ابن تیمیہ ؒ اور سید مودودی

مجھے امام ابن تیمیہ ؒ کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد نبوی ؐ میں نماز پڑھنے کےلیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں ، مگر نبی ﷺ کے مزار مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں ؛

میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزار پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔

صرف مسجد نبوی کو مقصد سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے ، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی صلی ﷺ کا مزار مبارک نہ ہوتا تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا ؛ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصی کی بھی ہیں ، مگر وہاں کتنے لوگ جاتے ہیں ؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے ، وہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار موجود ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزار مبارک بھی موجود ہیں۔

… یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیگ مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرم نبوی میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی جزو ایمان فرمایا ہے۔

مولیٰنا سید ابوالاعلیٰ مودودی

( سفر عرب و حج بیت اللہ ، ص ٦٥-٦٧ )