حضرت #امام_علی_رضا علیہ السلام(علي بن موسی بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب)
(1)
ترتیب:وکیلِ آل رسول مولانا #طارق_جمیل صاحب مدظلہم
=======================================
نام ونسب : آپ سلام الله علیہ کا نام علی تھا،اور امام موسی کاظم کے صاحبزادے تھے ۔ والد کی کنیت کی طرح آپ کی کنیت بھی ابوالحسن تھی ۔ اور آپ کی عمدہ صفات کے پیش نظر آپ کو بہت سارے القابات سے نوازا گیا ۔ جیسے : صابر ( آزمائشوں پر صبر کرنے والا ) ، زکی ( پا کیزہ اخلاق والا ) ، ولی ( لین دین میں دیانتدار ) ، ولی ( اطاعت گزار،نیک وصالح ) ، تاہم آپ کا مشہور لقب ” رضا ” تھا۔ ( اس مبارک لقب کی کئی وجوہات ہیں ( جوکہ مختلف اعتبار سے آپ کی فضیلت کو بھی ظاہر کرتی ہیں) ۔ (1) آپ اللہ ، اللہ کے رسول اور اس کی شریعت پراپنے ظاہر و باطن سے راضی ہو چکے تھے۔ (2) اللہ بھی آپ سے راضی تھا اور لوگ بھی خوش تھے .۔ (3) موافق و مخالف مجموعی طور پر سب لوگ آپ سے راضی وخوش تھے ۔ نسب کے لحاظ سے آپ قریشی ،هاشمی و علوی تھے ، آپ کی والدہ ماجده باندی تھیں ۔ ان کا نام سکینہ، کنیت ام البنین اور لقب شقراء تھا ۔ بعض نے سکینہ کے بجائے اروی نام بنایا ہے ۔
ولادت : آپ سلام اللہ عليه ، ۱۱/ ربیع الثانی ، بروز جمعرات ، ۱۵۳ ھ کومدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
حلیہ مبارک ولباس:آپکا تیز گندمی رنگ تھا ، اور قد مبارک درمیانہ تھا ۔ اس میں اون اور ریشم کی بنی ہوئی چادر اوڑھنے کا ذکر آتا ہے ، اور یہ بھی لکھا ہے کہ جب خلوت میں ہوتے تو فقیرانہ لباس پہنتے اور جب شاہی مجالس وغیرہ میں جاتے تو لباس فاخرہ زیب بدن فرماتے ۔ انگوٹھی بھی پہنتے تھے جس کانقش تھا : “حسبي اللہ” یعنی مجھے اللہ کافی ہے۔
اولاد: آپ کے پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی : محمد،حسین،جعفر، ابراہیم،حسن ، اور عائشہ۔
علمی مقام : جہاں آپ عالی نسب تھے وہاں آپ بلند پایہ عالم ، صاحب فضل و کمال اور وقت کے امام بھی تھے ۔ ابراہیم بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا ۔
آپ نوجوانی کے زمانہ میں ہی مسجد نبوی میں بطور مفتی مسائل بتایا کرتے تھے۔ افتاء کے ساتھ ساتھ آپ نے علم حدیث کی تحصیل اور اس کی آگے اشاعت کی خدمات بھی سرانجام دیں۔
بہرحال جن حضرات سے آپ نے احادیث روایت کیں ان میں آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کام اور عبید اللہ بن ارطاۃ کے نام سرفہرست ہیں،ان کے علاوہ آپ نے اپنے بچوں یعنی حضرت امام جعفر صادق کے جلیل القدر و اصحاب فضل و کمال صاحبزادوں : اسماعیل، عبدالله ، اسحاق اور علی رحمہم اللہ سے بھی روایات لیں۔ اور پھر آگے آپ کا فیض حدیث تو بہت عام ہوا کہ بہت سارے حضرات نے آپ سے احادیث نقل کیں، حتی کہ خلیفہ وقت مامون بن ہارون الرشید سمیت اس زمانہ کے ائمہ حدیث تک نے آپ سے حدیثی روایات لیں،جیسے آدم بن ابی ایاس ، نصر بن علی اور محمد بن رافع قشیری رحمہم اللہ وغیرہ۔
اور جس طرح آپ کو حدیث نبوی کی تحصیل و اشاعت میں رغبت تھی اسی طرح تفسر قرآن سے بھی آپ کو شغف تھا اور آیات کی بہت عمدہ اور عام فہم تفسیر بیان فرمایا کرتے تھے۔
محدثین کی طرف سے آپ کی تعظیم وعلمی قدر دانی کا ایک واقعہ: آپ نیشا پور تشریف لائے اور بھورے رنگ کے خچر پر سوار تھے۔ جب بازار میں داخل ہوئے تو دو تین حضرات حافظ ابو زرعہ رازی رح اور حافظ محمد بن اسلم طوسی رح ، بے شمار طلباء علم ، اصحاب حدیث اور حضرات فقہاء کے ساتھ و خدمت والا میں حاضر ہوئے۔ آپ اس وقت بند پالکی میں تشریف فرما تھے ۔ حافظ رازی اور حافظ طوسی دونوں نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ اے ائمہ اہل بیت کے جانشین ! حاضرین کو اپنے رخ انور کی زیارت کرادیجئیے اور اپنے آبائی سلسلہ سے کوئی حدیث بھی روایت فرمادیجئے۔ آپ نے سواری گرانے اور خدام کو پردہ اٹھانے کا حکم دیا۔ لوگوں کے جم غفیر نے آپ کے چہرہ انور کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کیں ، زلفیں کندھوں تک لٹک رہی تھیں، عقیدت ومحبت کی یہ کیفیت تھی کہ لوگوں کی آہیں تھمتی نہ تھیں ، نالہ وبکا رکتا نہ تھا ، کچھ لوگ مٹی میں لوٹ پوٹ ہورہے تھے اور کچھ بے خودی میں سواری کے پاؤں چوم رہے تھے۔
گویا بقول شاعر :
پڑے ہیں تیرے کوچے میں لاکھوں … مجروح ،مقتول،مذبوح،بسمل
آٹھویں پشت میں حسن نبوی کی جھلک کا یہ اثر تھا تصور کیجئیے خود حسن نبوی کا کیا حال ہوگا !!!
علماء ومشائخ پکار رہے تھے : لوگو ! خاموش ہو جاؤ ، اپنے لیے نفع بخش کلام سنو ، شور سے اذیت نہ پہنچاؤ۔ جب خاموشی چھا گئی تو حافظ رازی اور حافظ طوسی نے حدیث لکھوا دینے کی درخواست کی ۔ اس پر آپ نے یہ حدیث روایت فرمائی : حدثني ابي موسى الكاظم عن أبيه جعفر الصادق عن أبيه محمد الباقر عن أبيه زین العابدين عن أبيه الحسين عن أبيه علي بن أبي طالب رضي الله عنهم قال حدثني حبیبي وقرة عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : حدثني جبريل قال سمعت رب العزة يقول لا إله إلا الله حصني فمن قالها دخل حصني ومن دخل حصني أمن من عذابي . “ مجھے حدیث بیان کی میرے والد ماجد موسی کاظم ع نے اپنے والد ماجد جعفر صادق سے ، انہوں نے اپنے والد ماجد محمد باقر ع سے ، انہوں نے اپنے والد ماجد زین العابدین سے ، انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت حسین ع سے ، انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت علی بن ابي طالب ع سے ، انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے حبیب اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جبریل نے بیان کیا کہ میں نے اللہ رب العزت کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے ، جس نے یہ کلمہ پڑھا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے بچ گیا ۔ “
بس آپ نے یہ حدیث روایت کی ، پرده گرانے کا حکم دیا اور روانہ ہو گئے ۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد ان لوگوں کو شمار کیا گیا ، جو با قاعدہ قلم و دوات لائے تھے اور حدیث لکھ رہے تھےتو وہ بیس ہزار سے زائد تھے (یعنی باقی لوگ ان کے علاوہ تھے)۔
امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا سند حدیث اس قدر بابرکت ہے کہ اگر کسی پاگل پر پڑھ کراس کا دم کیا جائے تو اس کی دیوانگی جاتی رہے اور وہ شفایاب ہو جائے ۔ مامون کا آپ کو ولی عہد بنانا: خلیفہ وقت مامون الرشید بھی آپ سے بہت محبت کرتا تھا،حتی کہ اس نے اپنی صاحبزادی ام حبیب آپکے نکاح میں دی ، اپنے ملک میں رائج کرنسی درہم و دینار کے سکوں پر آپ کا نام کندہ کرایا اور سن ۲۰۱ھ میں تو اس نے آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا۔
ولی عہد بنانے کا وہ مضمون جسے مامون نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا درج ذیل ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
یہ وہ تحریر ہے جسے امیرالمومنین عبداللہ بن هارون الرشید (مامون) نے حضرت ابوالحسن علی بن موسی رضا کے لیے لکھا ہے جن کا تعلق خاندان نبوت سے ہے اور جو اس ( مامون ) کے بعد اس کی سلطنت کے ولی عہد ہوں گے۔ اما بعد! بے شک اللہ تعالی نے اسلام کو بحیثیت دین منتخب کیا ہے اور اس دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے اپنے بندوں میں سے رسولوں کو چنا ہے۔ ان رسولوں میں سے پہلا رسول بعد میں آنے والے رسول کی بشارت دیتا رہا ہے اور بعد میں آنے والا اپنے سے پہلے رسول کی تصدیق کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ورسالت ختم ہوگئی اور آپ کی بعثت اس وقت ہوئی جب کہ سلسلہ نبوت میں وقفہ آ چکا تھا،علم کے نشانات مٹ چکے تھے ، وحی وحجت الہی میں انقطاع آچکا تھا ، زمانہ قیامت قریب آ چکا تھا،چناں چہ الله تعالی نے آپ کو آخری نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ ان کو سابقہ رسولوں کی امتوں پر گواہ ہونے کا شرف بخشا۔
اور آپ پر اپنی وہ معزز و عالی شان کتاب نازل کی جس پر باطل نہ سامنے سے حملہ کرسکتا ہے اور نہ پیچھے سے ۔ یہ کتاب اس ذات کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو حکمت اور تعریف والی ہے۔ اس کتاب میں حلال وحرام اور پیش آمدہ مسائل و احکام کی تفصیل ہے ، اور اس میں الله تعالی نے وعدے بھی کیے ہیں اور وعیدیں بھی سنائی ہیں ، ڈرایا بھی ہے اور انجام سے باخبر بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ بہت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ یہ کتاب اس لیے اتاری ہے تا کہ اس کے ہر قسمی بندوں کیلیے مکمل حجت بن جائے اور پھر ہلاکت ونجات اسی حجت کی بنیاد پر ہو ، يقينا الله تعالی سمیع وعلیم ذات ہے ۔
آپ نے اللہ تعالی کی طرف سے اس کے پیغامات پہنچائے اور لوگوں کو راہ نجات کی طرف اسی حکمت اور خوبصورت نصیحت کے ساتھ دعوت دی جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا اور بحث و مباحثے کے وقت نہایت خوبصورت و بہترین انداز اختیار فرمایا پھر (وقت و موقع کی مناسبت سے ) جہادوسختی کے ذریے بھی آپ نے اپنا فریضہ انجام دیا۔
یہاں تک کہ جب الله تعالی نے آپ کی روح قبض فرما کر اپنے پاس بلا لیا اور آپ کیلیے اپنے پاس موجود انعامات پسند فرما لیے تو دین کے آئندہ قائم رہنے کا ذریعہ خلافت کو قرار دیا کہ نبوت ورسالت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی تھی لہذا آئندہ کوئی نبی اور سول تو نہیں آئے گا اس لیے اب خلفا کا سلسلہ چلےگا۔ چنانچہ انسانوں کے تمام معاملات اب خلافت کے ذریعہ انجام پائیں گے ، ایسی خلافت جو اللہ کی اطاعت پر قائم ہوں جس کے ذریعہ الله تعالی کے فرائض ، اس کی حدود اور اسلام کے احکامات و قوانین کا قیام عمل میں لایا جائے ، دشمنان اسلام سے جہاد کیاجائے،عوام الناس پر ایسا خلیفہ مقرر کیا جائے جو مسلمانوں کے دینی امور کی حفاظت اور نگہبانی کرے اور مسلمانوں پر لازم ہو کہ وہ اس کی اطاعت کریں ، نیز حقوق الله کو قائم کرنے ، شہروں میں عدل و انصاف کے اظهار،راستوں کے امن و امان ، لوگوں کی جانوں کے تحفظ اور آپس کے معاملات کی اصلاح وغیرہ کیلئے اس کا تعاون کریں ۔ جبکہ اس کے برخلاف صورت میں مسلمانوں کے معاملات کا بگاڑ ، دین کا مغلوب ہونا ، دشمن کا غالب آنا ، اسلامی اتحاد میں دراڑ پڑنا؛ الغرض دنیا و آخرت کا خسارہ لازم آئےگا ۔ لہذا جس شخص کو الله تعالی اپنی زمین میں خلافت کی ذمہ داری دے اور اپنی مخلوق پراسے معتمد بنائے تواس پر لازم ہے کہ وہ الله تعالی کیلیے اپنی جان کھپائے ، اللہ کی رضا والے کاموں کو ترک کر دے اور جس چز کا الله نے اسے حکم دے کر پابند بنایا ہے اس میں عدل و احسان پر عمل پیرا ہو ۔ جیسا کہ الله تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے : ( یا داؤد إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله إن الذين يضلون عن سبيل لهم عذاب شديد بما نسوا يوم الحساب } [ ص :26) اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو ، اور نفسانی خواہش کے یچھے نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا دے گی ۔ یقین رکھو کہ جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے کیونکہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا تھا ۔)
اور ہمیں حضرت عمر بن خطاب رض کی طرف سے یہ روایت پہونچی ہے کہ انہوں نے فرمایا : لو ضاعت سخلۃ بشاطئ الفرات لخفت أن أوخذ بها ( اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی مرگیا تو مجھے اس کی وجہ سے اپنے مواخذه کا ڈر ہے ۔اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کے بھی اس طرح کے کئی اقوال ہیں۔
بہرحال جب سے مجھے خلافت ملی ہے میں مسلسل اس معاملہ میں غور وفکر کرتا آیا ہوں کہ میں یہ معاملہ کس کے سپرد کروں اور کسے “ولی عہد” بناؤں۔
مجھے ابوالحسن علی بین موسی رضا کے علاوہ اس کے لیے کوئی شخص موزوں نہیں ملا اور یہ اس لیے کہ میں نے ان میں فضل وکمال،مہارت وفوقیت،علم نافع ، ظاہری و باطنی تقوی، دنیا سے بے رغبتی ، اہی دنیا سے عدم طمع ولالچ، آخرت کی طرف میلان اور اس کیلے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی صفات دیکھی ہیں-میرے نزدیک ان کی یہ صفات _جن پرلوگوں کی خبریں متواتر اور ان کی زبانیں بھی متفق ہیں_پایہء ثبوت کو پہونچ چکی ہیں ۔ لہذا میں نے ان کو ولی عہد بنانے کا یہ معاہدہ لکھ دیا ہے اور یہ فیصلہ میں نے چار چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے ، وہ چیزیں یہ ہیں : الله تعالی سے خیر کی امید واثق،مسلمانوں کی ہمدردی ، احکام دین کے قیام کا جذبہ، رب العالمین کے سامنےحاضری والے دن نجات کی آرزو ۔ “
عبد الله ( المامون ) بقلم خود
/9 رمضان المبارک ۳۰۱ ہجری
نوٹ : میرے اہل خانہ ، میرے خواص، میری اولاد اور اہل وعیال ، میرے فوجیوں اور غلاموں نے بیعت کرلی ہے،اللهم صل على سيدنا محمد و آله) والسلام
اس کے بعد امام علی رضا نے اس معاہدہ نامہ کی پشت پر یہ تحریر لکھی
بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمين ، وصلواته على سيدنا محمد و آله الطاهرين
میں علی بن موسی بن جعفر عرض کرتا ہوں کہ امیر المومنین _الله تعالی ان کی صحیح سمت میں مدد کرے اور اور راہ راست کی انہیں توفیق عطا فرمائے _ نے ہم اہل بیت کا وہ حق پہچانا جس سے دوسرے لوگ غافل تھے ، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا ، اورگھبرائے ہوئے لوگوں کو امن فراہم کیا بلکہ انہیں ایک نئی زندگی بخشی ۔ یہ سب کچھ انہوں نے رضائے الہی کی خاطر کیا ہے ، وہ کسی اور سے اس کے بدلے کے طلبگار نہیں ، اور جلد ہی الله تعالی اپنے شکر گزار بندوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے گا اور نیک لوگوں کے عمل کو بیکار نہیں جانے دے گا ۔ اس کے بعد عرض ہے کہ امیر المومنین نے مجھے اپنا ولی عہد بنایا ہے اور اپنے بعد سلطنت کی ذمہ داری مجھے سونپی ہے ۔ اللہ تعالی ان کو لمبی عمر عطا فرمائے ، اور میرے لیے ان کے خلاف کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اب (جبکہ انہوں نے ان معاملہ میرے سپرد کر ہی دیا ہے تو) میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ میں نہ کوئی ناحق خون بہاؤں گا ، نہ کسی کی شرمگاه اورنه ہی کسی کے مال کو اپنے لیے جائز بجھوں گا اور مقدور بھر کفایت شعاری کو اختیار کروں گا ، آخرت کو سامنے رکھ کر میں جس طرح پہلے زندگی گزارتق تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاؤں گا اور دنیا صرف بقدر ضرورت حاصل کروں گا ۔
میں سب کے سامنے اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میں کوئی نئی بات پیدا کردوں یا میں اپنی اس موجودہ حالت کو بدل لوں تو میں اس ذمہ داری سے ہٹادیے جانے کا مستحق اور سزا کیلئے خود کو پیش کرنے والا ہوں گا۔
میں اللہ کی ناراضی سے اس کی پناہ چاہتا ہوں ، اور اسی سے رجوع کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی اطاعت کی توفیق اور اپنی نافرمانی سے اجتناب نصیب فرمائے۔ والسلام
پھر یہ معاہدہ تمام ملکوں میں پڑھا گیا اور بیت اللہ شریف کے پاس اور ریاض الجنۃ میں بھی پڑھا گیا ۔ اس معاہدہ کے حق میں مامون کے خاص لوگوں سمیت اکابر علماء نے بھی گواہی دی ۔
علمائے سیرت نے لکھا ہے کہ جب مامون نے یہ کام کیا ( یعنی خلافت آل عباس سے نکال کر آل علی میں داخل کردی ، کیونکہ مامون عباسی تھا اور امام علی رضا علوی ” تھے ۔) تو بغداد میں بنو عباس کے لوگ بگڑ گئے اور انہوں نے بغاوت کر کے اپنی طرف سے مامون کو معزول کردیا اور اس کی جگہ ابراہیم بن مہدی “ ( یہ بنو ہاس میں سے تھا بلکہ مامون کا چچا تھا ) کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے تخت نشین کر لیا،یہ واقعه ۵ محرم الحرام بروز جمعرات ۲۰۲ھ کو پیش آیا ۔
مامون اس وقت “مرو” میں تھا اور بنو عباس کی طرح ان کے حامیوں کے دل بھی مامون سے پھر چکے تھے۔ صورت حال دیکھ کر امام علی رضا ع نے مامون الرشید نے کہا : ” امیر المومنین ! آپ کی خیر خواہی ہم پر لازم ہے ، اور اور دل میں کورٹ رکھنا کسی مسلمان کیلئے بھی جائز نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ عام لوگ آپ کے اس عمل کو پسند نہیں کرر ہے جو آپ نے میرے ساتھ کیا ہے ، اور جو خاص لوگ ہیں وہ فضل بن سہل کو پسند نہیں کرتے ۔ اس لیے میرا آپ کو دیانتدارانہ مشورہ ہے کہ ہم دونوں آپ سے دور ہو جائیں یہاں تک کہ خاص اور عام لوگ آپ کے ساتھ درست ہو جائیں اور آپ کا معاملہ صحیح ہوجائے۔ مگر مامون نے ان کو اپنے سے دور نہ کیا اور مرو سے بغداد کی طرف لشکرکشی کردی ۔ ابراہیم بن مہدی پہلے تو چھپ گیا پھر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر کے مامون کی خلافت کو تسلیم کر لیا ۔ مامون نے بھی اسے معاف کردیا اور قتل نہ کیا۔ اس طرح مامون کی حکومت پھر مستحکم ہوگئی۔
یہاں یہ واضح رہے کہ امام علی رضا رح مامون کی زندگی میں ہی انتقال کرگئے تھے،جیسا کہ عنقریب آ رہا ہے اوران کے خلیفہ ہونے کی نوبت نہیں آئی تھی ۔
عید کی نماز پڑھانے کیسے جانا : ایک عید کے روز خلیفہ مامون الرشید کی طبیت ذرا بوجھل اور مزاج بدلا ہوا تھا تو اس نے امام علی رضا سلام الله علیہ سے کہا کہ آج عید نماز آپ جا کر پڑھادیں ( یہ ان کو ولی عہد بنانے کے بعد کا واقعہ ہے) ۔ حضرت امام نے معذرت کی اور فرمایا کہ میرے اور آپ کے درمیان طے پانے والی شرائط تو آپ کو معلوم ہی ہیں، لہذا نماز پڑھانے کے سلسلہ میں میری معذرت قبول کیجئے۔
مامون نے کہا : در اصل بات یہ ہے کہ میں لوگوں میں آپ کا نام بلند کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس بات کی شہرت عام ہوجائے کہ آپ میرے ولی عہد بن چکے ہیں اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے ۔ مامون نے جب اس میں اصرار کیا تو آپ ع نے فرمایا : اگر آپ مجھے اس میں معذور رکھیں تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر آپ کا اصرار ہی ہے تو پھر میں اس طریقے کے مطابق نماز پڑھانے کیلے گھر سے نکلوں گا جس طریقہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ مامون نے کہا : افعل كيف ما أردت ” جیسے آپ چاہیں ویسے کر لیں ۔ ان کو یہ اختیار دینے کے بعد مامون نے ارکان دولت،لشکر کے آگے چلنے والے دستے اور فوجیوں کو حکم نامہ جاری کردیا کہ سب امام رضا کی خدمت میں پہنچیں اور ان کے ساتھ عید گاہ جائیں ، چناں چہ یہ سب لوگ اور مؤذنین ومکبرین حضرات آپ کے دروازہ پر پہونچ کر باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگے ۔ آپ باہر تشریف لائے اور اتباع سنت میں آپ نے غسل کر رکھا تها ،عمدہ لباس زیب تن فرمارکھا تھا ، عمامہ باندھ رکھا تھا اور اس کا شملہ کندھے پر چھوڑ رکھا تھا ، خوشبو لگا رکھی تھی اور ہاتھ میں عصا لیے پیدل عیدگاه روانہ ہوئے اور اپنے غلاموں اورمتعلقین سے کہا کہ تم بھی ایسے کرنا جیسے میں کروں ، چناں چہ سورج نکلنے تک وہ لوگ اونچی آواز کے ساتھ اللہ اکبر اور لا اله الا اللہ کہتے ہوئے آپ کے آگے چلتے رہے ۔ جب اس سرکاری دستے اور لشکر نے آپ کو اس طرح اتباع سنت میں پیدل عید گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو ان سے بھی نہ رہا گیا اور وہ بھی اپنے گھوڑوں اور سواریوں سے اتر کر آپ کے آگے آگے پیادہ پا چلنے گئے اور اپنی سواریاں اپنے غلاموں کے ہمراہ لوگوں کے پیچھے چھوڑ دیں ۔ جب حضرت امام تکبیر کہتے تو سب لوگ آپ کے ساتھ مل کر تکبیر کہتے ، اسی طرح جب آپ لا الہ الا الہ کہتے تو باقی لوگ بھی ساتھ مل کر کہتے اور یہ سب لوگ آپ کو عزت دینے کی خاطر خدام کی طرح آپ کے آگے آگے چل رہے تھے ۔ اس سے ایک عجیب روحانی سماں بندھ گیا حتی کہ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ آس پاس کے در و دیوار بھی ساتھ ساتھ تکبیر وتہلیل کہہ رہے ہیں اوران صداوں سے پورا مرو شهر گونج اٹھا ، ہر طرف آہ و بکا کا شور تھا۔ مامون کے پاس اس کی خبر پہنچی تو اس کے خاص آدمی فضل بن سہل نے اس پر مامون کومشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر امام رضا انہی کیفیات وحالات کے ساتھ عید گاہ پہنچ گئے تو کچھ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ میں پڑ سکتے ہیں اور ان جذباتی کیفیات سے ہم لوگوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں، لہذا موقع کی نزاکت کو بجھتے ہوئے آپ قاصد بھیج کر امام رضا کو واپس بلوالیں ۔ اس پر مامون نے آپ کو پیام کہلا بھیجا : اے ابوالحسن! ہم نے آپ کو نماز پڑھانے کا کہا تھا لیکن ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو کسی قسم کی کوئی مشقت پہونچے ، لہذا آپ واپس تشریف لے آئیے ، اور لوگوں کو وہی شخص نماز پڑھادے گا جو پہلے پڑھایا کرتا ہے ۔ حضرت امام رضا واپس تشریف لے آئے اور مامون نے جا کر لوگوں کو نماز پڑھادی ۔
وفات : جمعہ کی رات ، ۲۱ رمضان المبارک ، ۲۰۳ ھ کو طوس ( جس کا موجودہ نام مشہد ہے ) میں آپ کا انتقال ہوا ، جبکہ آپ کی عمر ساڑھے انچاس سال تھی ۔ چناں چہ آپ کی قبر وہیں طوس میں ہے جو کہ خراسان میں واقع ہے۔ مامون الرشید کی زندگی میں ہی آپ کا انتقال ہوا ، ماموں کو آپ کے انتقال کا بہت زیادہ دکھ اور رنج ہوا حتی کہ کئی روز تک اس پرغم کی یہ کیفیت چھائی رہی؛ نہ کھانے میں اس کا جی لگتا تھا ، نہ پینے میں اور دیگر لذات تک ان دنوں اس سے چھوٹ گئی تھیں۔ نماز جنازہ اس نے خود پڑھائی تھی اور اپنے والد ہارون الرشید کے پہلو میں آپ کو دفن کیا تھا۔
کئی مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ شہید فوت ہوئے۔ اور شہادت کا یہ قصہ درج کیا ہے کہ آپ غسل خانہ میں گئے ، وہاں سے باہر نکلے تو آپ کے سامنے ایک تھال میں زہریلے انگور پیش کیے گئے جن میں زہریلی سوئیوں سے اس طرح زہر داخل کیا گیا تھا کہ اس کا اثر ظاہرنہیں ہوتا تھا ۔ ان کے تناول فرمانے سے آپ انتقال کر گئے۔
فضائل ومناقب:
الله تعالی نے آپ سلام اللہ علیہ کو بہت ساری عظمتوں اور فضیلتوں سے نوازا تھا ، اور نہایت بلند شان واعلی مقام عطا فرمایاتھا ۔ آپ خاندان اہل بیت کی جلیل القدر اور صاحب فضل وکمال ہستی ، اور محبوب زمان شخصیت تھے ۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کی بڑی اہمیت ووقعت تھی ۔ آپ اپنے زمانہ میں بنوہاشم کے سردار اور بزرگ ترین شخصیت کے تعارف سے جانے جاتے تھے ۔ بلکہ آپ کے زمانہ میں آل ابو طالب میں سے کوئی شخص بھی مقام ومرتبہ میں آپ کے ہم پلہ نہ تھا ۔ علم و دینداری اور صفت قیادت میں آپ کی نرالی شان تھی ۔ اورامیر المومنین بننے کی ساری صلاحیتیں آپ میں موجود تھیں ۔ مامون الرشید نے جب آپ کو ولی عہد بنایا تو مامون کے اپنے ہی بعض افراد نے اس پر اعتراض کیا ، اس پر مامون نے ان کے سامنے آپ کی عظمت وفضیلت بیان کرتے ہوئے کہا : اس وقت روئے زمین پر ان سے زیادہ فضیلت والا ، زیادہ عفت والا،زیادہ تقوی والا ، زیادہ زہد(دنیا سے بے رغبتی والا) اور عوام و خواص میں ان سے زیادہ محبوب کوئی شخص نہیں ہے۔
آپ کو یہ فضل واعزاز بھی حاصل ہے کہ تصوف کے جلیل القدر اور مرجع الخلائق ہستی حضرت معروف کرخی رح ( جر سری سقطی رح کے بھی استاد تھے ) نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ علماء ومشائخ کے علاو شعراء نے بھی آپ کی ذات کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ ابونواس دور عباسی کا ایک مشہور شاعر گزرا ہے ، اس کے ایک دوست نے اسے کہا : میں نے تجھ سے زیادہ بے دھڑک شخص تو نہیں دیکھا ، تو نے شراب جیسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا کہ اس ناپاک شے کی تعریف میں بھی کچھ نہ کچھ اشعار کہ دیے ہیں، مگر تو نے اپنے زمانے کی امام علی رضا جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں ایک ایک لفظ بھی نہیں کہا ؟؟ ابونواس نے کہا : واللہ میں نے صرف ان کی عظمت کے پیش نظر ان کے متعلق کوئی شعرنہیں کہا کہ میرے جیسا آدمی اس قدر بڑی ہستی کی کیا تعریف کرسکتا ہے ۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ان کی شان میں درج ذیل چند اشعار کہے :
‘ قيل لي : أنت واحد الناس ..
في كل كلام من المقال بديه
لك في جوهر الكلام بديع
يثمر الدر في يدي مجتنيه
فعلام ترکت مدح ابن موسی
بالخصال التي تجمعن فيه ؟
قلت : لا أهتدي لمدح امام ..
كان جبريل خادما لأبيه
مجھے کہا گیا کہ تو ہر بات کھل کر اور واضح بیان کرنے میں سب لوگوں سے منفرد ہے ۔
کسی کلام کے جوہر سامنے لانے میں تیرے پاس منفرد وانوکھے طریقے ہیں جو ان جواہر کے چننے والے کے ہاتھوں میں مزید موتی بکھیر دیتے ہیں۔
تو پھر تو نے ابن موسی ( یعنی امام رضا ) کی ان عمدہ صفات کے ذریعہ تعریف کس وجہ سے نہیں کی جو ان کی ذات میں ہیں ؟
میں نے کہا : مجھے دراصل ایسے امام کی تعریف کرنے کا طریقہ ہی نہیں آتا ، جس کے والد ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کے خادم جبریل تھے۔
ذوق عبادت: آپکو عبادت سے خاص شغف تھا ، آپ کی زندگی ہی گویا عبادت کے لیے وقف تھی ۔ اپنے زمانہ کے آپ سب سے زیادہ متقی اور نہایت اطاعت گزار انسان تھے ۔ وضو اور نماز تو آپ کی سیرت طیبہ کا جزو بن کے رہ گیا تھا ، رات بھر وضو کرتے اور نماز پڑھتے رہتے یہاں تک صبح ہو جاتی یعنی شب بیداری گویا آپ کی پہچان ہوگئی تھی ، چناں چہ آپ ع
کے خاندان میں سے ایک فردکا کہنا ہے کہ میں جب بھی آپ کو دیکھتا تو یہ آیات میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتیں : { کانوا قليلا من الليل مايھجعون ( ۱۷ ) وبالأسحار هم يستغفرون [ الذاریات : ۱۷ -۱۸] رات کو کم سوتے تھے ، اور سحری یعنی تہجد کے وقت استغفار کرتے تھے ۔ جس طرح آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہتے اسی طرح دن کو روزے بھی کثرت سے رکھا کرتے تھے ۔ ہر مہینے کے تین روزے تو آپ سے کبھی نہیں چھوٹتے تھے ۔
فائده : سنت سے بھی یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ہر ماہ ہمیشہ تین روزے رکھتے تھے ، اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کا ثواب ایسے ہے جیسے ساری زندگی روزے رکھے ہوں۔بہتر یہ ہے کہ تین روزے ہر اسلامی مہینے کی تیره ، چودہ اور پندرہ تاریخ والے دنوں میں رکھے جائیں، اور ان دنوں کو ایام بیض“ کہا جاتا ہے ۔ آپ کا یومیہ معمول عبادت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ فجرکی نماز ادا کر کے وہیں مصلے پر بیٹھ رہتے اور اشراق تک مختلف اذکار و اوراد میں مشغول رہےے ، پھر چاشت تک نوافل میں مصروف رہتے ۔ چاشت سے فارغ ہوکر لوگوں میں تشریف لاتے،انہیں حدیثیں بیان کرتے اور وعظ و نصیحت فرماتے ۔ جب سورج ڈھل جاتا اور ظہر کا وقت داخل ہو جاتا تو وضو تازہ کر کے پھر مسجد میں چلے جاتے ۔ بہر کیف آپ کے اکثر اوقات عبادت میں ہی گزرتے تھے ۔
رجاء بن ابی ضحاک کہتے ہیں کہ مامون الرشید نے انہیں بھیجا تھا کہ وہ امام علی رضا کو خراسان لے آئیں۔ رجاء مدینہ منورہ سے مرو تک آپ کے ساتھ رہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ : واللہ میں نے اپنی زندگی میں امام رضاسے زیادہ متقی شخص نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے زیادہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرنے والا اور الله کا خوف رکھنے والا کوئی شخص دیکھا ہے ۔ تواضع : کثرت عبادت وغیرہ دیگر اعلی صفات کے باوجود آپ تواضع و عاجزی کے بھی اعلی مقام پر فائز تھے ۔ لوگوں میں منفرد اورممتاز بن کر رہنا آپ سے کوسوں دور تھا ۔ آپ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے جیسا کہ ابھی آئے گا ، اور آپ کی نشست گاہ بھی سادی اور متواضعانہ تھی چناں چہ گرمیوں میں کھجور کے پتوں کی چٹائئی اور سردیوں میں کبھی ٹاٹ اور کبھی بکریوں کی کھال پر بیٹھتے ۔
ابراہیم بن عباس نے آپ کی توضع وحسن اخلاق کا نقشہ یوں کھینچا ہے ” میں نے امام علی رضاسے افضل شخص نہیں دیکھا ۔ انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ، نہ کسی کی بات کاٹی، نہ کسی شخص کی حاجت ٹھکرائی ، نہ اپنے ہمنشین کے آگے ٹانگیں پھیلائیں اور نہ ہی اس سے پہلے خود تکیہ لگایا اور نہ کبھی اپنے غلاموں کو برا بھلا کہا،وہ اپنے غلاموں کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھا لیتے۔
بلخ کے ایک شخص کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خراسان جاتے ہوئے میں امام رضا کا شریک سفر تھا ۔ راستے میں ایک مقام پر انہوں نے دسترخوان لگایا اور اپنے غلاموں کوبھی دسترخوان پر ساتھ ہی بٹھالیا ۔ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ، اگر آپ ان کا دسترخوان الگ کردیتے!! آپ کو یہ بات ناگوار گزری اور فرمایا : إن الرب تبارک وتعالی واحد ، والأم واحد والجزاء بالأعمال ’ ’ رب ایک ہے اور ماں ( یعنی حضرت حواء ) بھی ایک ہے ، اور جزا وسزا کا دارو مدار اعمال پر ہوگا۔” ایک دن آپ حمام کے کونے میں بیٹھے غسل فرمارہے تھے کہ ایک فوجی بھی نہانے کیلیے وہیں آ گیا اور آپ کو اس جگہ سے ہٹا کر خود نہانا شروع کردیا ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کیا کہ آپ سے کہا : اے کالے! میرے سر پر پانی ڈال! آپ نے اس کے سر پر پانی ڈالنا شروع کردیا ۔ اتنے میں ایک اورشخص آیاجو آپ کو پہچانتا تھا ،یہ حیرتناک منظر دیکھ کر اس نے چیخ ماری اور وہیں سے اونچی آواز میں کہا : اے فوجی! تو ہلاک و برباد ہوگیا، کیا تو رسول اللہ علیہ کے صاحبزادے اور امام مسلمین سے خدمت لیتا ہے ؟ یہ سنتے ہی فوجی آپ کے قدموں میں گر گیا اور پاوں چومنے لگا اور عرض کیا : حضرت جب میں نے کہا تھا تو آپ نے انکار کیوں نہیں فرما دیا تھا ۔ آپ نے فرمایا : إنها لمثوبة وما أردت أن أعصیك فيما أثاب عليه ” یہ تو ثواب کا کام ہے ، میں نے نہیں چاہا کہ جس کام پر مجھے ثواب ملے اس کا میں انکار کروں ” ، پھر فرمایا
ليس لي ذنب ولا ذنب لمن
قال لي يا عبد أو يا أسود
إنما الذنب لمن ألبسني …
ظلمه وھو الذي لا يحمد
اس میں نہ تو میں نے کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی اس شخص نے جس نے مجھے کہا ہے اے غلام ! اے کالے! مجرم تو وہ شخص ہے جس کے ظلم نے مجھے گھیر رکھا ہے ، درحقیقت وہی شخص مذمت کے لائق ہے۔
دنیا سے بے رغبتی : زہد و قناعت تو اس خاندان کی فطرت ثانیہ تھی، اس مبارک ومطہر گھرانے کا ہرفرد ہی دنیا کی حقیقت سے کماحقہ واقف تھا اور اس کی رعنائیوں ورنگینیوں سے بے زار اور آخرت کا مشتاق تھا ۔ حضرت امام علی رضا کے افعال و اقوال میں بھی صفت زہد نمایاں تھی ، چناں چہ انہی کے چند اشعار جو زہد کا درس دیتے ہیں درج ذیل ہیں:
كلنا یأمل مدا في الأجل …
والمنایا ھن آفات الأمل
لا تغزنک أباطيل المنی ..
. والزم القصد ودر عنک العلل
إنما الدنيا کظل زائل …
خل فيه راكب ثم ارتحل۔
ہم میں سے ہر ایک لمبی عمر کا خواہشمند ہے ، حالانکہ موت ان خواہشات و امیدوں پر اچانک آفت بن کر نازل ہوتی ہے۔
تجھے دنیا کی جھوٹی آرزوئیں دھوکے میں نہ ڈالیں،تو راہ ہدایت اختیار کر اور اپنے عیبوں سے اب باز آجا۔
دنیا کی یہ زندگی تو کچھ بھی نہیں ، بس اس ڈھلے ہوئے سائے کی طرح ہے جس کے نیچے مسافر تھوڑی دیر بیٹھ کر چل دیتا ہے ۔
آپ کی عملی حیات میں بھی زہد کے آثار بالکل واضح تھے ، چناں چہ آپ کا کھجور کی چٹائی اور بکری کی کھال کو اپنی نشت گاہ بنانا جہاں آپ کی تواضع کاپتہ دیتا ہے وہیں دنیاوی سازو سامان سے بے رغبتی کی خبر بھی دیتا ہے
سخاوت : آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ کے نام پرکھل کر خرچ کرتے ہیں اورفقراء وحاجتمندوں کی جا بات پوری کرنے میں اپنا مال لٹاتے ہیں ۔ حتی کہ ایک مرتبہ خراسان میں قیام کے دوران آپ نے اپنا سارا مال ہی خرچ کردیا تھا، آپ بہت زیادہ صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے اور اکثر اندھیری راتوں میں دیتے تا کہ اس غریب شخص کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور آپ کی نیکی بھی مخفی رہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ آپ نے اپنی حیات طیبہ میں ایک ہزار غلام آزاد کیے۔
آپ کے پاس کسی برتن میں جب کھانا لایا جاتا تو اس میں سے عمدہ اچھی چیز اٹھا کر غریب لوگوں کو بجھوادیتے اور یہ ایت تلاوت فرماتے
قلااقتحكم العقبة ( ۱۱ ) وما أدراک ما العقبة ( ۱۲ ) فک رقبة ( ۱۳ ) أو إطعام في يوم ذي مسغبة ( ۱۳ ) يتيما ذامقربة ( 15 ) أو مسكينا ذا متربة ( ١٤) ( البلد :١٦-١١) ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے اعمال میں سے یہ ہے کہ آدمی غلام آزاد کرے یاکسی غریب و مسکین بھوکے شخص کو کھاناکھلادے۔
پھر فرماتے کہ اللہ کو پتہ تھا کہ ہر شخص غلام آزاد نہیں کر سکے گا اس لیے اس کے واسطے بھی جنت کا راست بتادیا۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے آکر آپ کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپ اور آپ کے آباء و اجداد کے محبین میں سے ہوں اور حج سے واپس آرہا ہوں۔ میرا زاد راہ ختم ہوگیا ہے ۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ گھر سکوں ۔ لہذا اگر آپ میرے گھر تک پہنچنے کا انتظام کردیں تو میں گھر پہونچ کر اتنی ہی رقم آپ کی طرف سے صدقہ کردوں ( کیونکہ اس زمانے میں اتنی دور دراز سے رقم واپس پہنچانا کافی مشکل کام تھا ) ۔ آپ نے اس سے فرمایا : تشریف رکھے ۔ آپ اس وقت لوگوں سے بات کر رہے تھے ، اپنی بات مکمل کی اور گھر تشریف لے گئے ۔ پھر باہر آئے اور اس شخص سے کہا : خذ هذه المائتي دينار ، واستعن بها في مؤنتک ونفقتک ، ولا تتصدق بها عني ” یہ دو سو دینار مساوی تقریبا ساڑھے 37 لاکھ روپے ) لے لو اور انہیں اپنے زادراہ وغیرہ دیگر اخراجات میں استعمال کرنا اور پھر میری طرف سے ان کوصدقہ بھی مت کرنا ۔ وہ شخص خوشی خوشی لے کر چلا گیا ۔
محمد بن یحیی فارسی کہتے ہیں کہ ابو نواس نے امام علی رضا کو دیکھا کہ وہ اپنے ایک عمدہ خچر پر سوار خلیفہ مامون الرشید کے پاس سے ہو کر آرہے تھے ۔ یہ ان کے قریب گئے ، انہیں سلام کیا اور کہا : اے رسول اللہ کے صاحبزادے : میں نے آپ حضرات کی شان اقدس میں کچھ اشعار کہے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ آپ وہ مجھ سے سنیں ۔ آپ نے فرمایا : بولو ۔ ابونواس نے کہنا شروع کیا :
مطهرون نقيات ثیابهم
تجري الصلاة عليهم كلما ذكروا
من لم يكن علويا حين تنسبه
فماله في قديم الدهر مفتخر
أولئك القوم اهل البيت عندهم
علم الكتاب وما جاءت به السور
وہ لوگ پاکیزہ ہستیاں ہیں اور ان کے لباس بھی پاک وصاف ہیں ، جب کبھی ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ( انبیاء کی طرح ) ان پر درود بھیجا جاتا ہے ۔ اے مخاطب ! جو شخص نسب میں علوی نہ ہو تو اس کو کسی زمانہ میں کوئی فخر حاصل نہیں رہا ۔یہ لوگ( جن کا تذکرہ ہورہا ہے ) اہل بیت ہیں ۔ یہ حضرات کتاب اللہ کے عالم ہیں اور مضامین قرآن پر بھی خوب دسترس رکھتے ہیں ۔
یہ سن کر أپ نے ابونواس سے کہا : واقعی تم سے پہلےیہ اشعار کسی نے نہیں کہے ۔ پھر آپ نے اپنے غلام سے پوچھا : ہمارے خرچہ کے علاوہ اضافی کتنے پیسے تمہارے پاس رکھے ہیں ؟ کہا : تین سو دینار ( مساوی تقریبا ۵۶ لاکھ ۲۵ ہزار روپے ) ۔ فرمایا یہ اس کو دے دو ۔ پھر جب آپ گھر پہونچے تو غلام سے فرمایا : شاید وہ پیسے اس کو کم معلوم ہوۓ ہوں ، جاؤ یہ خچر بھی اسے دے آؤ۔ (جاری)
