١ مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے آیا ہو…
٢ مجھے خود اپنا معاملہ یزید سے طے کر لینے دو
٣ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر بیجھ دو وہاں کے لوگوں پر جو گزرتی ہے وہی مجھ پر گزری گی.
اس روایت کو سب سے پہلے ابو جعفر بن جریر الطبری نے اپنے تاریخ میں بیان کیا اور اسی روایت کو امام عماد الدین ابن کثیر بغیر جرح کے کتاب البدایہ و النہایہ پر نقل کر دیا
ابو جعفر بن جریر الطبري… حدثني زكرياء بن يحيى الضرير قال حدثنا أحمد بن جناب المصيصي ويكنى أبا الوليد قال حدثنا خالد بن يزيد بن أسد بن عبد الله القسري قال حدثنا عمار الدهني قال قلت لأبي جعفر…..
تاريخ الطبري – الطبري – ج ٤ – الصفحة ٢٥٧
یہ مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے ضیعف اور مردود ہے
١ زكريا بن يحيى الضرير…..
امام یحییٰ ابن معین فرماتے ہیں کہ یہ معتبر آدمی نہیں ہے لہذا اسکا ذکر بھی نہ کیا کرو کیونکہ یہ جھوٹا اور قابل ذکر نہیں…….
(جرح و التعديل 600 /3….
٢.. خالد بن یزید بن عبد الله القسري…
امام یحییٰ بن معین اس کا پول یوں کھولتے ہیں کہ خالد ایک برا شخص تھا جو حضرت علی علیہ السلام کو بر سر منبر گالیاں دیا کرتا تھا
البدایہ و النہایہ،، تہزیب التہزیب
یہ کہانی اسی ناصبی کی واضع کردہ ہے
امام ذہبی نے بھی اس کو ناصبی کہا ہے.
خالد بن عبد الله القسري [الدمشقي] (1) البجلي الأمير. عن أبيه.
عن جده، صدوق لكنه ناصبي بغيض، ظلوم.
قال ابن معين: رجل سوء يقع في علي.
ميزان الاعتدال – الذهبي – ج ١ – الصفحة ٦٣٣
پس تحریر…
ایک ناصبی مولوی نے دوران تقریر کہا کہ کون سی شہادت کیسا شہید اعظم جو یزیدی لشکر کی منتیں کر رہا تھا کہ مجھے واپس جانے دو اگر حق وباطل کا معرکہ تھا تو امام شرطیں کیوں کر رہا تھا موقف کو قوی ثابت کرنے کے لیے مزکور روایت بیان کی..
الحمدالله روایت کی صحت سامنے آگئی کہ وہ ضیعف اور مردود ہے…
امام حسین علیہ السلام واپس آنے کے لئے نہیں گئے تھے کیونکہ وہ الله و رسول کی حکم کی تعمیل و تکمیل کے لیے شریف لے گئے..
مولانا مرحوم إسحاق حسین مدني
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجى عن أبيه انه سار مع علي رضي الله عنه وكان صاحب مطهرته فلما حاذى نينوى وهو منطلق إلى صفين فنادى علي اصبر أبا عبد الله اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وماذا قال دخلت علي النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم وعيناه تفيضان قلت يا نبي الله أغضبك أحد ما شأن عينيك تفيضان قال بل قام من عندي جبريل قبل فحدثني ان الحسين يقتل بشط الفرات قال فقال هل لك إلى أن أشمك من تربته قال قلت نعم فمد يده فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا…
عبدالله بن نجی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ امام على ؑ کے ساتھ جا رہے تھے،وہ ان کے وضو کا برتن اٹھایا کرتے تھے۔ جب وہ (نینوی) کے قریب پہنچے جبکہ امام علی ؑ صفین کی طرف جا رہے تھے۔
تو امام علی ؑ نے آواز دی :ابو عبدالله! رکو، ابو عبدالله(امام حسين ؑ کی کنیت) ! فرات کے کنارے رکو، میں نے کہا: کیا ہوا؟ امام علی ؑ نے کہا: ایک دن میں نبي ﷺ کے پاس گیا،آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، میں نے کہا: اے الله کے نبی ﷺ ! کیا آپ کو کسی نے غصہ دلایا ہے؟ آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو کیوں جاری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہحضرت جبریل ؑ ابھی ابھی میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ امام حسين ؑ فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں اس کی مٹی کی خوشبو سنگھاؤں؟ امام علی ؑ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں ، آپ ﷺ نے ہاتھ آگے بڑھایا، آپ نے مٹی کی ایک مٹھی مجھے دی، میں بھی اپنی آنکھوں پر قابونہ رکھ سکا اور آنسو نکل آئے……
مسند احمد – الإمام احمد بن حنبل – ج ١ – الصفحة ٨٥ حديث 12419
مجمع الزوائد – الهيثمي – ج ٩ – الصفحة ١٨٧
. رواه أحمد وأبو يعلى والبزار والطبراني ورجاله ثقات….
سلسلة احاديث صحيحة رقم حدیث 3467
قال الشیخ الالبانی والشیخ زبیر علیزئی فی فضائل الصحابة . إسناده صحیح
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عفان ثنا حماد هو ابن سلمة أنا عمار عن ابن عباس قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار وهو قائم أشعث أغير بيده قارورة فيها دم فقلت بابى أنت وأمي يا رسول الله ما هذا قال هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل التقطه منذ اليوم فأحصينا ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم…..
حضرت عبدالله ؓ بن عباس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ وسلم کھڑے تھے اور آپ ﷺ کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے الله کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ امام حسین ؑ اور اس کے اصحاب کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن امام حسین ؑ شہید ہوئے تھے۔
(سیدنا عمار تابعی کا بیان ہے کہ میں نے خواب والا دن یاد رکھا اور پھر بعد میں ہم نے تصدیق کرلی کہ اسی دن 61 ہجری 10 محرم الحرام کے دن حضرت امام حسین ؑ شہید کر دے گئے.) ….
مسند احمد – الإمام احمد بن حنبل – ج ١ – الصفحة ٢٨٣
رقم حدیث 12423
تهذيب التهذيب – ابن حجر العسقلاني – ج ٢ – الصفحة ٣٠٦
قال الشيخ شعیب الارنوط و الشیخ زبیر علیزئی فی فضائل الصحابة إسناده صحیح.