احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کو ایک خاص مقام حاصل ہے

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کو ایک بلحاظ قرابت ایک خاص مقام حاصل ہے گرچہ شیخین (رضی اللہ عنہما) علی (رضی اللہ عنہ) سے افضل ہیں۔

➊ قاضی ابو یعلٰی بن الفراء الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میں نے اپنے دادا ابو القاسم رحمہ اللہ کے خط سے نقل کیا ہے، (انہوں نے) کہا: ابو الحسن محمد بن حُبیش البغوی المعدل پر پڑھا گیا کہ انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے بیان کیا، فرمایا: میں نے اپنے والد (احمد بن حنبل) سے پوچھا، میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: ابو بکر (رضی اللہ عنہ)۔ میں نے کہا: ابو پھر کون؟ فرمایا: عمر (رضی اللہ عنہ)۔ میں نے کہا: ابو پھر کون تھا؟ فرمایا: عثمان (رضی اللہ عنہ)۔ میں نے کہا: ابو جان پھر علی (رضی اللہ عنہ)؟ فرمایا: میرے بیٹے! علی اہل بیت میں سے ہیں کسی کو اہل بیت پر قیاس نہیں کیا جائے۔

(ابو یعلی بن الفراء رحمہ اللہ لکھتے ہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ نسب کے اعتبار سے ان پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ ہے کہ قریش بنو ہاشم کے برابر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کی فضیلت (نسب کے لحاظ سے) دوسروں پر زیادہ ہے اور جن صحابہ کا تذکرہ گزر چکا ہے اور وہ قریش میں سے ہیں۔

📚 [المسائل الفقهية من كتاب الروايتين والوجهين ج٢ ص٩٣ (ت. عبد الكريم اللاحم)]

✰ میں کہتا ہوں: اس کے تمام رجال ثقہ ہیں سوائے “محمد بن إبراهيم بن أحمد بن صالح بن دينار أبو الحسن المعدل” (ابن حبيش) کے۔ ان کے متعلق ان کے شاگرد امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “محمد بن إبراهيم بن حبيش شيخنا لم يكن بالقوي.”

ہمارے شیخ محمد بن ابراہیم بن حبیش بہت زیادہ قوی نہیں ہیں۔ [تاريخ بغداد ج٢ ص٣٠٥ (ت. بشار) وسنده صحيح]

اور ایسا ہی ابن ماکولا نے فرمایا ہے۔ [الإكمال لابن ماكولا ج٢ ص٣٣٤ (ط. العلمية)]

لہذا ”لا يقاس بهم أحد“ (کسی کو اہل بیت پر قیاس نہیں کیا جائے) میں نظر ہے کیونکہ کسی ثقہ راوی کی طرف سے یہ وارد نہیں ہوا بلکہ صرف “من أهل بيت” تک ہی ثابت ہے (آگے آ رہا ہے)۔ یاد رہے کہ ان الفاظ کو بیان کرنے میں صرف «أبو الحسن أحمد بن القاسم بن الريان» نے ان کی متابعت کی ہے [مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي ص٢١٩ (ط. دار هجر)] جو کہ خود ضعیف ہیں ان کو امام دارقطنی اور ابن ماکولا نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو “لا یقاس بہم احد” سے مراد نسب (ہاشمی ہونا) ہی ہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کے ظاہر سے واضح ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

➋ قاضی ابو یعلٰی الحنبلی رحمہ اللہ دوسری سند سے نقل کرتے ہیں:

اسی طرح ہمیں (عبید اللہ) بن ابی مسلم الفرضی نے اجازہ میں خبر دی، فرمایا: مجھے محمد بن یحیی الصولی نے بیان کیا، فرمایا: میں نے عبد اللہ بن حمد بن حنبل کو فرماتے ہوئے سنا کہ

میں نے اپنے والد (احمد بن حنبل) سے ابن عمر (رضی اللہ عنہما) کی حدیث کے بارے میں پوچھا کہ ہم لوگ جب اصحاب رسول اللہ ﷺ کے درمیان فضیلت کا تذکرہ کرتے تو ہم کہتے ابو بکر، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم)۔ فرمایا: جیسے کہ انہوں نے فرمایا۔ میں (عبد اللہ بن احمد) نے کہا: علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کا تذکرہ کہاں ہے؟ فرمایا: میرے بیٹے! انہوں نے اہل بیت رسول اللہ ﷺ میں سے نہیں کہا ہے ، اسی لیے انہوں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا۔

📚 [المسائل الفقهية من كتاب الروايتين والوجهين ج٢ ص٩٣-٩٤ (ت. عبد الكريم اللاحم)]

✰ میں کہتا ہوں: اس کی سند صحیح ہے۔ امام محمد بن یحیی الصولی رحمہ اللہ کی کئی لوگوں نے تعدیل کی ہے۔ چنانچہ شیخ مقبل بن ہادی الوادعی -رحمہ اللہ- کے تلمیذ شیخ ابو الطیب نایف المنصوری -حفظہ اللہ- محمد بن یحیی الصولی کے متعلق تمام اقوال نقل کر کے فرماتے ہیں:

قلت: أديب مشهور، ذو فنون، ثقة.

📚 [الدليل المغني لشيوخ الإمام أبي الحسن الدارقطني للشيخ أبو الطيب المنصوري ص٤٦٣―٤٦٥ رقم ٥١٢ ط. دار الكيان]

✸ امام ابو یعلٰی بن الفراء الحنبلی رحمہ اللہ امام احمد رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان کے کلام سے ظاہر ہے کہ حدیثِ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی فضیلت کے بیان پر مشتمل ہے جن کی رسول اللہ ﷺ سے قرابت و رشتہ داری نہیں ہے (یعنی غیر ہاشمی ہیں) اور علی (رضی اللہ عنہ) کی رشتہ داری بھی ہے صحابیت بھی ہے اور دوسروں پر ان کی فضیلت (نسب و قرابت کے اعتبار سے) بھی دوسری دلیلوں سے ثابت ہے اس لیے کہ علی (رضی اللہ عنہ) گرچہ صحابہ کی جماعت میں سے ہیں مگر ان کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے اور وہ قرابت (رشتہ داری) ہے۔

📚 [المسائل الفقهية من كتاب الروايتين والوجهين ج٢ ص ٩٤ (ت. عبد الكريم اللاحم) ط. مكتبة المعارف]

ثابت ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ گرچہ صحابہ میں سے ہیں لیکن ایک چیز ان میں ان سب سے خاص ہے اور وہ قرابت ہے۔ علی رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کے صحابی بھی ہیں اور رشتہ دار بھی۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ دوسرے صحابہ جو صرف قریشی ہیں ان کے مقابلے میں صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ ہاشمی بھی ہیں۔ تو علی رضی اللہ عنہ نسب کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھنے والے صحابی ہیں۔ اور جن اقوال میں آتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ شیخین و عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد تفضیل میں سکوت فرماتے تھے اس قول کی روشنی میں ان اقوال کی بھی وضاحت ہوگئی۔

والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب، وإليه المرجع والمآب، وصلى الله على سيدنا محمد الأمين وعلى آله وصحبه وسلم

كتبه

حماد بن سعيد العلوي