اسلام کی ابتدائی تاریخ میں دو ادوار انتہائی مشکل تھے اور آج تک یہ دونوں ادوار حساس موضوعات ہیں :
۱ ۔ پہلا فتنہ جو شہادتِ عثمان رضی اللٰہ عنہ (۶۵۶ عیسوی) سے شروع ہوا اور صلحِ حسن علیہ السلام و معاویہ (۶۶۱ عیسوی) تک رہا۔
۲۔ دوسرا فتنہ جو شہادتِ حسین علیہ السلام (۶۸۰ عیسوی) سے شروع ہوا اور شہادتِ عبداللٰہ بن زبیر رضی اللٰہ عنہ تک رہا۔
یہ دونوں کثیر الفریقی سیاسی تنازعات تھے۔ ان دونوں میں چار گروہ تھے۔
۱۔ شیعتِ علی ۔۔۔ جو اس زمانے میں کوئی مذہبی فرقہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی جماعت تھی جس کے مذہبی عقائد عام مسلمانوں والے ہی تھے۔
۲۔ عبداللٰہ بن زبیر گروپ ۔۔۔ جو پہلے فتنے کے دوران شیعانِ علی سے جنگ جمل میں لڑے اور دوسرے فتنے کے دوران شہادتِ حسین کے بعد بنو امیہ کے مقابل آئے۔
۳۔ بنو امیہ ۔۔۔ پہلے فتنے میں امیر معاویہ اور دوسرے فتنے میں یزید، مروان اور عبدالملک کی قیادت میں برسر پیکار تھے۔
۴۔ خوارج ۔۔۔ ان کی کوئی مستقل قیادت نہیں تھی لیکن یہ ایک دہشت گرد گروپ کی صورت میں سب سے لڑ رہے تھے۔
امیر المومنین سیدّنا عثمان ذولنورین رضی اللہ عنہ وہ آخری نمایاں شخصیت تھے جو ذاتی طور پر ان میں سے کسی سیاسی پارٹی کا براہ راست حصہ نہیں تھے۔ ان کی بھوک پیاس کی حالت میں مظلومانہ شہادت ایک ظلمِ عظیم تھا، ایک اندوہناک واقعہ تھا جس کے نتیجے میں امت کو آج تک اتحاد نصیب نہیں ہوا اور خون خرابے اور ملوکانہ جبر کے دروازے کھل گئے۔
لیکن
آج کل جس طرح اسی شہادتِ حسین سے کمپئیر کیا جارہا ہے اور ایک مکتب فکر شہادت حسین کو بین السطور جسٹفائی کرنے کے لیے جس طرح شہادتِ عثمان کو استعمال کرتا ہے، وہ ایک مکروہ حرکت ہے جس کی کوئی تاریخی بنیاد بھی نہیں۔
ان دونوں شہادتوں کا پس منظر یکسر مختلف تھا اور ان دونوں سانحوں کا سکیل بھی۔ امام حسین کوئی حکمران نہ تھے اور نہ ان کے کزنز مختلف صوبوں کی گورنریوں پر تعینات ہو کر کرپشن اور نا انصافی سے عوام میں اضطراب کے بیج بو رہے تھے، نہ ان کے خلاف کوئی عوامی بغاوت ہوئی تھی۔
سیدّنا عثمان تنہاء شہید ہوئے، اولاد اور بھائیوں اور بھتیجوں کی قربانی نہیں دی۔ کربلا میں صرف امام حسین تنہاء نہیں بلکہ بچوں سمیت اہلبیتِ رسول کے اٹھارہ لوگ شہید ہوئے، عورتوں، بچوں اور بیمار امام سجاد کو قید و بند جھیلنا پڑی۔
پھر یہ کہ سیدّنا عثمان کی شہادت میں خود ان کا اپنا خاندان (جو شہادتِ حسین کا بھی ذمہ دار ہے) اگر براہ راست ملوث نہیں بھی تھا تو بھی کم از کم برابر کا ذمہ دار ضرور تھا۔ جبکہ سیدّنا حسین کے اہلِ خانہ نے وفا کی عظیم مثالیں قائم کرکے واقعہ کربلا کی اہمیت کو اور بڑھا دیا۔
سیدّنا عثمان تو تقدیر کی طرف سے ایک بِن بلائی مشکل میں آ پھنسے تھے جس میں انہوں نے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا لیکن سیدّنا حسین نے تو دین اور اُمت کے بھلے کے لیے جان بوجھ کر اس راہ کا انتخاب کیا اور عزیمت کے درجے پر فائز ہوئے۔
شہادتِ عثمان رضی اللٰہ عنہ کے حوالے سے سبائی فتنے کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جو صد فیصد افسانہ ہے۔ اوّل تو کئی ثقی مورخین کو عبداللٰہ بن سبا کے وجود پر ہی شک ہے۔ طہٰ حسین اور محمد حسین ہیکل جیسے عرب سنّی مورخین ایسے کسی کردار کے تاریخی وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔ اور جن تاریخی ریکارڈز میں اس کا ذکر ہے، وہ بھی سیدّنا علی کے دور میں ہے۔ سیدّنا عثمان کے خلاف بغاوت میں اس کے کردار کا دور دور تک کوئی تذکرہ کہیں نہیں آتا اور خود سیدّنا علی کے اسے سزا دلوانے کا ذکر ہے۔
بالفرض اگر عبداللٰہ بن سبا من گھڑت کہانیوں کے مطابق عثمان رضی اللٰہ عنہ کے خلاف تحریک میں ملوث تھا بھی اور اس نے تمام صحابہ کی (نعوذ باللہٰ) مت مار دی تھی تو بھی خود مولوی حضرات کی باتوں کے مطابق سیدّنا علی نے اسے قتل کروادیا تھا۔ جب شہادت عثمان کا مرکزی کردار قتل کروادیا گیا تو معاویہ بن ابوسفیان کی علی کے خلاف بغاوت کا کیا جواز باقی رہ گیا ؟ گویا صیاد تو اپنے دام میں خود آرہا ہے۔
آخر میں ایک بات کہ سیدّنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اپنے عوامل، نتائج، اثرات، شدت، مظلومیت اور احادیثِ نبوی کے اعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ کسی اور شہادت کو اس سے کمپئیر کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ شہادت دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفی شہادت ہے۔ امام حسین کے بابا سیدّنا علی رضی اللہ عنہ بلا شک و شبہ امام حسین سے کہیں زیادہ افضل ہیں لیکن جہتِ شہادت میں امام حسین اپنے بابا علی اور بھائی حسن اور اہلبیتِ کے دیگر تمام ائمہ سے بھی افضل ہیں۔
احمد الیاس