اسرائیلی دھشت گردی اور الموردیوں کی فکری لکنت

غامدی صاحب کے متبعین کے لیے مذھبی شناخت ایک ایسا کمبل ہے جس سے وہ خلاصی چاھتے بھی ہیں اور مجبوری ہے کہ اس سے لاتعلقی ممکن بھی نہیں ، فیشن زدگی ، گلیمر ، کلاس ، نیم لبرلیت کے کمپلیکس نے ان اصحاب کو ایک ایسے فکری انتشار ، بحران وشناخت کے مسئلہ میں مبتلا کر رکھا ہےکہ جس کے نتیجہ میں ایک الگ ھی قسم کی علمی ونظریاتی خواجہ سرائیت تخلیق پاتی ہے جو نہ مذھبی ھوتی ہے نہ لبرل نہ زمینی حقیقتوں سے اس کا تعلق ھوتا اور نہ درست تاریخی تناظر میں اس کو ایڈریس کیا گیا ھوتا ہے ۔

بس ھوا میں معلق ایک ایسا فلسفہ ھوتا ہے جس کے لیے ھواوں میں گھورتے رھنا پڑتا ہے ۔

(امریکی مہمان بن کر روشن پسند اسلام کی تبلیغ کرنا اور مسجد اقصی کے قبلہ اوّل ہونے کے نظریے کی مخالفت کرنا کس کا ایجنڈا ہے)

اسرائیل کی حالیہ دھشت گردی کا اصل اور حقیقی سبب اسرائیل کا داخلی سیاسی بحران ہے ، وہ بحران یہ ہے کہ حالیہ منعقد ھونے والی الیکشنز میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکی ، جس کے بعد سادہ اکثریت ثابت کرنے کے لیے اسرائیل کے پارلیمانی نظم نے نیتن یاھو کو ایک ماہ کا وقت اور حکومت دی ہے کہ وہ اس دوران اپنی اکثریت ثابت کریں ، نیتن یاھو کی اسرائیل میں وھی حیثیت ہے جو بھارت میں موڈی کی ہے اور جیسے موڈی ھندوستان میں ھندوانتہا پسندوں کا فیورٹ ہے نیتن یاھو اسرائیلی صیہونیت کا علمبردار ہے .

نیتن یاھو نے اپنے سیاسی منشور ھی میں نئی یہودی آبادکاریوں کا اعلان کر رکھا تھا اور اس ایک ماہ کے وقت میں وہ ایسے ھی انتہا پسندانہ اقدامات کے زریعہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور اکثریت ثابت کرنا چاھتا ہے ۔نئی یہودی آبادیاں دراصل یروشلم میں یہودی آبادی کا تناسب بدلنے اور یروشلم کو اسرائیلی دار الحکومت قرار دینے کے دیرینہ یہودی ایجنڈے کا ایک حصہ ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف الاقصی جل رھی ہے تو وہیں اس کے جلتا دیکھ کر اسرائیلی ناچ رھے ہیں ۔

اس تناظر میں کی گئی اسرائیلی دھشتگردی کو ھمارے الموردی نہتے اور مظلوم فلسطینوں پر غصہ نکالنے اور اس مسئلہ کا “تاریخی وجیو پولیٹکل ” تجزیہ فرما رھے ہیں جس کا تاریخی اور جیو پولیٹکس سے اتنا ھی تعلق ہے ، جتنا بزدار حکومت کو گڈ گورنینس سے ۔

اگلی پوسٹ میں اسرائیل وفسلطین مسئلہ کا دیرینہ تاریخی تناظر اصل حوالہ جات کی روشنی میں پیش کیا جائے گا ، گوگل زدگی کی روشنی مین نہیں

علی شاہ کاظمی