اگناز گولڈ زیہر کی تالیف جس کا اردو ترجمہ جناب ریحان عمر نے کیا
عنوان ہے اسلامی عقائد اور قانون کا تاریخی ارتقاء
اصل کتاب جرمن زبان میں ہے. انگریزی ترجمہ دستیاب نہیں ہو سکا. عربی میں اس کے بعض حصے مطالعہ سے گزرے.
خواہش تھی کہ پوری کتاب بالاستیعاب پڑھی جائے. اشتہار دیکھتے ہی آرڈر کیا تو آگے سے کتاب محل کے فہد صاحب کا فون آگیا کہ میں ابھی آپ کو اعزازی نسخہ بھیج رہا ہوں.
لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے محققین نے اسی طرح گولڈ زیہر سے انصاف نہیں کیا جس طرح گولڈ زیہر نے اسلامی ادبیات سے انصاف نہیں کیا. مثلاً گولڈ زیہر نے جس طرح جزوی شواہد کی روشنی میں یہ عمومی رائے قائم کی کہ ذخیرہ احادیث دراصل دوسری تیسری صدی کا اسلامی کلچر ہے یا فتاوی ہیں ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر حمید اللہ اور مصطفی اعظمی نے بھی جزوی شواہد سے ذخیرہ احادیث کے دستاویزی تحفظ پر استدلال کیا. شاید دونوں باتیں جزوی طور پر درست ہیں. ان سے کلی استدلال محل نظر ہی نہیں بلکہ قابل تسلیم بھی نہیں ہے
تاہم
میرے مطالعے میں گولڈ زیہر کے کچھ دیگر ایسے بیانات آئے ہیں جو مذکورہ مباحث کی بہ نسبت زیادہ اہم ہیں لیکن مسلم محققین انہیں اپنی تحقیقات کا موضوع نہیں بناتے.
اگرچہ پاکستان ایسے فرقہ وارانہ تشدد کے ملک میں اس نوع کی علمی، تحقیقی گفتگو کرنا خطرے سے خالی نہیں تاہم میرا ارادہ ہے کہ ان مباحث کو بتدریج سنجیدہ تحقیقات کے لئے تحقیق کے سنجیدہ طلبہ کے سامنے پیش کیا جائے.
طفیل ہاشمی