اللٰہ پاک کوئی تاجر نہیں ہے کہ ظاہر کے نیک و بد کو تول کر سودا کردے۔ وہ دل، دل کی نیت اور نیت کے خلوص کو جانتا ہے۔ وہ عادل ہے لیکن عدل کیا ہے اور کیا نہیں، یہ طئے کرنا خالص اس کی صوابدید ہے کیونکہ وہی سب سے بڑھ کر عالم بھی ہے۔ ساری عمر کی گناہ گار طوائف کا خلوص اگر غضب کا ہو تو ایک بِلی کی تکلیف کم کرنے پر جنت مل جاتی ہے۔ اور سو سال کی عبادت لمحے بھر کے تکبر میں بہہ جائے، یہ بھی اس کے ہاں معمول کی بات ہے۔
لیکن بالفرض کوئی شخص تائب ہوکر یا خدا کے فضل و کرم سے یا اپنے کسی نیک عمل سے جنت الفردوس میں بھی چلا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت اس کے وہ اعمال جو شریعت کے خلاف تھے، درست ہوجائیں گے ؟ اور کیا وہ رول ماڈل ہوجائے گا ؟ بلی کو پانی پلا کر جنتی ہونے والی فاحشہ کی بدکاری اگر اس کے جنتی ہونے سے جائز نہیں ہوسکتی تو جان رکھیں کہ خلیفہ راشد سے بغاوت، ملوکیت، قتل و غارت، منبروں سے علی اور ان کے چاہنے والوں پر لعنت، بیت المال کا ذاتی تعیشات کے لیے استعمال اور جبری بیعت جیسے جرائم بھی جرائم ہونے کے لیے مجرم کے دوزخ میں جانے کے محتاج نہیں ہیں اور یہ فضول بحث ہے۔
گناہ تو ان سے بھی سرزد ہوئے جن کے بارے میں بشارت دی گئی کہ جنتی ہیں۔ تو کیا ان کے وہ گناہ ہمارے لیے جائز ہیں ؟
ہمیں اس بات میں قطعاً کوئی دل چسپی نہیں ہونی چاہیے کہ معاویہ جنتی ہیں یا نہیں۔ ان کی تکفیر اور ان پر لعن تو ان کے مسلمان ہونے کے سبب قطعی طور پر حرام ہے۔
یہ ساری بحث دینی بحث تو ہے لیکن مذہبی یا روحانی بحث نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق دین کے قانونی و سیاسی شعبے سے ہے اور جنت دوزخ اور فضائل اور نسبتوں کو ایک طرف رکھ کر اسے دین کی قانونی و سیاسی نکتہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ پہلو ہے جس کے سبب یہ مسائل زندہ مسائل ہیں اور ان کا ہماری آج کی زندگی اور مسائل سے براہ راست تعلق ہے۔ اگر جھوٹے سچے مذہبی تقدس کی آڑ میں جرائم کو جرائم نہیں کہا جائے گا تو یہ جرائم ذہنوں میں جرم ہی نہیں رہیں گے بلکہ انہیں ان “رول ماڈلز” کی سند حاصل ہوجائے گی۔ بڑے لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی بہت ضروری ہوتی ہے۔
احمد الیاس