الفئة الباغية

حضرت علی کے کیمپ کے نزدیک اور بنص حدیث ان کے مد مقابل جماعت الفئة الباغية تھی، اس جماعت کے سربراہ کو legitimacy حضرت حسن کے صلح کرنے سے ملی۔ یہ صلح کا معاہدہ حضرت معاویہ کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوگیا اور وہ قانونی پوزیشن لوٹ آئی جو صلح حسن سے پہلے تھی جبکہ حضرت حسن بڑا لشکر لے کر الفئہ الباغیہ کے نکلے ہوے تھے۔ یزید اسی الفئہ الباغیہ کا سربراہ بنا ہوا، اس لیے باغی یزید تھا نہ حسین، اگر حسین حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے تو ان کے لیے قتال بھی بالکل جائز تھا تاہم فی الحال وہ ایک خطے کے عوام کی راے سے حکومت قائم کرنے کے مرحلے میں تھے، بلکہ بغور دیکھا جاے تو مسلم بن عقیل کے واسطے سے حضرت حسین کے لیے بلا جبر واکراہ بیعت ہوچکی تھی جو یزید نے ابن زیاد کے ذریعے بد ترین جبر کے ساتھ ختم کی تھی، اس لیے ابن زیاد نے بحکم یزید بغاوت کی تھی۔ (یہ نکتہ ہوسکتا ہے بعض اذہان کے لیے ذرا تفصیل طلب ہو لیکن اس وقت تفصیل کی فرصت نہیں ہے)

دوسرا اہم سوال یہاں پر یہ ہے کہ اصل حسین کے اقدام کا درست ہونا ہے الا یہ کہ اس کے برعکس ثابت ہوجاے یا اصل حسین کے اقدام کا غلط ہونا ہے الا یہ کہ اس کے برعکس ثابت ہوجاے۔ یہ طے کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس دور کے تمام واقعات کا پندرہ سو بعد احاطہ مشکل ہے تو ابہام کا فائدہ کس کو دیا جاے گا اور بار ثبوت کس پر ہوگا۔

تیسری بات یہ کہ حضرت حسین کی اس تڑپ کے درست ہونے کا سب سے بڑا ثبوت خود یزید ہے۔ اگر کسی کی گاڑی کے نیچے آکر کسی کسی جان چلی جاے اور قصور سارا مرنے والے کا ہو تو تھوڑی سی بھی انسانیت ہو تو انسان کے اندر سے عرصے تک احساس گناہ نہیں نکلتا یہاں اتنا بڑا حادثہ ہونے کے بعد اس کی اتنی جرات بڑھ گئی کہ بد معاشیوں پے بد معاشی کرتا چلا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حسین کی فراست باقیوں سے بڑی ہوئی تھی۔ اگر دوسرے حسین کی فراست کی نظر سے دیکھتے اور ان کا مقام بھی حسین والا ہوتا تو وہ بھی یہی کرتے۔ حضرت ابن عمر رئیس المتوقفین تھے لیکن جب بنو امیہ اچھی طرح طشت از بام ہوگئے تو آخر عمر میں انہیں ندامت رہی کہ الفئہ الباغیہ کے خلاف علی کا ساتھ دے دیتا تو اچھا تھا۔یہ تو چند اصولی باتیں عرض کیں وگرنہ حسین بعد کی فقہی جزئیات کے پابند نہیں تھے۔ میرے لیے دو باتیں کافی ہیں ایک یہ کہ حضرت حسین کو اپنی درستگی اور حقانیت میں کوئی تردد نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ وہ صورت حال کو مجھ سے زیادہ جانتے تھے دوسرے اللہ کے نبی کے ارشادات مجھے یہی بتارہے ہیں کہ ان تنازعات میں یہ خان دان بر حق تھا۔

مفتی محمد زاہد