امیرِ شام معاویہ بن ابو سفیان نے مسلم بحریہ بنائی

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ امیرِ شام معاویہ بن ابو سفیان نے مسلم بحریہ بنائی، یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس حوالے سے کچھ باتیں ہمیشہ ذہن میں رکھئیے۔

1. شام اور مصر ہی خلافتِ اسلامیہ کے وہ صوبے تھے جن کے ساحلوں سے بازنطینی رومی یا دیگر یورپی قوتیں اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوسکتی تھیں، لہذا بحریہ ان ہی صوبوں کے گورنرز نے بنانی تھیں۔ معاویہ ہوتے یا کوئی اور، فتوحات اور طاعون کے بعد جب استحکام پیدا ہوا اور خزانے بھرنے لگے تو بحریہ بہرحال بننی ہی تھی کیونکہ اس کے بغیر گزارا ہی نہیں تھا۔

2. اسلامی خلافت اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور قوت تھی۔ سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ان کی ٹیم نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ دو سپر پاورز کو مغلوب اور ان کے علاقوں کو فتح کیا تھا جس سے بے پناہ وسائل مسلمانوں کے پاس آگئے تھے۔ ان وسائل سے با آسانی اطالیہ، فرانس اور ہند جیسے علاقے بھی فتح کی جاسکتے تھے جہاں بدرجہا کمزور مقامی حکومتیں تھیں۔ لیکن سیدّنا فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی بدعنوانیوں کے سبب ایسا نہیں ہوسکا۔

الغرض بات تو تب تھی جب بحریہ بنا کر مسیحیت کے مرکز، قدیمی رومن ایمپائر کے دارالسطنت رومتہ الکبریٰ پر اسلام کا پرچم لہرا دیتے یا یونان کو قبضے میں لے لیتے، اگرچہ یہ بات بھی ان فتوحات اور کامیابیوں سے کہیں کم تھی جو صحابہ کرام نے رسول اللہ اور شیخین کریمین رض کے ادوار میں محدود وسائل کے ساتھ کر دکھائی تھی۔ لیکن اتنی بڑی حکومت کے اتنے خوشحال صوبے کے گورنر نے بحریہ بنا کر کیا فتح کیا؟ قبرص کا ننھا سا جزیرہ اور یزید پلید کی ولیعہدی۔ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا!

اسلام کی پہلی بحری جنگ معرکہ ذات الصواری ہے جس میں مسلمانوں کے سالار ابو الاعور تھے۔ یہ موجودہ ترکی کے ساحلوں پر لیقیا کے مقام پر ہوئی۔

‎سیدّہ ام حرام رض والی حدیث میں بخشش واجب ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ صرف مسلمانوں کی شان و شوکت پر خوشی کا اظہار ہے۔

‎پہلے حدیث جو آپ نے پیش کی اس میں رحمت و مغفرت واجب ہونے کا بیان ہے لیکن وہ سمندر میں جہاد کا بیان ہے۔ قبرص کی جنگ میں سمندر میں جہاد نہیں ہوا۔ سمندری سفر کے ذریعے قبرص تک پہنچا گیا۔ دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ جنگ ذات، الصواری ہی تاریخ کی کتب میں وہ پہلی جنگ بیان ہوئی ہے جہاں سمندر کے اندر مسلمانوں کے بحری جہاز کافروں کے بحری جہازوں سے ٹکرائے

احمد الیاس