امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی

“بہرحال، لوگوں کا کچھ ہی خیال ہو لیکن اسلامی تاریخ کے طویل مطالعہ نے مجھے اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ خلفاء اربعہ میں سے ہر خلیفہ کا وجود اس خاص وقت کی ضرورت کی پکار کا قدرتی جواب تھا۔ الحیات الدنیا جس میں آدمی قرآن کی رو سے کبھی خیر سے آزمایا جاتا ہے اور کبھی شر سے, اسی الحیات الدنیا کا وہ دور جو حضرت مرتضی علیہ السلام کے سامنے آ گیا تھا، یعنی ایک طرف اسلام تھا اور دوسری طرف مسلمان تھے, ان دونوں چیزوں میں پیدا کرنے والوں نے ایک ایسا تعلق پیدا کر دیا تھا کہ ایک کو اگر پکڑا جاتا ہے تو دوسری چیز بگڑتی ہے ۔۔۔ پھر کیا جائے ؟ ایک ایسا مشکل مسئلہ تھا کہ قضاہم کی قوتِ فیصلہ اگر مسلمانوں کو اس وقت نہ مل جاتی تو ممکن تھا کہ مسلمان نام رکھنے والی کوئی قوم دنیا میں رہ جاتی لیکن اسلام بھی باقی رہتا یا نہیں، اس کی پیشگوئی مشکل تھی اور سچ تو یہ ہے کہ اسلام کے غائب ہو جانے کے بعد یہ کہنا کہ مسلمان قوم تو باقی رہ گئی کچھ بے معنی سی بات ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو صف آرا کرنے میں لوگ کامیاب ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کے امام اور خلیفہ کے سامنے ایک عجیب صورت حال پیش ہوتی ہے کہ کیا کیا جائے؟ ان کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی بھی جائے یا نہ اٹھائی جائے؟ کیا جنگ میں ان کے ساتھ بھی وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو غیر مسلموں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے ؟ ان کے زخمیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ شکست کھانے والے جس مال و متاع کو چھوڑ کر بھاگیں گے اس کا انجام کیا ہو گا ؟ الغرض یہ اور ایسے بیسیوں پریشان کن سوال تھے جنہیں وہی حل کر سکتا تھا جسے پیغمبرﷺ کی زبان مبارک نے مسلمانوں کا سب سے بڑا قاضی قرار دیا تھا۔ قدرت کی ان مصلحتوں کو کون جانتا تھا کہ اسلام جب ان الجھنوں سے دوچار ہو گا تو الجھنوں کی سب سے بڑی سلجھانے والی طاقت کے ہاتھ میں اسلام کی سیاسی باگ اسی زمانے میں آجائے گی۔

امام ابو حنیفہؒ کا اسی سلسلے میں ان کے مشہور شاگرد نوح بن دراج جو یہ قول نقل کیا کرتے تھے یعنی جب حضرت علیؓ کے زمانے کے واقعات (جمل و صفین) کے متعلق امام سے پوچھا جاتا تو نوح کہتے ہیں کہ امام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ “حضرت علیؓ نے ان مواقع میں عدل کی روش اختیار کی اور مسلمان باغیوں کے ساتھ اسلامی حکومت کو کیا برتاؤ کرنا چاہیے اس کے قوانین حضرت علیؓ ہی نے سکھائے اور بتائے۔”

– مولانا مناظر احسن گیلانی

کتاب : امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی