حیرت ہے احمد جاوید نے جس طرح اپنی نظم میں مولا علی کرم اللہ وجہہ کے قریبی ساتھیوں اور تابعین بارے نہایت نا زیبا الفاظ استعمال کیے اور اس طرح مولا علی کی شان اقدس کو گدلانے کی ناپاک جسارت کی ہے ،تاریخ اور تہذیب کی اس بے حرمتی اور ادب کی آڑ میں فرقہ وارانہ نفرت اور تصوف کے لبادے کی آڑ میں ناصبیت اور خارجیت اس میں نمایاں ہے ۔ احمد جاوید نے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت مالک اشتر رضی اللہ عنہ بارے جو زبان استعمال کی وہی انتہا پسند نواصب اور خوارج استعمال کرتے ہیں اور تاریخ کی سفیانی و یزیدی تعبیر پیش کرتے ہیں – کیا اُس سے صرفِ نظر کر کے احمد جاوید کو محض ایک مہذب دیوتا مان لیا جائے اور اُس پر کوئی دلیل بھی طلب نہ کی جائے ۔ کیوں بھئی؟ علی کے دوست اور مددگار اور ناصر پر اگر کوئی جاہل بدزبانی کرے گا تو علی کو کتنی تکلیف پہنچے گی ،اِس کا اندازہ کسی کم نسب کو نہ ہو تو تو نہ ہو ، ایک مولائی کو تو ضرور ہو گا ۔ بے شک احمد جاوید کی اِس نظم نے ہمیں مجبور کیا کہ اُس کی پارسائی اور صوفی ازمی اور علمی بصیرت کا پردہ ضرور چاک کریں ۔
بقول جناب علی اکبر ناطق
خدا شاہد ہے ، مَیں آج بھی احمد جاوید سے سرِ عام معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں ، اگر وہ یہ ثابت کر دیں کہ یہ کریہہ نظم اُس کی نہیں ہے ۔ یا اگر اُنھوں نے اِس نظم کو لکھنے کے بعد کسی وقت اُس سے دست برداری کا اعلان کیا تھا ۔ چلیے ابھی بھی وہ اگر کھلے عام اپنی اِس کتاب کو چوراہے میں رکھ کر آگ لگا دیں اور توبہ کر لیں تو مَیں بھی اپنے الفاظ واپس لے لوں گا ۔ عجیب بات ہے کہ ایک ستر سال کا بڈھا اسلامی مقدسات پر اپنی شاعری کی کتاب میں نام لے کر ایسی بیہودہ زبان استعمال کرتا ہے اور پھر بھی صاحبِ علم ہے ، مہذب ہے ، دانش ور ہے ، معتدل ہے ، اور مَیں جو اُس کی یاوہ گوئی کی نشاندہی کرتاہوں ، بدتہذیب اور فرقہ پرست ہو جاتا ہوں ۔
مَیں احمد جاوید کی نظم یہاں پھر پوسٹ کرتا ہوں ۔ آپ اُسے دوبارہ پڑھیے اور دیکھیے اس شخص نے کیسی زبان استعمال کی ہے ، اور اِس کے حواری کیوں کر اِس کا جواز پیدا کر سکتے ہیں۔
چمگاڈروں کا قصور یہ نہیں کہ وہ صبح کی روشن کرنیں نہیں دیکھ سکتے ، اصل قصور یہ ہے کہ وہ ظلمت کو روشنی کا نام دیتے ہیں اور روشنی میں بسنے والوں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ ظلمت کو نور کہیں ۔ ۔
—
آندھی کا رجز
(ناصبیت کا پٹارا )
یہ احمد جاوید کی نظموں کی کتاب ہے ، ۲۰۱۲ میں چھپی ہے ۔ میرا احمد جاوید سے لاہور میں ۱۲۰۱۶ سے ۲۰۱۹ تک تین سال روز کے حساب سے ملنا ہوتا رہا ، مگر اُنھوں نے مجھے اِس کتاب کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔ بلکہ یہ تک نہیں پتا چلنے دیا کہ اُن کی کوئی شاعری کی کتاب چھپ چکی ہے ۔ حالانکہ مَیں نے اُن کی شاعری کی کتاب کے متعلق کئی بار سوال کیا تھا ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے میرے کئی دوستوں نے خبردار کیا تھا کہ یہ شخص ناصبی ہے اور فرقہ پرست آدمی ہے ، تم مولائی ہو کر کیسے اِس کے ساتھ سلام دعا رکھے ہوئے ہو ۔ مجھے یقین نہ آتا تھا ، کیونکہ یہ آدمی اتنا عیار اور دھوکے باز تھاکہ مَیں بے خبر رہا ۔ بلکہ ایک دفعہ اِس کے بارے میں پوسٹ بھی لگائی کہ غلط فہمی ہو گئی ہو گی ، جب اس نے کہیں شیعوں کے خلاف کوئی بات کی تھی ۔ مَیں نے اپنی پوسٹ میں اس کا دفاع کیا تھا ۔
حتیٰ کہ پچھلے دنوں شہلا نقوی پاکستان آئی تو مجھے اُس نے اِس آدمی کی یہ کتاب پڑھنے کو دی اور کہا ناطق دیکھو یہ شخص کیا ہے ۔ مَیں نے فوراً وہ کتاب پڑھی اور اب یہ ہے کہ سب سے پہلے تو مَیں خدا سے اپنے اُس گناہِ عظیم کی توبہ کرتا ہوں جو غفلت میں اِس کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرنےکا مجھ سے ہو گیا ۔
اب سنو کہ احمد جاوید جو بظاہر صوفی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور شعرو ادب کی تفہیم پر اپنی مہارت ظاہر کرتا ہے ، نہایت دشمنِ اہلِ بیت ہے ۔ ناصبی ہے ، خارجی خیالات کا آدمی ہے ، بغض سے بھرا ہوا ہے لیکن اِن چیزوں کو چھپانے کا بھی بہت بڑا ماہر ہے ۔ مَیں نے اِس کتاب میں نمونے کے طور پر اِس کی ایک نظم لگائی ہے ، آپ بھی پڑھ لیں ۔ اِس میں اِس شخص نے سیدھی سیدھی حضرت علی علیہ السلام کے صحابی مالک اشتر رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی ہیں ، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی ہیں اور صوفی سنی و شیعہ نظریات کو گالیاں دی ہیں اور ایسی غلیظ زبان استعمال کی ہے جو ہندہ جگرخوارہ کی سی نفرت اپنے دل میں رکھتا ہو تو پیدا ہوتی ہے ۔ اِسی کتاب میں اِس نے حضرت بہلول رحمہ اللہ کو گالیاں دی ہیں ، اور اپنے خفیف اشاروں سے مولا علی اور امام حسین ؑ پر طعن کیا ہے ۔ مَیں حیران ہوں ، اِس شخص کے کتنے چہرے ہیں اور ہر چہرے کے اندر ایک شیطان کی ریاح کی بدبو ہے (یہ اُسی کی ترکیب ہے ) ۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ یہ آدمی شاعر بالکل نہیں ہے ، بلکہ شاعری کی ا ب نہیں جانتا ، موٹے موٹے الفاظ کے باٹ ہیں ، جنھیں چبا چبا کر سادہ لوگوں کو مرعوب کرتا ہے ۔ اور عجیب بات ہے کہ اِس کا اتباع کرنے والوں کے ڈر سے یا اپنی سادگی کے سبب سے کسی نے آج تک اِس کی اِن نظموں کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ۔ حیرت پر حیرت تب ہوتی ہے کہ یہ آدمی مولا علی کی شان میں عطا ہوئے الفاظ ہی اُٹھا کر حضرت عثمان کی مدح میں استعمال کرتا ہے اور ہر مصرع میں مولا علی کے صحابہ بارے بد تہذیبی کرتا ہے ۔ خیر ہم اِسے حضرت عثمان کی مدح سے نہیں روکتے کہ یہ اُس کا حق ہے مگر اُس کی مدھ کی آڑ میں جو اِس شخص نے اپنے پیٹ کا تمام گٹر اہل تشیع کے سر پر انڈیلنے کی کوشش کی ہے کم از کم مَیں اُس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا ۔
کسے نہیں معلوم مولا علی مالک اشتر اور محمد بن ابی بکر کو اپنے کتنا نزدیک رکھتے تھے اور اُن کی شہادتوں پر کیسے روئے تھے اور کتنا کرب محسوس کیا تھا ؟ اُن کی شہادتوں نے علی کے بازو توڑ دیے تھے اور ظلم کا راستہ صاف ہوا تھا ۔ جنھیں یہ شخص ، سور ، جہنم کے کتے ، سنڈیاں اور پتا نہیں کیا کیا بکتا ہے ۔ یہ شخص تاریخی شعور میں اتنا اندھا نہیں ہو سکتا ہاں مگر خارجی اور ناصبی ہی یہ کام کر سکتا ہے ۔
واللہ آج کے بعد مَیں نے اُن تمام الفاظ سے رجوع کیا ہے جو کبھی اِس آدمی کے روادار اور پڑھے لکھے ہونے پر کہے تھے ۔ انسان غلطی کا پُتلا ہے ، مجھ سے بھی غلطی سرزد ہو گئی ہے ۔ کہ اسے روادار سمجھا ۔
یہ شخص اپنی داڑھی کے اندر شیطان رکھتا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ زیادہ دیر ایسوں کو وقت نہیں دیتا ، ذلت و رسوائی کے ساتھ زمین سے اٹھاتا ہے ۔
احباب اس کی یہ نظم پڑھ لیں اور جن کے پاس کتاب ہے ،وہ کتاب پڑھیں تب کھلے گا کہ یہ آدمی ، آدمی نہیں کئی سینگوں والا شیطان ہے ۔
علی اکبر ناطق


