آیتِ تطہیر نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا

《 آیتِ تطہیر نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي ، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ». اے اللہ! یہ لوگ میرے گھر والے ہیں ، اور میرے گھر والے سب سے زیادہ حق دار ہیں 》.

🟥 وروى الأوزاعي، عن شداد بْن عَبْد اللَّهِ، قال: سمعت واثلة بْن الأسقع، وقد جيء برأس الحسين، فلعنه رجل من أهل الشام، ولعن أباه، فقام واثلة وقال: والله لا أزل أحب عليًا، والحسن، والحسين، وفاطمة، بعد أن سمعت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول فيهم ما قال، لقد رأيتني ذات يَوْم، وقد جئت النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في بيت أم سلمة، فجاء الحسن فأجلسه عَلَى فخذه اليمنى وقبله، ثم جاء الحسين فأجلسه عَلَى فخذه اليسرى وقبله، ثم جاءت فاطمة فأجلسها بين يديه، ثم دعا بعلي ثم قال: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}.

قلت لواثلة: ما الرجس؟ قال: الشك في اللَّه عَزَّ وَجَلَّ

أَبُو أحمد العسكري: يقال إن الأوزاعي لم يرو في الفضائل حديثًا غير هذا، والله أعلم.

قال: وكذلك الزُّهْرِيّ لم يرو فيها إلا حديثًا واحدًا، كانا يخافان بني أمية.

امام اوزاعی نے شداد بن عبد اللہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اس کو واثلہ بن اسقع سے سنا ہے جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر (شام) لایا گیا تو اہل شام میں سے ایک شخص نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کی، (یہ سنتے ہی) واثلہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کی قسم جب سے میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ، اور حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا فرمان سنا ہے اللہ کی قسم اس وقت سے میں برابر ان لوگوں سے محبت کر رہا ہوں ایک دن میں نے دیکھا جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آیا، جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دائیں ران پر بٹھایا اور ان کو پیار کیا، پھر جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں اپنی بائیں ران پر بٹھایا اور انہیں پیار کیا، پھر جب سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو انہیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت فرمائی :

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}.

« اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے ».

ابو عمار شداد بن عبد اللہ نے واثلہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ رجس کیا ہے؟

واثلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ عزوجل میں شک کرنا.

ابو احمد عسکری کہتے ہیں: کہا جاتا تھا کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے (اہل بیت کے) فضائل اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ واللہ اعلم.

اور کہا: اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ نے (اہل بیت کی فضیلت میں) ایک حدیث کے علاوہ اور کوئی دوسری حدیث روایت نہیں کی، یہ دونوں امام بنو امیہ سے خائف تھے.

(اسد الغابه – ط الفكر / ابن الأثير، عزالدین : 1/498).

اس حدیث کو امام آجری نے « الشريعة » میں تخریج کیا ہے:

🟥 1651 – وحدثنا ابن أبي داود قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عمر بن يونس ، ثنا عمر بن يونس قال : حدثنا سليمان بن أبي سليمان الزهري قال : حدثنا يحيى بن أبي كثير قال : حدثنا الأوزاعي قال : حدثني شداد بن عبد الله قال : سمعت واثلة بن الأسقع ، وقد جيئ برأس الحسين رضي الله عنه ، فذكره رجل فغضب واثلة وقال : والله لا أزال أحب عليا وحسنا وحسينا وفاطمة رضي الله عنهم أبدا ، بعد إذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في منزل أم سلمة يقول فيهم قال قال واثلة : رأيتني يوما وقد جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل أم سلمة فدخل الحسن فأجلسه على فخذه اليمنى وقبله ، وجاء الحسين فأجلسه على فخذه اليسرى وقبله ، ثم جاءت فاطمة فأجلسها بين يديه ، ثم دعا بعلي رضي الله عنهم فجاء ، ثم أغدق عليهم كساء خيبريا كأني أنظر إليه ثم قال : « إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا » فقلت لواثلة : ما الرجس ؟ قال : الشك في الله عز وجل.

(الشريعة للآجري – المؤلف : الآجري : 4/384).

امام حاکم نے اس حدیث کو « الکنی » میں نکالا ہے:

🟥 الحَاكِمُ (*) فِي (الكُنَى): حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عُمَرَ الحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بنُ يُوْنُسَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ أَبِي كَثِيْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي شَدَّادُ بنُ عَبْدِ اللهِ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بنَ الأَسْقَعِ وَقَدْ جِيْءَ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ، فَلعَنَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَغضِبَ وَاثِلَةَ، وَقَامَ، وَقَالَ: وَاللهِ لاَ أَزَالُ أُحِبُّ عَلِيّاً وَوَلَدَيْهِ بَعْدَ أَنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي مَنْزِلِ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأَلْقَى عَلَى فَاطِمَةَ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا كِسَاءً خَيْبَرِيّاً، ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطْهِيْراً} [الأَحْزَابُ: 33].

سُلَيْمَانُ: ضَعَّفُوهُ، وَالحَنَفِيُّ: مُتَّهَمٌ.

اس سند میں سلیمان بن ابی سلیمان ضعیف ہے.

حافظ بن حجر نے ’’ لسان المیزان ‘‘ میں اس کے ترجمے میں لکھا ہے: سلیمان بن ابی سلیمان یمامی ابن داؤد ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے، لیکن ابن عدی نے ان دونوں کے مابین فرق کیا ہے، اور وہ اس سلیمان بن ابی سلیمان الزھری الیمامی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایات کی ہیں…..اور ان احادیث کو ذکر کیا، اور پھر ابن عدی نے وہ روایات کو نقل کیا ہے جو عمر بن یونس نے اس سے روایت کی ہیں (اور عمر بن یونس ثقہ اور صحاح ستہ کا راوی ہے). اور کہا: اس کی بعض روایات منکر ہوتی ہیں. ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: میں کہتا ہوں: ابو حاتم نے اس کی تضعیف کی ہے.

اور یہ روایت بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اس نے بیان کی ہے، لیکن جب اس کی یحییٰ بن ابی کثیر والی مرویات کا تتبع کیا گیا تو ان روایات ک متابع اور شواہدات پائے گئے.

امام ابن حبان نے ’’ ثقات ‘‘ میں اس کے ترجمے میں لکھا ہے: یہ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرتا ہے، اور اس سے عمر بن یونس (ثقہ) روایت کرتا ہے، اور بسا اوقات اپنی روایات میں مخالفت کرتا ہے، اور ابن داؤد نے اس کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا ہے.

( كتاب تراجم رجال الدارقطني في سننه / مقبل بن هادي الوادعي : 243).

(*) هو شيخ الحاكم صاحب ” المستدرك ” واسمه محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري محدث خراسان.

مترجم في ” تذكرة الحفاظ 3 / 976 للمؤلف.

دوسرا راوی ہے أحمد بن محمد بن عمر بن يونس یہ متروک ہے اپنے دادا سے روایت کرتا ہے۔ امام ابو حاتم البستی نے کہا: مقلوب احادیث روایت کرتا ہے جب یہ کسی خبر میں منفرد ہو تو اس کی حدیث سے احتجاج کرنا صحیح نہیں ہے. ہم نے اس کی حدیث کو حجت کے طور پر نہیں بلکہ شواہد اور متابعات میں پیش کیا ہے۔ اس کی حدیث کی توثیق دیگر احادیث سے ہو رہی ہے جو درج ذیل ہیں.

أبو أحمد بن عدي الجرجاني : حدث بأحاديث مناكير عن الثقات، وحدث بنسخ وعجائب، وهو مقارب الحديث وهو إلى الضعف أقرب منه إلى الصدق

أبو بكر القطيعي : متروك الحديث

أبو حاتم الرازي : كذاب وكتبت عنه، ولا أحدث عنه بشيء

أبو حاتم بن حبان البستي : يروى أشياء مقلوبة لا يعجبنا الاحتجاج بخبره إذا انفرد

أحمد بن أبي جعفر القطيعي : متروك الحديث

ابن عساكر الدمشقي : له غرائب

الخطيب البغدادي : غير ثقة

الدارقطني : متروك الحديث، ومرة: ضعيف

القاسم بن زكريا المطرز : كتبت عن اليمامي هذا بسر من رأى خمسمائة حديث ليتها كانت خمسة آلاف ليس عند الناس منها حرف

سلمة بن شبيب النيسابوري : كذبه

عبد الله بن محمد الكشوري : فينا كالواقدي فيكم

يحيى بن محمد بن صاعد : رماه بالكذب.

اس حدیث کو ابن ابی شیبة نے « مصنف » میں روایت کیا ہے:

🟥 32766 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَذَكَرُوا فَشَتَمُوهُ فَشَتَمَهُ مَعَهُمْ , فَقَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا آخِذٌ بِيَدِهِ , فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ; وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ , ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ أَوْ قَالَ: كِسَاءَهُ , ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ:

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} [الأحزاب: 33] .

ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي , وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ».

شداد ابو عمار فرماتے ہیں: کہ میں سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ ان کے پاس چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے، پس ان لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا پھر ان کو سب و شتم کرنے لگے تو میں نے بھی ان کے ساتھ ان کو برا بھلا کہا، تو سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس حدیث کے بارے میں نہ بتلاؤں جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ضرور سنائیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا میں نے ان سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا: تو وہ فرمانے لگیں! آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ہیں پس میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں درانحالیکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ان سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ گھر میں داخل ہوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے قریب کیا اور ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا، اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی بٹھایا یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب پر اپنا کپڑا یا چادر ڈال دی، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} [الأحزاب: 33] .

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والو! اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے.

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! یہ لوگ میرے گھر والے ہیں، اور میرے گھر والے سب سے زیادہ حق دار ہیں.

(اس حدیث کو ابن ابی شیبة نے ’’مصنف‘‘ میں روایت کیا، (17/ 117-118) حدیث رقم : 32766، اس حدیث کے شواہد ہیں جو آگے آتے ہیں).

مصنف ابن ابی شیبة کے محقق محمد عوامة اس حدیث کے عقب میں لکھتے ہیں :

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں محمد مصعب ہے اس کو قرقسائی بھی کہتے ہیں، فی نفسہ (صدوق) سچا ہے، لیکن کثرت سے خطاء کرنے کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن محمد بن مصعب کی متابعت موجود ہے.

احمد نے اس حدیث کو ’’ المسند ‘‘ (107/4) میں روایت کیا ہے، اور ’’ فضائل الصحابة ‘‘ (987) میں روایت کیا ہے، ابو یعلیٰ نے (7448 = 7486)، اور طبرانی نے 22 (160) ان تمام نے مصنف ابن ابی شیبہ کی اسناد کے مثل روایت کیا ہے.

اور قرقسائی کی متابعت: ولید بن مسلم نے کی ہے – سماعت کی صراحت کے ساتھ – اور عمر بن عبد الواحد نے کی ہے اور یہ دونوں احادیث ابن حبان میں ہیں (6976).

اور اسی طرح: بشر بن بکر التنیسی نے محمد بن مصعب کی متابعت کی ہے، اور اس کی حدیث طبرانی میں 3 (2670)، 22 (160)، اور حاکم (147/3) میں موجود ہے.

اور چوتھا متابع : الولید بن مزید ہے، اس کی حدیث بیھقی (152/2) میں موجود ہے، اور متابعت کرنے والے چاروں راوی ثقہ ہیں.

المصنف ابن ابی شیبة (17/ 117-118) تحقیق : محمد عوامة.

اب میں ان چاروں متابعات جن کا ذکر شیخ محمد عوامة نے کیا ہے ان کو سند اور متن کے ساتھ بیان کرتا ہوں.

اس حدیث کو روایت کرنے میں محمد بن مصعب کی « بشر بن بکر » نے متابعت کی ہے:

🟥 4689 – حدثنا : أبو العباس محمد بن يعقوب ، ثنا : الربيع بن سليمان المرادي ، و بحر بن نصر الخولاني قالا ، ثنا : بشر بن بكر ، وثنا : الأوزاعي ، حدثني : أبو عمار ، حدثني : واثلة بن الأسقع ، قال : أتيت علياً فلم أجده ، فقالت لي فاطمة : إنطلق إلى رسول الله (ص) يدعوه فجاء مع رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) فدخلا ودخلت معهما فدعا رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) الحسن والحسين فأقعد كل واحد منهما على فخذيه وأدنى فاطمة من حجره وزوجها ثم لف عليهم وثوبا وقال : إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ثم قال : هؤلاء أهل بيتي اللهم أهل بيتي أحق. هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں علی رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے گیا، آپ گھر میں موجود نہ تھے، سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ گھر آگئے، دونوں گھر میں داخل ہوئے تو میں بھی ان کے ہمراہ داخل ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا، آپ نے ان دونوں کو اپنی رانوں بٹھایا، سیدۃ فاطمۃ رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے قریب کیا، ان سب کے اوپر چادر ڈال کر یہ آیت پڑھی

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} .

« اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے ».

پھر فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، اے اللہ میرے اہل بیت زیادہ حق دار ہیں.

امام حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا.

ج ٣ ص ١٤٧، وَ قَالَ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَ قَالَ الذَّهَبِيُّ: [بَلْ عَلَى شَرْطِ « مسلم ».

(مستدرك الحاكم – كتاب معرفة الصحابة (رضی اللہ عنھم) – ومن مناقب أهل بیت رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) – رقم الحديث : ( 4760 ).

اس حدیث کو امام اوزاعی سے روایت کرنے میں محمد بن مصعب اور بشر بن بکر دونوں کی متابعت « ولید بن مزید » نے کی ہے:

🟥 3518 – حدثنا : أبو العباس محمد بن يعقوب ، أنبأ العباس بن الوليد بن مزيد ، أخبرني : أبي ، قال : سمعت الأوزاعي ، يقول : ، حدثني : أبو عمار ، قال : ، حدثني : واثلة بن الأسقع (رضی اللہ عنه) ، قال : جئت أريد علياً (رضی اللہ عنه) ، فلم أجده ، فقالت فاطمة (رضی اللہ عنها) : إنطلق إلى رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) يدعوه فأجلس فجاء مع رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) فدخل ودخلت معهما ، قال : فدعا رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) حسناً و حسيناً فأجلس كل واحد منهما على فخذه وأدنى فاطمة من حجره وزوجها ، ثم لف عليهم ثوبه وأنا شاهد فقال : إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ، اللهم هؤلاء أهل بيتي ، هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه.

واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں: میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گیا، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے کاشانہ پر نہ تھے۔ سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے گئے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو بٹھا لیا ہوگا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور ان کے ہمراہ میں بھی اندر چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو اپنی رانوں پر بٹھالیا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر کو اپنی گود کے قریب کیا پھر ان سب کے اوپر اپنی چادر ڈال کر یہ آیت پڑھی:

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} .

« اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے ».

پھر کہا: اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں.

امام حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمہما اللہ نے اسے نقل نہیں کیا.

( مستدرك الحاكم – كتاب التفسير – تفسير سورة الأحزاب – جمعه أهل بيته وقوله اللهم هؤلاء أهل بيتي – رقم الحديث : ( 3612 ).

امام بخاری نے ’’تاریخ الکبیر‘‘ میں اس حدیث کو نکالا ہے اس میں امام اوزاعی سے روایت کرنے میں ولید بن مسلم نے محمد بن مصعب اور بشر بن بکر اور ولید بن مزید کی متابعت کی ہے:

🟥 أخرج البخاري في “التاريخ الكبير” (8|187): وقال محمد بن يزيد نا « الوليد بن مسلم » قال نا أبو عمرو –هو الأوزاعي– قال حدثني أبو عمار سمع واثلة بن الأسقع يقول: نزلت {إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت} قلت (واثلة): « وأنا من أهلك؟ ». قال (رسول الله صلی اللہ علیه وسلم): « وأنت من أهلي ». قال: « فهذا من أرجى ما أرتجي ».

ابو عمار فرماتے ہیں میں نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا فرما رہے تھے: جب یہ آیت{إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت} نازل ہوئی تو میں نے (واثلہ بن اسقع) نے کہا: میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہوں؟. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « تم بھی میرے اہل بیت میں سے ہو ».

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس کی میں نے امید کی وہ امید ملی.

(“التاريخ الكبير” (8|187)).

ابن حبان نے ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں حدیث روایت کی جس امام اوزاعی سے اس حدیث کو روایت کرنے میں محمد بن مصعب، بشر بن بکر، ولید بن مزید اور ولید بن مسلم کی متابعت « عمر بن عبد الواحد » نے کی ہے:

🟥 وأخرج ابن حبان في صحيحه (15|432): أخبرنا عبد الله بن محمد بن سلم حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم (دحيم، ثقة ثبت) حدثنا الوليد بن مسلم (ثقة ثبت) وعمر بن عبد الواحد (ثقة) قالا حدثنا الأوزاعي (ثقة ثبت) عن شداد أبي عمار (ثقة ثبت) عن واثلة بن الأسقع قال: سألت عن علي في منزله، فقيل لي ذهب يأتي برسول الله صلی اللہ علیه وسلم. إذ جاء، فدخل رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ودخلت. فجلس رسول الله r على الفراش، وأجلس فاطمة عن يمينه وعلياً عن يساره وحسناً وحُسَيناً بين يديه، وقال: «{إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيراً}. اللهم هؤلاء أهلي». قال واثلة: فقلت من ناحية البيت: «وأنا يا رسول الله، من أهلك؟». قال: «وأنت من أهلي». قال واثلة: «إنها لمن أرجى ما أرتجي». وهذا حديثٌ صحيحٌ على شرطَيّ البخاري ومسلم.

(صحیح ابن حبان : (15|432). یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے).

إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح، غير أن عمر بن عبد الواحد متابع الوليد بن مسلم روى له أصحاب السن غير الترمذي، وهوثقة.

اسی حدیث کو امام طبرانی نے اپنی سند سے نکالا ہے « محمد بن بشر التنیسی » کی متابعت کے ساتھ

🟥 267. – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ الْمَكِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ التِّنِّيسِيُّ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، ثنا أَبُوعَمَّارٍ شَدَّادٌ، قَالَ: قَالَ وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ اللَّيْثِيُّ: كُنْتُ أُرِيدُ عَلِيًّا فَلَمْ أَجِدْ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: انْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُ حَتَّى يَأْتِيَ. قَالَ: فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَ، فَدَخَلْتُ مَعَهُمَا، فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَأَجْلَسَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ، وَأَدْنَى فَاطِمَةَ مِنْ حِجْرِهِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ وَأَنَا مُسْتَنِدٌ، ثُمَّ قَالَ:{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبُ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]، ثُمَّ قَالَ: «هَؤُلَاءِ أَهْلِي». قَالَ وَاثِلَةُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَنَا مِنْ أَهْلِكَ؟ قَالَ: «وَأَنْتَ مِنْ أَهْلِي».

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملنا چاہتا تھا لیکن میری ملاقات نہ ہوسکی، سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جارہی ہوں، آپ کو بلاتی ہوں، وہ آئیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور علی رضی اللہ عنہ بھی آئے تو میں دونوں کے ساتھ داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلاؤ ان میں سے ہر ایک کو اپنی ران پر بٹھایا، سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی گود کے قریب کیا اور ان سب پر کپڑا لپیٹا، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، پھر فرمایا: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبُ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} اللہ تم گھر والوں سے پلیدی دور کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور تمہیں خوب پاک کرنا چاہتا ہے۔ پھر فرمایا: یہ میرے گھر والے ہیں، سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں آپ کے گھر والوں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: تو بھی میرے گھر والوں میں سے ہے۔ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس کی میں نے امید کی وہ امید ملی.

(المعجم الكبير للطبراني حدیث رقم :267).

ابو عمار سے حدیث بیان کرنے میں امام اوزاعی کی متابعت « کلثوم بن زیاد » نے کی ہے.

🟥 16919 – حدثنا : علي بن عبد العزيز ، ثنا : أبو نعيم ، ثنا : عبد السلام بن حرب ، عن كلثوم بن زياد ، عن أبي عمار قال : إني لجالس عند واثلة بن الأسقع إذ ذكروا علياً فشتموه فلما قاموا ، قال : إجلس حتى أخبرك عن هذا الذي شتموا إني عند رسول الله (صلی اللہ علیه وسلم) ذات يوم إذ جاء علي وفاطمة والحسن والحسين فألقى عليهم كساءً له ، ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتي اللهم أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا ، فقلت : يا رسول الله وأنا ، قال : وأنت ، قال : فوالله إنها لأوثق عملي في نفسي.

ابو عمار فرماتے ہیں: کہ میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا، آپ کو کسی نے برا بھلا کہا، جب وہ لوگ اٹھنے لگے تو سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹھ! تاکہ میں اس کی شان بتاؤں! جس کو انہوں نے گالی دی ہے، میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، اچانک سیدنا علی ، فاطمہ، حسن، حسین، رضی اللہ عنہم تشریف لائے، آپ نے ان پر چادر ڈالی، پھر عرض کی: اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں، ان سے پلیدی دور کر دے، ان کو خوب پاک کر دے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں؟ آپ نے فرمایا: تو بھی، سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں اپنے دل میں اس کو مضبوطی سے پاتا ہوں.

(الطبراني – المعجم الكبير : 65/22).

ابو احمد بن عدی جرجانی نے کہا: اس نے کم احادیث روایت کی ہیں. (ابن عدی الجرجانی – الکامل في ضعفاء الرجال).

ابو حاتم بن حبان بستی نے اس کا ذکر ثقات میں کیا ہے.

ابو ذرعہ رازی نے اس کو ثقہ کہا ہے. (ابن منظور – مختصر تاریخ دمشق).

امام نسائی نے اس کو ضعیف کہا ہے. (ابن الجوزی – الضعفاء والمتروکون).

وَ رَوَاهُ أَيْضاً الطَّبَرِيُّ فِي تَفْسِيرِ الْآيَةِ الْكَرِيمَةِ مِنْ تَفْسِيرِ: ج ٢٢ ص ٦، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ وَاصِلٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ دُكَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ كُلْثُومٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ ..

قال الهيثمي – مجمع الزوائد – كتاب المناقب – باب في فضل أهل البيت : 9 / 167 رواه الطبراني بإسنادين ورجال السياق رجال الصحيح غير كلثوم بن زياد ووثقه إبن حبان وفيه ضعف).

🟥 ‏16540 – حدثنا : ‏ ‏محمد بن مصعب ‏ ‏قال : ، حدثنا : ‏ ‏الأوزاعي ‏ ‏، عن ‏ ‏شداد أبي عمار ‏ ‏قال :‏ دخلت على ‏ ‏واثلة بن الأسقع ‏ ‏وعنده قوم فذكروا ‏ ‏علياًً ‏ ‏فلما قاموا قال لي : ألا أخبرك بما رأيت من رسول الله ‏صلی اللہ علیه وسلم‏ ‏قلت : بلى ، قال : أتيت ‏ ‏فاطمة‏ ‏أسألها عن ‏ ‏علي ‏ ‏قالت : توجه إلى رسول الله ‏‏صلی اللہ علیه وسلم‏ ‏فجلست أنتظره حتى جاء رسول الله ‏صلی اللہ علیه وسلم‏ ‏ومعه ‏ ‏علي ‏ ‏وحسن ‏ ‏وحسين‏ ‏آخذ كل واحد منهما بيده حتى دخل ‏ ‏فأدنى ‏ ‏علياًً ‏ ‏وفاطمة ‏ ‏فأجلسهما بين يديه وأجلس ‏حسناً ‏وحسيناً ‏ ‏كل واحد منهما على فخذه ثم لف عليهم ثوبه ‏ ‏أو قال : كساءً ‏ ‏ثم تلا هذه الآية : إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل ‏ ‏البيت ‏ ‏ويطهركم تطهيرا ، وقال : اللهم هؤلاء أهل بيتي وأهل بيتي أحق.

(مسند أحمد ٤ / ١٠٤).

ابن عساکر نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو روایت کیا:

🟥 أخبرنا أبو الحسن الفرضي أنبأنا عبد العزيز بن أحمد، أنبأنا عبد الله بن أبي كامل.

حيلولة: وأخبرنا أبو الحسن الفقيهان [كذا] قالا: أخبرنا أبو العباس بن قبيس، قالا: أخبرنا أبو محمد بن أبي نصر، أنبأنا خيثمة بن سليمان، أنبأنا العباس، أخبرني أبي.

حيلولة: وأخبرنا أبو القاسم زاهر بن طاهر، أنبأنا أبو بكر البيهقي، أنبأنا أبو عبد الله الحافظ وأبو بكر القاضي وأبو عبد الله السوسي قالوا: أخبرنا أبو العباس محمد ين يعقوب، أنبأنا العباس بن الوليد بن مزيد، أخبرني أبي قال: سمعت الأوزاعي [قال]: أنبأنا أبو عمار – رجل منا – [قال:] حدثني واثلة بن الأسقع الليثي قال: جئت [بيت فاطمة] أريد عليا فلم أجده فقالت فاطمة: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوه فاجلس. قال: [فجلست] فجاء [علي] مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلا ودخلت معهما، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم حسنا وحسينا فأجلس كل واحد منهما على فخذه فأدنى فاطمة من حجره وزوجها، ثم لف عليهم ثوبه – وأنا منتبذ – فقال: * (إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا) * اللهم هؤلاء أهلي اللهم أهلي أحق.

قال واثلة: فقلت: يا رسول الله وأنا من أهلك؟ قال: وأنت من أهلي. قال واثلة: إنها لمن أرجا ما أرجو.

[قال ابن عساكر: و] لفظهم قريب.

(ابن عساکر نے اسے تاریخ دمشق (170/65) میں روایت کیا. نسخہ ظاہریہ).

امام احمد نے اس حدیث کو فضائل میں روایت کیا ہے:

🟥 978 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، وَهُوَ الْقَرْقَسَانِيُّ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَشَتَمُوهُ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ، فَلَمَّا قَامُوا قَالَ لِي: لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ، فَقَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ، فَقَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ، وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ، آخِذًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ، أَوْ قَالَ: كِسَاءً، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} [الأحزاب: 33] ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ» .

[ (2/577) فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ].

✍️ تحقیق و تخریج : S. M. Hussain