اسلام کے اصلاح پسند

‎بھیا سچی بات ہے کہ اصلاح کے ان نام نہاد دعوے داروں نے ہمیں بڑا نقصان پہنچایا ہے۔

‎بڑے زوق شوق سے رمضان کی تراویح پڑھا کرتے تھے، جناب غامدی کے ایک شاگرد سے دو عشرے قبل طویل مکالمہ رہا، انہوں نے غامدی صاحب کی تحقیق سے اگاہ کیا اور قائل کر لیا کہ تراویح خالص نفل عبادت ہے اور رمضان تو خالصتا تخلیے کا مہینہ ہے، اپنے گھر میں عبادت کرنی چاہیے۔ ہم ایسے قائل ہوئے کہ تخلیہ میں عبادت تو کیا کرنا تھی، تراویح سے بھی گئے، کبھی پڑھنا بھی پڑی تو ایسے کہ جیسے خدانخواستہ قدرت پر احسان کر رہے ہیں کہ پڑھنے کی ضرورت تو نہیں تھی، ہماری مہربانی کہ پڑھ ڈالی۔

‎ نمازوں میں سنت موکدہ غیر موکدہ کی تقسیم سے آگاہ تھے مگر سنت موکدہ کا اہتمام رہتا۔ پتہ چلا کہ نماز میں فرض نمازیں ہیں یا نوافل ۔ سنت موکدہ غیر موکدہ کی تقسیم تو متاخرین فقہ حنفیہ کی ہیں۔ ہم نے بسم اللہ کر کے فرض کو پکڑنے کی نیت کی اور رفتہ رفتہ نوافل چھوٹتے گئے۔

‎ شب معراج پر شب بیداری کا معمول بنایا ہوا تھا نوجوانی میں۔ پھر پتہ چلا کہ نہیں اس کی ضروررت نہیں یہ تو بدعت ہے۔ سوشل میڈیا کے طوفان میں یہ نیا شوشا بھی پڑھا کہ شب معراج کا دن تو قطعی ہے بھی نہیں، ستائس رجب ایسے ہی مشہور ہوگیا ہے۔ اب شب معراج کو ہمارے جیسے ڈھیلے، دنیا دار لوگ لمبی تان کر سوتے ہیں اور ان اصلاح پسندوں کے کھاتے میں نجانے کیا لکھا جاتا ہوگا۔ ہمیشہ سے بارہ ربیع اول سرکار ﷺ کی پیدائش کے حوالے سے منایا جاتا رہا ہے، ہمیں تو پچھلے تیس چالیس برسوں میں یہی یاد ہے۔ اب کچھ لوگ نیا فتنہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں بارہ ربیع الاول نہیں کوئی اور دن تھا، کوئی نو کہتا ہے کوئی سولہ یا کسی اور دن کا کہتا ہے۔ مجھے تو مقصد یہی لگتا ہے کہ اگر اتفاق رائے موجود ہے تو اسے پاش پاش کیا جائے۔ اس کے سوا اس کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟

‎ مدت سے پندرہ شعبان کی رات شب برات کے طور پر اہتمام سے مناتے تھے۔ والد مرحوم پٹاخوں کے سخت خلاف تھے، مگر ان کا اپنا اہتمام تھا کہ مغرب کے چھ دو دو کر کے چھ نفل صحت، رزق ،دفع بلیات کی دعا کے لئے پڑھتے، رات بھر قرآن کی تلاوت اور دیگر اہتمام رہتا۔ ہم لڑکے محلے کی مسجد چلے جاتے اور رات بھر تلاوت، تسبیحات، تہجد کی نماز وغیرہ پڑھتے، فجر پڑھ کر واپسی ہوتی، اگر کسی نے آنا بھی ہوتا تب بھی دو تین گھنٹے کی عبادت لازم تھی۔

‎ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں شب برات پر مکمل اتفاق رائےتھا۔ کم از کم ہمارے شہر میں بریلوی، دیوبندی سب اس پرمتفق تھے، غالباً اہل تشیع بھی اسے اتنے ہی احترام سے منایا کرتے۔ بہت بعد میں ایک دن کسی دیوار پر پوسٹر لگا دیکھا جس میں کئی حوالوں سے ثابت کیا گیا کہ شب برات بھی بدعت ہے۔ الا مالشاللہ۔

‎یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، جس کا جو جی چاہے اٹھ کر لکھ ڈالتا ہے۔ عجیب عجیب فرقے، نت نئے فتنے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ لوگوں میں تشدد اتنا ہے کہ اپنی سوچ سے مختلف کوئی بات برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ یوں ڈپٹ کر پوسٹ لکھتے ہیں کہ جس نے شب برات کو عبادت کی وہ خدانخواستہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔

‎ یارو کچھ نرمی، اعتدال سے کام لو۔ اپنی رات کو حتمی نہ سمجھو۔ بعض چیزوں کے حق اور مخالفت میں بھی روایات موجود ہیں، جس طرح ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے ، رفع یدین کرنے نہ کرنے پر مختلف روایات موجود ہیں، مختلف گروہ ان کے مطابق عمل کرتے ہیں، وہی معاملہ شب برات کا ہے ۔کسی نہ کسی دلیل کی بنا پر ہی وہ کام کیا جا رہا ہے۔ آپ نے کرنا ہے تو کریں، نہ کرنا ہے تو نہ کریں۔ اگر کوئی ہمارے جیسا گناہ کار اس رات شب برات کی برکات کا سوچ کر تھوڑا بہت رب کا یاد کر لے تو اس میں آپ کا کیا بگڑتا ہے؟

‎ آج شب برات ہے۔ مختلف روایات میں اس کے فضائل، مختلف نفلی عبادات کا تذکرہ آیا ہے۔ جو کچھ، جتنا کچھ آپ کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔

‎ صلاتہ التوبہ، صلاتہ الحاجت، قرآن کی تلاوت، درود مبارک اور دیگر مسسون دعائوں ، تسبیحات کو پڑھنا۔ رب کریم سننے ، قبول کرنے والا ہے۔ اسے بخشنے کے لئے بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ اپنے رب کو یاد کریں، اس سے رابطہ جوڑیں۔ ان فیس بکی مولویوں، فتوے دینے والی مشینوں کی پروا کئے بغیر۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔

محمد عامر ہاشم خاکوانی