خلافت معاویہ و یزید ” کی حمایت میں صفحات سیاہ کیے ہیں۔ ہمارا مقصد یزید کی حمایت نہ تھا، بلکہ ہم حضرت معاویہ رض کا دفاع کرنا چاہتے تھے اور حضرت معاویہ کا دفاع بھی بالذات مقصود نہیں تھا، بلکہ نفس صحابیت کی تکریم پیش نظر تھی، لیکن یکلخت ہم نے اس موضوع کا دروازہ بند کر دیا اور اس کے بعد سے آج تک خاموش ہی خاموش ہیں۔

کیوں ۔۔۔۔۔۔؟

یہ سوال بڑا نازک ہے، ہم غیبت سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ، لیکن معاملہ حق و صداقت کا ہے اس لیے تھوڑا سا پردہ رکھتے ہوئے ہم اتنا ضرور بیان کریں گے کہ ” خلافت معاویہ و یزید ” کی بے تکان حمایت کے بعد ہمارا کراچی جانا ہوا تھا، وہاں اس کتاب کے مصنف جناب محمود احمد عباسی نے اپنے دولت کدے پر ہماری دعوت کی اور ہمیں ان سے ملاقات اور تبادلہء خیالات کا موقع ملا۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہم نے کوئی لفظ اس موقف کی حمایت میں نہیں کہا جو ” خلافت معاویہ و یزید ” میں عباسی صاحب نے اختیار کیا ہے۔ سکوت دراصل اس لیے ہم پر مستولی ہوا کہ اس ایک ملاقات میں ہمیں اندازہ ہو گیا کہ محترم عباسی صاحب چاہے یزید اور حضرت معاویہ رض کے فدائی ہوں یا نہ ہوں مگر حضرت علی رض اور دیگر اہل بیت کرام رض کے بارے میں ان کے خیالات وہ نہیں ہیں جو اہل ایمان کے ہونے چاہییں۔ یہ اندازہ ایک ضرب شدید تھا جس نے ہمارے دل و دماغ کو لرزا کر رکھ دیا ۔ یا الہی ! کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور اہل بیت اطہار سے عداوت رکھ کر بھی کوئی مسلمان صراط مستقیم کا راہرو کہلا سکتا ہے ؟ کیا حضور ص کی آنکھوں کے تاروں سے کینہ اور بیر رکھنے کے معنی اس کے سوا بھی کچھ ہیں کہ دل و دماغ سے آقاے کونین ص کی محبت یا سایہ تک غائب ہو جائے؟ اور جب حضور ص ہی کی محبت نہیں تو خدا کی محبت کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ ۔۔۔۔ اس تاثر کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی سے لوٹتے ہی ہم نے اپنے دفتر کو یہ ہدایت دی کہ آئندہ عباسی صاحب کی ” خلافت معاویہ و یزید ” ہرگز نہیں چھاپی جائے گی۔ اس کی پلیٹیں کاٹ دی جائیں۔ “

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( مولانا عامر عثمانی ، تجلیات صحابہ ، ترتیب ، سید علی مطہر نقوی امروہوی ، ص 315 و ما بعد ) ( یہ گفتگو پہلے ” تجلی ” کے خصوصی شمارہ ستمبر 1971 میں شائع ہوئی تھی۔ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عباسی صاحب سے ملاقات رکھنے والے بعض دیگر ثقہ اہل علم کی راے بھی عامر عثمانی صاحب رح والی تھی۔ جناب مسعود احمد برکاتی اور مفتی ولی حسن ٹونکی رح کی راے اس سے پہلے نقل کی جا چکی ہے۔ )

۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی محمد زاہد

جامعہ امدادیہ