لاہور
۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کنوینشن میں دیا ہے، پڑھا ہوگا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے، میں سمجھتا ہوں آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقع دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کرسکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک مُوثرٔ جواب دیا جائے ۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا ِمسلم کنوینشن منعقد کریں، جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنوینشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کردیں کہ سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ اگر آپ ایسی کنوینشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی اُمنگوں اور مَقاصد کے خِلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں، مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانانِ ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میں چند روز تک دہلی آرہا ہوں ۔ اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہوگی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ میں ہوگا۔ اگر آپ کو فرصت ہو تو وہیں ہماری مُلاقات ہونی چاہیے ۔ ازراہِ کرم اس خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے ۔‘‘
آپ کا مخلص
اقبال بار ایٹ لاء
———
لاہور
۲۸مئی ۱۹۳۷ء
محترم جناح صاحب
آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے ۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنہوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی ۔
نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں، اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں، دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جارہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری (سود خوری) اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا، لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے۔ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے (اس ضمن میں) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں (اس قانون میں) مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین ( کی داستان) دہرائی جائے گی ۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیّت کا ہندوئوں کی ہیئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوں کے آپس میں تشدد کا باعث ہوگا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیّت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہوگا یا نہیں ؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریّت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریّت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہوگا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے ۔
’بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خُطبہ مُسلِم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کرسکے گی۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
’’مکرر آنکہ: اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرائوں مگر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ موجودہ وقت ایسے اقدام کے لیے موزوں نہیں۔‘
——————
اقبال کے خطوط جناح کے نام (Letters of Iqbal to Jinnah) قائد اعظم کی حیات میں محمد شریف طُوسی نے ان کے کاغذات میں سے تلاش کرکے نکالے اور اسی وقت جناح صاحب کی اجازت اور سرپرستی کے ساتھ شائع بھی کر دئیے گئے ۔ یہ خطوط اقبال نے پنجاب مسلم لیگ کے صدر کی حیثئیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کو لکھے اور ان خطوط نے جناح صاحب پر بے حد اثرچھوڑا۔ خطوط انگریزی میں تھے۔ یہاں ان کا ترجمہ دیا گیا۔
اقبال کے قائدا عظم کے نام یہ خطوط کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اس کتابچہ کے پیش لفظ میں تحریر کیے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں:
“یہ کتابچہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو اسلام کے قومی شاعر ، فلسفی اور عارف ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیان عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل تحریر کیے۔ یہ دور جو جون ۱۹۳۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اور اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنؤ کے تاریخی اجلاس کے دوران پر محیط ہے، مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔”
اقبال کے مندرجہ بالا دوسرے خط کو قائد کی زندگی کی آخری تقریر کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہیے جو انہوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی تھی۔
احمد الیاس