تبوک کے لیے نفیر عام تھا. قیصر ڈیڑھ لاکھ کا لشکر لے کر سب کچھ تہس نہس کرنے کے لیے روانہ ہو چکا تھا. مدینہ منورہ میں عام اعلان ہو گیا کہ بیمار، معذور، بچے، بوڑھے، خواتین اور بے سرو وسامان افراد کے سوا ہر کوئی جہاد کے لیے نکلے. یعنی عذر شرعی کے سوا جو بھی پیچھے رہ گیا، منافق سمجھا جائے گا.نوے کے قریب مدنی شہری حیلوں بہانوں سے پیچھے رہ گئے. آپ کے ساتھ تیس ہزار لوگ تھےلیکن ان میں بھی کچھ منافقین تھے جنہوں نے ایک موقع پر آپ کو ایک پہاڑی سے گرانے کی کوشش کی تھی . جگہ جگہ اطلاع ملتی کہ فلاں بھی نہیں آیا، کچھ لوگ جن کے پاس تیز رفتار سواریاں تھیں،بعد میں چل کر ساتھ شامل ہو گئے.اڑھائی سو میل کا سفر تھا،جسے پیدل طے کرنا ممکن ہی نہیں تھا. ابوذر نظر نہیں آئے. حیرت تھی. وہ جو سراپا عشق تھا، بہت پہلے اپنا سب کچھ تج کر آ گیا تھا، کبھی پیچھے نہیں رہا. پریشانی تو ہوئی ہوگی لیکن ظاہر نہیں فرمائی. ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ ایک اکیلا بندہ لق و دق صحرا میں سامان سفر کا گٹھڑ سر پر اٹھائے، صحرائی بگولوں سے نبرد آزما دور سے چلا آ رہا ہے،
نہ معلوم کون ہے؟
بتایا گیا، تو فرمایا
ابوذر ہو جا
قریب پہنچا،
تو ابوذر تھا
کیا ہوا؟
اونٹ نے ہلنے اور چلنے سے انکار کر دیا، بہت کوشش کی، لشکر روانہ ہو گیا
جب کوئی چارہ کار نہ رہا تو سامان سر پر رکھا اور پیدل روانہ ہو گیا.
فرمایا،
ابوذر، اکیلے جیو گے، اکیلے مرو گے، قیامت کو اکیلے اٹھو گے.
وقت گزرتا رہا، شام میں امیر معاویہ گورنر تھے اور شاہانہ جاہ و جلال سے رہتے تھے.
درویش خدا مست انہیں مال و زر جمع کرنے کی مذمت کی آیات سناتے اور آخرت کی وعید بھی.
تنگ آ کر انہوں نے امیرالمومنین عثمان بن عفان کو لکھا کہ انہیں مدینہ بلا لیں
مدینہ پہنچ کر بھی انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا
آخر حضرت عثمان نے انہیں شہر بدر کر کے ربذہ بھیج دیا
صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ رخصت کرنے شہر کے حدود تک آئے
بڑھاپے میں دونوں میاں بیوی ایک ویران علاقے میں جا بسے.
آخر وہیں ابوذر کا آخری وقت آگیا. بیوی نے کہا،
میں اکیلی عورت ذات، بڑھیا. آپ فوت ہونے جا رہے ہیں،
کفن کہاں سے دوں گی، غسل کیسے دیا جائے گا، جنازہ کون پڑھے گا، دفن کا کیا انتظام ہو گا.
فرمایا، پریشان نہیں ہونا. مر جاؤں تو جنازہ یہیں سر راہ رکھا رہنے دینا، اس دھرتی پر چلنے والے سب سے مقدس لوگوں کی ایک جماعت آئے گی، مجھے غسل دے کر، کفن پہنا کر دفن کر دے گی
میرے حبیب نے مجھے یہ سب بتا دیا تھا
وفات ہو گئی، تھوڑی دیر میں ایک قافلہ آگیا، خاتون نے ان سے درخواست کی. پوچھا
کون صاحب ہیں؟
ابوذر
سالار قافلہ کی چیخیں نکل گئیں،
عبداللہ بن مسعود تھے، ایک نحیف سی شخصیت جنہیں لوگ اہل بیت میں سے سمجھتے تھے
قرآن کے سب سے بڑے عالم، ایک ایک آیت خود لسان نبوت سے سن کر اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے یاد کی تھی. غسل دیا جنازہ پڑھایا اور اسی صحرا میں قیامت کے روز اکیلا اٹھنے کے لئے دفن کر دیا.
خود بہت سال پہلے سیدہ عائشہ کے حجرے میں سو جانے کے باوجود اپنے ابوذر کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا.
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
طفیل ہاشمی