ڈاکٹر ندیم عباس
بیس سال پرانا واقعہ ہے ہمارے گاؤں میں سکول فقط پرائمری تک تھا جس کی وجہ سے چھٹی کلاس سے دوسرے گاؤں میں واقع ایک سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں شیعہ سنی آبادی مل جل کر رہتی ہے اور ایک دوسرے کا احترام کرتی ہے مگر جس دوسرے گاؤں کے سکول میں تعلیم کے لیے داخل ہوئے وہاں شیعہ آبادی نہیں ہے۔ محرم کے آغاز پر ایک باریش استاد نے ایک شیعہ لڑکے کا نام لے کر بھری کلاس میں کہا اوئے فلاں تم سینہ پیٹتے ہو؟ وہ لڑکا کافی سمجھدار تھا اور زبان دراز بھی، وہ صورتحال کو سمجھ گیا کہ استاد فرقہ واریت کا کوئی موضوع چھیڑنا چاہتا ہے، اس نے چٹکلا چھوڑا جی استاد جی اپنے سینوں پر ہی پٹتے ہیں۔ یہ جملہ اس انداز میں کہا گیا کہ پوری کلاس ہنسنے لگی۔ استاد اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
یہ ایک واقعہ نہیں ہے آپ جس بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ذرا اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کریں، آپ کو ماہ محرم میں شیعہ طلبا سے اساتذہ کے سوالات اور اگر شیعہ طلبا نہیں ہیں تو بالخصوص اسلامیات کے اساتذہ کے تضحیک آمیز خیالات ضرور یاد آئیں گے۔ اب یہ سوالات شیعہ طلبا اپنے علما سے پوچھتے ہیں جس سے سوال و جواب کی صورت وہ بہت سے ایسے امور سے وقت سے پہلے آگاہ ہو جاتے ہیں جن سے اہلسنت بچہ بہت بعد میں بھی آگاہ نہیں ہوتا۔ اس تمام صورتحال میں اسلامک سٹڈیز کے اساتذہ کے رویے معاشرے میں فرقہ ورانہ بحث کو پیدا کرتے اور رواج دیتے ہیں۔
ایک استاد جو سرکار کی تنخواہ لے رہا ہے اسے تو اس بات کا پابند ہونا چاہیے تھا۔ وہ بچوں کے ذہنوں میں موجود سوالات کے جوابات دیتا، ان غلط فہمیوں کو دور کرتا جو مسلمان مسالک میں ایک دوسرے کے خلاف موجود ہیں۔ وہ تو فریق بن گیا، فریق بھی ایسا جو فرقہ واریت کی تعلیم دیتا ہے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامک سٹڈیز کے اساتذہ کی اکثریت مدارس کی تعلیم یافتہ ہے اور اپنے فرقے سے باہر نہیں نکلتی۔ انہوں نے اپنے فرقہ کی تبلیغ کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیا ہے۔
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامک سٹڈیز کے نصاب میں اضافہ کیا جائے گا۔ اسلام کی تعلیم اچھی بات ہے، ہونی چاہیے ہم نصاب پر بھی بات کرتے ہیں مگر استاد کی تربیت بہت ضروری ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ یونیورسٹیز کے اسلامک سٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ فرقوں کے حساب سے تقسیم ہو چکے ہیں۔ سب کو معلوم ہے فلاں جگہ اس مسلک کے لوگوں کو فوراً داخلہ مل جائے گا اور ان کو تو بالکل بھی نہیں ملے گا۔ اسلامک سٹڈیز کے ایچ ای سی کے تصدیق شدہ جرنلز کا بھی یہی حال ہے ہر جرنل کا مسلک اس کی فہرست کو دیکھ کر پتہ کیا جا سکتا ہے ایک دو کو ہی استثنا حاصل ہو گا۔
نصاب بنانے والی کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں موجود تمام مسالک کے عقائد و نظریات کا خیال رکھے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق آئمہ اہلبیتؑ اور حضرت فاطمہ ؑ کی زندگی کو مناسب جگہ نہیں دی گئی اور ان کی سیرت کو نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ ان کی زندگی کے واقعات اور ان بزرگ ہستیوں کے اقوال کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
اسلامی تہواروں میں تبلیغی اجتماع تک کو شامل کیا گیا ہے جس کو شروع ہوئے سو سال ہی ہوا ہو گا مگر ماہ محرم کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ محرم پورے ہندوستان میں مسلم شناخت کی اہم علامت ہے۔ محرم کے جلوس شیعہ سنی مسلمان مل کر نکالتے ہیں آج بھی چنیوٹ کے نو تعزیوں میں سے سات اہلسنت نکالتے ہیں اور ملتان کے ایک سو چودہ تعزیے کے جلوسوں میں سے ننانوے اہلسنت نکالتے ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ میراث ہے جس سے مظلوم کی حمایت اور ظالم سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ہمارے نصاب میں نہ ہونا المیے سے کم نہیں ہے کہ ہم بچے میں انسانیت اور قربانی کا جذبہ اس واقعہ سے بہتر اور کسی طرح پیدا کر ہی نہیں سکتے۔
ایک بہت ہی ضروری بات جس کا میں نے بار بار اظہار کیا، جس کے نہ ہونے سے غلط فہمیوں کے پہاڑ جنم لیتے ہیں اور قتل و غارت تک ہوتی ہے، وہ نصاب میں تمام اسلامی مسالک کا تعارف نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جب ہم صحیح وقت پر درست تعلیم نہیں دیں گے تو بچے سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور دوسرے مسالک کے ماننے والے بچوں کو کافر، مشرک، گستاخ اور بدعتی سمجھتے ہیں۔ اس سے بچوں میں ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پیدا ہوتی ہے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔
ضروری ہے کہ پاکستان میں بسنے والے چار بنیادی مسالک بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ کا صرف ایک ایک پیج کا تعارف جن میں ان سب سے کہا جائے کہ یہ اپنے بنیادی عقائد کو بتا دیں تاکہ بچے ابتدا ہی سے جان لیں کہ پاکستان میں بسنے والے دیگر بڑے مسالک کے عقائد کیا ہیں؟ اس سے معاشرے میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا اور بین المسالک ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔
ایک اہم چیز جس کا اظہار بہت ضروری ہے کہ ہزاروں میل دور اسلام کی خدمت کرنے والے صوفیاء کا تذکرہ کرنے کی بجائے ان صوفیائے کرام کا تذکرہ نصاب کا حصہ بنایا جائے جو اس مٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی کوششوں اور محنتوں سے آج اس خطے کے عوام مسلمان ہیں۔ ایسے لوگوں کا نصاب سے باہر رہنا سمجھ سے بالاتر ہے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے بڑے علاقوں میں اسلام پھیلانے میں سید جلال الدین بخاری سرخ پوشؒ اور ان کی اولاد میں سے سید شاہ جیونہ ؒ نے بنیادی کردار ادا کیا ان کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ اگر زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے تو سید عبداللہ شاہ غازی ؒ تبلیغ اسلام کے لیے آنے والے ابتدائی لوگوں میں سے ہیں ظلمات ہند میں شمع اسلام کو روشن کیا ان کا تذکرہ ہونا چاہیے۔
دیکھیے نصاب وہ نقشہ ہے جس پر ہمارے بچے کی شخصیت کو تعمیر ہونا ہے اس میں یہاں موجود ہر مکتب فکر کی نمائندگی ہونی چاہیے جسے نظر آنا چاہیے۔ ہمارے بچے کو اپنی اسلامی شناخت کا علم ہونا ضروری ہے ساتھ ساتھ اسے اسلام میں موجود تنوع سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے اس خطے میں اسلام کے نورانی پیغام کو پہنچانے میں دن رات ایک کیے ان کا ہمارے بچوں کو معلوم ہونا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ون وے ٹریفک تہتر سال سے چل رہا ہے وہ چلتا رہے گا اور اسی طرح نصاب رکھنے سے صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی۔ ہمارے سکولوں کالجوں اور مسلکی مدرسوں میں کوئی فرقہ نہیں رہے گا۔ کلاس میں کھڑا استاد اسلام کا نمائندہ ہو گا تو ہی بات آگے بڑھے اگر مسلکی خول میں بند ہو گا تو معاشرہ بھی مسلکی گرد میں اٹا ہی ملے گا۔ حکومت استاد کی بہتر تربیت کا انتظام کرے ہر جگہ کیمرہ لگانا ممکن نہیں کم از کم نصاب تمام مسالک کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔