انتخابی خلافت ۔ ۔ ۔ حضرت عثمانؓ و علیؓ

” حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے کہا ” تمہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ھے ۔ یہ تو اہلِ شُوریٰ اور اہلِ بدر کے کرنے کا کام ھے ۔ جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے وہی خلیفہ بنے گا ۔ پس ھم جمع ہونگے اور اِس معاملے پر غور کریں گے ۔ ” ( ابن قُتَیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ )

طَبری کی روایت میں حضرت علیؓ کے الفاظ یہ ہیں ” میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی ۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہی ہونی چاہیے ۔ ” ( الطبری )

حضرت علیؓ کی وفات کے وقت لوگوں نے پوچھا کہ ھم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں ؟ آپؓ نے جواب دیا ” میں نہ تم کو اِس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ، تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو ۔ ” ( الطبری ، المسعودی )

ایک شخص نے عین اُس وقت جب کہ آپ اپنے صاحبزادوں کو آخری وصیّت کر رہے تھے ، عرض کیا کہ ” امیرالمومنین ، آپ اپنا ولی عہد کیوں نہیں مقرر کر دیتے ؟ جواب میں فرمایا ” میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا ۔ ” ( ابن کثیر ، المسعودی )

اِن واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ھے کہ خلافت کے متعلق خلفائے راشدین اور اصحابِ رسولﷺ کا متفق علیہ تصوّر یہ تھا کہ یہ ایک انتخابی منصب ھے جسے مسلمانوں کے باہمی مشورے اور اُن کی آزادانہ رضامندی سے ہی قائم ہونا چاہیے ۔ مورُوثی یا طاقت سے برسرِ اقتدار آنے والی اَمارت ، اُن کی رائے میں خلافت نہیں بلکہ بادشاہی تھی ۔ صحابہ کرامؓ خلافت اور بادشاہی کے فرق کا جو صاف اور واضح تصوّر رکھتے تھے اُسے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں ” اَمارت ( یعنی خلافت ) وہ ھے جسے قائم کرنے میں مشورہ کیا گیا ہو ۔ اور بادشاہی وہ ھے جس پر تلوار کے زور سے غلبہ حاصل کیا گیا ہو ۔ ” ( طبقات ابنِ سعد )

( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ خلافت و ملوکیت )