امام مسلم رحمه الله فرماتے ہیں :
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: ” استعمل على المدينة رجل من آل مروان، قال: فدعا سهل بن سعد فامره ان يشتم عليا، قال: فابى سهل، فقال له: اما إذ ابيت، فقل: لعن الله ابا التراب، فقال سهل: ما كان لعلي اسم احب إليه من ابي التراب، وإن كان ليفرح إذا دعي بها، فقال له: اخبرنا عن قصته لم سمي ابا تراب، قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ فقالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني، فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لإنسان انظر اين هو؟ فجاء، فقال: يا رسول الله؟ هو في المسجد راقد، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، فاصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: قم ابا التراب، قم ابا التراب “.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص مروان کی اولاد میں سے حاکم ہوا۔ اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا۔ سہل نے انکار کیا۔ وہ شخص بولا : اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ سہل نے کہا : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہ تھا اور وہ خوش ہوتے تھے اس نام کے ساتھ پکارنے سے۔ وہ شخص بولا : اس کا قصہ بیان کرو ان کا نام ابو تراب کیوں ہو ا؟ سہل نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ”تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟“ وہ بولیں : مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں وہ غصے ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ”دیکھو علی کہاں ہیں؟“ وہ آیا اور بولا : یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے: ”اٹھ اے ابوتراب، اٹھ اے ابوتراب۔“
( حدیث نمبر: 6229 – صحيح مسلم – كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ – باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ) .
امام مسلم کی یہ حدیث اس باب میں حجت ہے کہ کیونکہ سھل بن سعد کے اساتذہ میں مروان بن حکم بھی شامل ہے اسی لئے سعد بن سھل رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں آل مروان کا لفظ استعمال کیا ہے اہل علم جانتے ہیں کہ ایسا کیوں کر کیا جاتا ہے ، ذیل میں ہم امام مسلم کی روایت کردہ حدیث کے ضمن میں وہ احادیث پیش کر رہے ہیں جن سے صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہو رہا ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر سبّ و شتم کا قبیح فعل مروان بن حکم کی عادت بن چکا تھا اور وہ بلا ناغہ ہر جمعہ کے خطبے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر مسجد نبوی کے منبر پر کھڑا ہوکر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کرتا تھا ان پر سب و شتم کرتا تھا بلکہ سیدنا حسن و حسین کے گھر اپنے ہرکارے بھیج کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر گالیوں والا پیغام پہنچاتا تھا۔
مروان بن حکم جب جمعہ کے خطبے کے دوران سیدنا علی رضی الله عنه کو گالی دیتا تھا تو سیدنا حسن بن علی رضی الله عنهما نبی صلی الله علیه وسلم کے حجرے میں داخل ہوجاتے اور اس وقت تک وہاں سے نہ اٹھتے جب تک خطبہ ختم نہ ہوجاتا ، خطبہ ختم ہوتے وہ مسجد نبوی صلی الله علیه وسلم میں داخل ہوتے اور نماز پڑھ کر گھر لوٹ جاتے .
حدثني أبي قال ، حدثنا اسماعيل قال حدثنا إبن عون عن عمير بن إسحاق قال :
《 كان مروان أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة ثم عزل ثم استعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم أعيد مروان فكان يسبه 》 .
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں :
《 مروان ہم پر چھ ( ٦ ) سال تک امیر تھا وہ ہر جمعہ سیدنا علی رضی الله عنه کو گالیاں دیتا تھا پھر اس کو معزول کر دیا گیا اور سعید بن العاص دو سال تک امیر رہے وہ سیدنا علی رضی الله عنه کو گالیاں نہیں دیتے تھے پھر جب دوبارہ مروان کو امیر مقرر کیا گیا تو اس نے سیدنا علی رضی الله عنه کو گالیاں دینی شروع کر دیں 》 .
( مسائل الإمام أحمد / كتاب العلل ومعرفة الرجال ٣ : ١٧٦ رقم : ٤٧٨١ ) . ابن حنبل، أحمد، العلل: ج3، ص176. وروى الحديث ابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق : ٢٤٩/٥٧ . الذهبي، محمد بن أحمد، تاريخ الإسلام : ٢٣١/٥. الذهبي، محمد بن أحمد ، سير أعلام النبلاء : ٤٤٧/٣.
اس کتاب کے محقق ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس کہتے ہیں :
« اسنادہ صحیح والله المستعان : یعنی اس روایت کی سند صحیح ہے والله المستعان » .
اس روایت کی تخریج ابن عساکر دمشقی نے اپنی تاریخ میں کی ہے :
أخبرنا أبو بكر محمّد بن عبد الباقي ، أنا أبو محمّد الجوهري ، أنا أبو عمر بن حيّوية ، أنا أحمد بن معروف ، نا الحسين بن فهم ، نا محمّد بن سعد ، نا إسماعيل بن إبراهيم الأسدي ، عن ابن عون ، عن عمير بن إسحاق قال :
《 كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين ، فكان يسبّ عليا كلّ جمعة على المنبر ، ثم عزل ، فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبّه ، ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبّه ، فقيل : يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا؟ فجعل لا يرد شيئا ، قال : وكان حسن يجيء يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي صلى الله عليه وسلم فيقعد فيها ، فإذا قضيت الخطبة خرج فصلّى ، ثم رجع إلى أهله….》 .
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں مروان بن حکم ہم پر چھ سال امیر رہا ہر جمعہ وہ منبر پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا پھر اس کو معزول کرکے سعید بن عاص کو مقرر کیا گیا دو سال تک انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں نہیں دیں ، پھر سعید بن عاص کو معزول کرکے دوبارہ مروان بن حکم کو مقرر کردیا گیا تو پھر اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینی شروع کردیں ، تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : اے حسن رضی اللہ عنہ کیا آپ سنتے نہیں کہ یہ مروان کیا کہتا ہے؟ اور وہ مروان کو کوئی جواب نہیں دیتے ، عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : حسن رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن آتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں داخل ہوجاتے اور وہیں بیٹھے رہتے اور جب خطبہ ختم ہوجاتا تو حجرے سے باہر نکلتے نماز پڑھتے اور پھر اپنے گھر لوٹ جاتے…..
( تاریخ دمشق لابن عساکر : ٢٤٣/٥٦ ) ( من طريقه روي الخبر في تاريخ الإسلام ( حوادث سنة ٦١-٨٠ ) ص ٢٣١-٢٣٢ ) .
اس روایت کو ابن سعد نے طبقات میں تخریج کیا ہے :
قال: أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم الأسدي. عن ابن عون. عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميرا علينا ست سنين «1» . فكان يسب عليا كل جمعه على المنبر. ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنين «2» فكان لا يسبه. ثم عزل. وأعيد مروان. فكان يسبه. فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا؟ فجعل لا يرد شيئا. قال: وكان حسن يجيء يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ص فيقعد فيها. فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى .
ثم رجع إلى اهله. قال: فلم يرض بذلك حتى أهداه له في بيته. قال :
فأنا لعنده إذ قيل فلان بالباب . قال : أذن له فو الله إني لأظنه قد جاء بشر .
فأذن له فدخل . فقال : يا حسن إني قد جئتك من عند سلطان وجئتك بعزمه . قال: تكلم . قال : أرسل مروان بعلي وبعلي وبعلي وبك وبك وبك وما وجدت مثلك إلا مثل البغلة يقال لها: من أبوك؟ فتقول : أبي الفرس .
قال : ارجع إليه فقل له : إني والله لا أمحو عنك شيئا مما قلت بأن أسبك .
ولكن موعدي وموعدك الله . فإن كنت صادقا فجزاك الله بصدقك .
وإن كنت كاذبا فالله أشد نقمة. وقد كرم الله جدي أن يكون مثله أو قال : مثلي مثل البغلة. فخرج الرجل .
فلما كان في الحجرة لقي الحسين فقال له : يا فلان ما جئت به. قال : جئت برسالة وقد أبلغتها . فقال : والله لتخبرني ما جئت به أو لآمرن بك فلتضربن حتى لا تدري متى رفع عنك. فقال : ارجع فرجع . فلما رآه الحسن قال : أرسله . قال : إني لا أستطيع . قال : لم . قال: إني قد حلفت . قال : قد لج فأخبره .
فقال : أكل فلان بظر أمه إن لم يبلغه عني ما أقول. فقال: يا حسين. إنه سلطان. قال: آكله إن لم يبلغه عني ما أقول . قل له : بك وبك وبأبيك وبقومك وآية بيني وبينك أن تمسك/ منكبيك من لعنه رسول الله ص. قال: فقال وزاد .
عُمیر بن اسحاق کہتے ہین : مروان چھ سال تک ہم پر ( معاویہ رضی الله عنه کی طرف سے ) گورنر رہا ، وہ ہر جمعے کو منبر پر حضرت علی رضی الله عنه پر سَبّ و شَتم کرتا تھا ، پھر سعید بن العاص رضی الله عنه گورنر بنے ، وہ دو سال تک گورنر رہے ، وہ گالی گلوچ نہیں کرتے تھے ، پھر انہیں معزول کرکے دوبارہ مروان کو گورنر بنایا گیا تو وہ پھر سبّ و شتم کیا کرتا تھا۔ حضرت حسن رضی الله عنه جمعہ کے دن نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے حجرے میں آکر بیٹھے رہتے تھے ، اور جب نماز کھڑی ہوتی تو آکر شامل ہوجاتے ( تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں )۔
مگر مروان اِس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اُس نے حضرت حسن رضی الله عنه کے گھر میں قاصد کے ذریعے ان کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ اِن گالیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ :
” تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اُس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے، تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے! “
حضرت حسن رضی الله عنه نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اس کے پاس جا اور اس سے کہہ دے کہ :
” خدا کی قسم ، میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہوگی۔ اگر تُو سچا ہے تو اللہ تجھے تیرے سچ کی جزا دے .
اور اگر تُو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بَلند ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔ “
قاصد نکلا تو حُسین رضی الله عنه سے اس کی ملاقات ہوگئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین رضی الله عنه نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی حضرت حُسین رضی الله عنه نے فرمایا کہ تُو اسے یہ بھی کہنا کہ :
” اے مروان ، تُو ذرا اپنے باپ اور اُس کی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار ، تو اپنے کندھوں پر اُس شخص کو اٹھاتا ہے جس پر رسولُ اللہ صلی الله علیه وسلم نے لعنت کی ہے۔ ” ( یعنی تجھ پر رسولُ اللہ صلی الله علیه وسلم نے لعنت کی ہے ) .
تخريجه :
كتاب الطبقات الكبرى – متمم الصحابة – الطبقة الخامسة – ابن سعد ٣٩٩/١ – انظر مختصر تاريخ دمشق : ٣١٣/٩ . وسير أعلام النبلاء : ٤٤٧/٣ و لكنهما اختصرا الخبر . لیکن امام ذہبی نے روایت کو مختصر بیان کیا ہے .
ورد من حديث الحسن بن علي ومن حديث عبد الرحمن بن أبي بكر ومن حديث عبد الرحمن بن عوف ومن حديث عبد الله بن الزبير ومن حديث عبد الله بن عمرو ومن حديث عمرو بن مرة الجهني ومن حديث عائشة ومن حديث الزهري وعطاء الخراساني مرسلاً.
یہ احادیث حسن بن علی رضی اللہ عنہما عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما، عمرو بن مرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ، اور ام المومنین سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا، اور زہری اور عطاء الخراسانی سے مرسل روایت کی گئی ہے۔ ( كتاب أنيس الساري ( تخريج أحاديث فتح الباري ) ٩٨/١١)
فأما حديث الحسن بن علي فأخرجه إسحاق في ” مسنده ” ( المطالب العالیة – رقم : ٤٤٥٥ : ٢٦٥/١٨ ) وأبو يعلى ( ٦٧٦٤ ) والطبراني في ” الكبير ” ( ٢٧٤٠ ) من طرق عن حماد بن سلمة عن عطاء بن السائب عن أبي يحيى قال : كنت بين الحسن، والحسين ومروان يتسابان، فجعل الحسن يسكت الحسين، فقال مروان : أهل بيت ملعونون، فغضب الحسن وقال : أ قلت : أهل بيت ملعونون؟ فوالله لقد لعنك الله على لسان نبيه – صلى الله عليه وسلم – وأنت في صلب أبيك. قال الهيثمي : وفيه عطاء بن السائب وقد اختلط ” المجمع ٧٢/١٠ قلت : واختلف في سماع حماد منه أهو قبل الاختلاط أم بعده : فقيل : قبل الاختلاط، وقبل : بعده . والذي يظهر لي أنه سمع منه في الصحة والاختلاط ، والله أعلم .
پس جو حدیث حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ہے اسے اسحاق نے اپنی مسند ( المطالب العالیة – رقم : ٤٤٥٥ : ٢٦٥/١٨ ) اور أبو يعلى ( ٦٧٦٤ ) اور الطبراني نے ” الكبير ” ( ٢٧٤٠ ) میں میں نکالا ہے۔ حماد بن سلمہ کے طرق پر وہ عن عطاء بن السائب عن أبي يحيى سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں : میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے درمیان میں موجود تھا اور مروان حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو گالیاں دے رہا تھا تو حسین رضی اللہ عنہ بھی اس کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کو خاموش کرا رہے تھے، مروان نے کہا : اہل بیت ملعون ہیں، یہ سنتے ہی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور کہا : تو نے اہل بیت کو ملعون کہا ہے؟ اللہ کی قسم تجھ پر اللہ کے نبی صلی الله علیه وسلم کی زبان سے اس وقت لعنت کی گئی جب تو اپنے باپ کی پشت میں تھا۔ ہیثمی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند میں عطاء بن سائب ہیں انہیں اختلاط ہوگیا تھا المجمع ٧٢/١٠ ابن حجر ہیثمی کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: کیا حماد بن سلمہ نے عطاء بن سائب سے اس حدیث کو اختلاط سے قبل سنا ہے یا بعد میں؟ تو اس بارے میں کہا گیا ہے : انہوں نے اس حدیث کو عطاء بن سائب سے اختلاط سے قبل سنا ہے اور بعد میں جو بات مجھے ظاہر ہوئی ہے حماد بن سلمہ نے اس حدیث کو عطاء بن سائب سے حالت صحت اور اختلاط دونوں میں میں سنا ہے، واللہ اعلم
حدیث حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی تحقیق وتخریج:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٤٤٥٥ – وقال إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادٍ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي يَحْيَى قال: كنت بين الحسن والحسين رضي الله عنهما، ومروان يشتم الحسين، والحسن ينهى الحسين رضي الله عنهما، إِذْ غَضِبَ مَرْوَانُ، فَقَالَ : أَهْلُ بَيْتٍ مَلْعُونُونَ، فغضب الحسن رضي الله عنه، وَقَالَ : أَقُلْتَ أَهْلُ بَيْتٍ مَلْعُونُونَ؟ فَوَاللَّهِ لَقَدْ لَعَنَكَ اللَّهُ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ أَبِيكَ .
ابو یحییٰ کہتے ہیں : میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے درمیان تھا اور مروان حسین رضی اللہ عنہ کو گالیاں دے رہا تھا، اور حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کو ( مروان سے الجھنے سے ) منع کر رہے تھے جب کہ مروان غصے سے کہہ رہا تھا : کہ اہل بیت ملعون ہیں پس حسن رضی اللہ عنہ مروان پر غضبناک ہو کر کہنے لگے : تو نے کہا ہے کہ اہل بیت ملعون ہیں؟ اللہ کی قسم اللہ نے تجھ پر اس وقت لعنت کی ہے جب تو اپنے باپ کی صلب میں تھا .
وَقَالَ أَبُو يَعْلَى : حدَّثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، ثنا حماد، به .
ابو یعلیٰ کہتے ہیں ہم سے حدیث بیان کی ابراہیم بن حجاج نے وہ کہتے ہیں ہم سے حدیث بیان کی حماد نے اسی طرح .
صحيح بهذا الإِسناد، لأن جميع رواته ثقات، وعطاء بن السائب ثقة، اختلط في آخر عمره، ولكنه لا يضر, لأن حماد بن سلمة سمع منه قبل اختلاطه .
یہ حدیث اس سند سے صحیح ہے کیونکہ تمام راوی ثقہ ہیں، اور عطاء بن سائب ثقہ ہے، آخری عمر میں اس کو اختلاط ہوگیا تھا، لیکن اس کا اختلاط اس حدیث کے لئے ضرر رساں نہیں ہے، کونکہ حماد بن سلمہ نے اس حدیث کو اختلاط سے قبل سنا ہے .
وذكره الهيثمي في المجمع ( ٢٤٠/٥ )، وقال : ” رواه أبو يعلى واللفظ له، وفيه عطاء بن السائب وقد تغير ” .
ہیثمی نے اس حدیث کا ذکر المجمع ( ٢٤٠/٥ ) میں کیا ہے، اور کہا : اس حدیث کو ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابویعلیٰ کے ہیں، اور اس حدیث کی سند میں عطاء بن سائب ہے جس کے حافظہ میں تغیر ہوگیا تھا .
وذكره أيضًا في المجمع ( ٧٢/١٠ )، وقال : ” رواه الطبراني وفيه عطاء بن السائب وقد اختلط ” .
اور اسی طرح المجمع ( ٧٢/١٠ ) میں اس حدیث کو ذکر کیا، اور کہا : اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا اور اس کی سند میں عطاء بن سائب ہے اس کو اختلاط ہوگیا تھا .
وذكره البوصيري في الإِتحاف ( ١٢٤ ل /٣ )، وعزاه لإسحاق بن راهويه وأبي يعلى وسكت عليه .
اس حدیث کا ذکر بوصیری نے الإتحاف ( ١٢٤ ل /٣ ) میں کیا، اور اس حدیث کو اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلیٰ کی طرف منسوب کیا اور اس حدیث پر سکوت کیا .
أخرجه أبو يعلى في مسنده ( ١٣٥/١٢ ) في مسند الحسن بن علي رضي الله عنه .
اس حدیث کی تخریج ابو یعلیٰ نے اپنی مسند ( ١٣٥/١٢ ) میں کی مسند حسن بن علی رضی اللہ عنہ میں .
وأخرجه الطبراني في الكبير ( ٢٧٤٠ : ٨٥/٣ ) من طريقين فرقهما عن حماد بن سلمة، به، بنحوه .
اور اس حدیث کی تخریج طبرانی نے معجم الکبیر ( ٢٧٤٠ : ٨٥/٣ ) میں دو مختلف طرق پر کی بواسطہ حماد بن سلمہ اسی سند اور اسی متن کے ساتھ.
اور اس حدیث کو ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ( ٢٤٤/٥٦ ) اس سند سے نکالا :
قال : وأنا ابن سعد ، أنا عفان بن مسلم ، نا حمّاد بن سلمة ، أنا عطاء بن السائب ، عن أبي يحيى قال :
كنت بين الحسن بن علي ، والحسين ، ومروان بن الحكم ، والحسين يسابّ مروان ، فجعل الحسن ينهى الحسين حتى قال مروان : إنّكم أهل بيت ملعونون ، قال : فغضب الحسن وقال : ويلك ، قلت : أهل بيت ملعونون ، فو الله لقد لعن الله أباك على لسان نبيّه صلى الله عليه وسلم ، وأنت في صلبه .
ابو یحییٰ کہتے ہیں : میں حسن بن علی اور حسین رضی اللہ عنہما اور مروان بن حکم کے درمیان موجود تھا اور حسین رضی اللہ عنہ مروان پر سب کررہے تھے اور حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کو منع کر رہے تھے یہاں تک کہ مروان نے کہا : تم اہل بیت ملعون ہو، ابو یحییٰ کہتے ہیں : حسن مروان پر غضبناک ہوئے اور کہا : تیری خرابی ہو تو کہہ رہا ہے اہل بیت معلون ہیں، اللہ کی قسم اللہ تیرے باپ ( حکم بن عاص ) پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے لعنت کی ہے اور تو اس کی صلب میں تھا۔
قلت : لم أجده في الطبقات لابن سعد في ترجمة مروان بن الحكم، ولعله في ترجمة الحسن أو الحسين ولكنهما في الجزء الساقط من المطبوع .
المطالب العالیة کے محقق د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري کہتے ہیں طبقات ابن سعد میں میں نے مروان بن حکم کے ترجمہ میں اس روایت کو نہیں پایا، شاید یہ روایت حسن اورحسین رضی اللہ عنھما کے ترجمہ میں موجود ہو لیکن ان دونوں کا ترجمے کا یہ جز مطبوع جزء سے میں نہیں ہے۔
* لیکن یہ الگ سے كتاب الطبقات الكبرى – متمم الصحابة – الطبقة الخامسة کے نام سے موجود ہے اور یہ نسخہ شاملہ میں موجود ہے .
وذكره الذهبي في تاريخ الإِسلام ( عهد الخلفاء ) ص ( ٣٦٦ ) وفي السير ( ٤٧٨/٣ )، وقال : ” أبو يحيى النخعي مجهول ” .
اور ذہبی نے اس حدیث کا ذکر تاریخ الاسلام ( عہد الخلفاء ) ص ( ٣٦٦ ) میں کیا شاید حسن یا حسین رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کے ترجمہ میں .
قلت : أبو يحيى : هو زياد المكي، كما تقدم في دراسة الإِسناد، وهو ثقة .
میں ( د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري ) کہتا ہوں : أبو یحییٰ یہ زیاد المکی ہیں اور وہ ثقہ ہیں .
امام بخاری ( التاريخ الكبير – البخاري – ج ٣ – الصفحة ٣٧٨ ) میں ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں :
١٢٧١ – زياد أبو يحيى المكي، سمعت يحيى بن معين قال حدثنا عبيدة بن حميد عن حصين ، قال على: وروى عنه عطاء بن السائب، قال عبدان عن أبي حمزة عن عطاء عن أبي يحيى بن زياد الأنصاري عن ابن عباس: اختصم رجلان إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وقال ابن حماد حدثنا أبو عوانة عن عطاء عن زياد أبى يحيى: إني لأمشي مع حسن وحسين ومروان وكان حسين أحد من الحسن.
تعلیق :
أي عن زياد وفى ترجمة زياد هذا من التهذيب ( ٣٣١/٣ ) ” وعنه حصين ابن عبد الرحمن وعطاء بن السائب ” وعن ابن أبي حاتم ترجمتان ” زياد أبو يحيى المكي روى عن ابن عباس روى عنه عطاء بن السائب.. ” وفى الترجمة انه يقال له الأعرج ومولى بنى عفراء ثم قال ” زياد أبو يحيى مولى قيس بن مخرمة ويقال مولى الأنصار قال كنا عند ابن عباس ومعنا مسور ابن مخرمة كوفي روى عنه حصين بن عبد الرحمن وعطاء بن السائب ” وفى التهذيب ( ٣٩١/٣ ) ” زياد أبو يحيى المكي ويقال الكوفي الأعرج مولى قيس بن مخرمة ويقال مولى الأنصار ” ووقع في الكنى للدولابي ( ١٦٥/٢ ) ” أبو يحيى زياد الأعرج مولى ابن عباس كوفي وهو زياد المعرقب ” ثم حكى عن الدوري عن ابن معين ” أبو يحيى الأعرج هو زياد المعرقب مولى ابن عباس ” والله أعلم –
ابن عبد البر ( الاستغناء ) میں لکھتے ہیں :
أبو يحيى الثقفى الأعرج المكى . روى عن ابن عباس. اسمه زياد. روى عن عطاء بن السائب وحصين. حدثنا عبد الوارث نا قاسم نا ابن أبى خيثمة قال: سألت يحيى بن معين عن أبى يحيى الأعرج فقال : اسمه زيادة وهو مكى ثقة ليس به بأس .
أبو یحییٰ الثقفی الأعرج المکی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ان کا نام زیاد ہے۔ ان سے عطاء بن سائب اور حصین نے روایت کیا ہے۔ ہم سے بیان کیا عبد الوارث نے ہم سے بیان کیا ابن ابی خیثمہ نے وہ کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے ابو یحیی الأعرج کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : ان کا نام زیاد ہے اور وہ مکی ہیں ثقہ ہیں ان میں کوئی خرابی نہیں ہے .
٤٤٥٦ – وقال إسحاق: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أبي يَحْيَى، قَالَ: كُنْتُ يَوْمًا مَعَ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رضي الله عنهما، فَسَبَّهُمَا مَرْوَانُ سَبًّا قَبِيحًا، حَتَّى قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لَأَهْلُ بَيْتٍ مَلْعُونُونَ، فَقَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رضي الله عنهما أَوْ أَحَدُهُمَا: وَاللَّهِ، وَاللَّهِ، ثُمَّ وَاللَّهِ، لَقَدْ لعنك الله عزَّ وجلَّ على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم وَأَنْتَ فِي صُلْبِ الْحَكَمِ، فَسَكَتَ مَرْوَانُ.
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أبي يَحْيَى، کہتے ہیں : ایک دن میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا، تو مروان حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی گندی گندی گالیاں دے رہا تھا، یہاں تک مروان نے یہ تک کہا اللہ کی قسم تم اہل بیت ملعون ہو، تو حسن و حسین رضی اللہ عنہما یا ان میں سے کسی ایک نے کہا : اللہ کی قسم ، اللہ کی قسم ، اللہ کی قسم تحقیق تجھ پر اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تجھ پر لعنت کی اور تو حکم کی صلب میں تھا، یہ سنتے ہی مروان خاموش ہوگیا .
وَقَالَ أبو يعلى : حدَّثنا أبو معمر، ثنا جرير، به .
ابو یعلیٰ کہتے ہیں : حدَّثنا أبو معمر، ثنا جرير، اسی طرح حدیث بیان کی .
( د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري ) کہتے ہیں :
ضعيف, لأن فيه جرير بن عبد الحميد وقد سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه، لكنه لم ينفرد به، بل تابعه عليه حماد بن سلمة كما تقدم في حديث الساعة وحماد سمع من عطاء قبل اختلاطه، وعليه فإن الحديث بهذه المتابعة حسن لغيره، والله أعلم .
لیکن یہ ( مذکورہ : ٤٤٥٦ ) حدیث ضعیف ہے اس سند کے ساتھ کیونکہ اس میں جریر بن عبد الحمید ہے اس نے اس عطاء بن سائب سے اختلاط کے بعد سنا ہے لیکن جریر اس حدیث کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ اس کی اس حدیث میں متابعت حماد بن سلمہ نے کی ہے اور حماد بن سلمہ نے عطاء بن سائب سے اختلاط سے قبل احادیث سنی ہیں، اور یہ حدیث اس متابعت کی وجہ سے حسن لغیرہ کے درجہ میں ہے۔ واللہ اعلم
وذكره البوصيري في الإِتحاف ( ١٢٤ ل/٣ )، وعزاه لإسحاق بن راهويه أبي يعلى وسكت عليه .
بوصیری نے اس حدیث کو الإِتحاف ( ١٢٤ ل/٣ ) میں ذکر کرنے کے بعد اس کو اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اس حدیث پر سکوت کیا ہے .
٤٤٥٧ – وقال إسحاق: أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ أَمِيرًا عَلَيْنَا سِنِينَ، فَكَانَ يَسُبُّ عليًا رضي الله عنه كُلَّ جُمُعَةٍ عَلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ عُزِلَ مَرْوَانُ، وَاسْتُعْمِلَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ سِنِينَ، فَكَانَ لَا يَسُبُّهُ، ثُمَّ عُزِلَ سَعِيدٌ، وَأُعِيدَ مَرْوَانُ، فَكَانَ يسبه، فقيل للحسن بن علي رضي الله عنهما: أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ مَرْوَانُ؟ فَلَا تَرَدُّ شَيْئًا؟ فَكَانَ يَجِيءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَيَدْخُلُ حُجْرَةَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَيَكُونُ فِيهَا، فَإِذَا قُضِيَتِ الْخُطْبَةُ، خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ، فَلَمْ يَرْضَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ، حَتَّى أَهْدَى لَهُ فِي بَيْتِهِ، فَإِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَهُ، إِذْ قِيلَ لَهُ: فُلَانٌ عَلَى الْبَابِ، فَأَذِنَ لَهُ، فَدَخَلَ فَقَالَ: إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ سُلْطَانٍ، وَجِئْتُكَ بِعَزْمَةٍ، فَقَالَ: تَكَلَّمْ، فَقَالَ: أَرْسَلَ مَرْوَانُ بِعَلِيٍّ وَبِعَلِيٍّ وَبِكَ وَبِكَ، وَمَا وَجَدْتُ مَثَلَكَ إلَّا مَثَلَ الْبَغْلَةِ، يُقَالُ لَهَا: مَنْ أَبُوكِ؟ فَتَقُولُ: أُمِّي الْفَرَسُ.
فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ: وَاللَّهِ لَا أَمْحُو عَنْكَ شَيْئًا مِمَّا قُلْتَ بِأَنِّي أَسُبُّكَ، وَلَكِنْ مَوْعِدِي وَمَوْعِدَكَ اللَّهُ، فَإِنْ كُنْتَ صَادِقًا يَأْجُرُكَ اللَّهُ بِصِدْقِكَ، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَاللَّهُ أَشَدُّ نِقْمَةً، قَدْ أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى جَدِّي أَنْ يَكُونَ مَثَلِي مَثَلُ الْبَغْلَةِ، ثُمَّ خَرَجَ، فلقي الحسين رضي الله عنه فِي الْحُجْرَةِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: قَدْ أُرْسِلْتُ بِرِسَالَةٍ وَقَدْ أَبْلَغْتُهَا، قَالَ: وَاللَّهِ لَتُخْبِرَنِّي بِهَا، أَوْ لآمرن أن تضرب حتى لايدرى مَتَى يَفْرُغُ عَنْكَ الضَّرْبُ، فَلَمَّا رَآهُ الْحَسَنُ رضي الله عنه قَالَ: أَرْسِلْهُ، قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، قَالَ: لِمَ؟ قَالَ: قَدْ حَلَفْتُ، قَالَ: أَرْسَلَ مَرْوَانُ بِعَلِيٍّ وَبِعَلِيٍّ وَبِكَ وَبِكَ، وَمَا وَجَدْتُ مَثَلَكَ إلَّا مَثَلَ الْبَغْلَةِ، يُقَالُ لَهَا: مَنْ أَبُوكِ؟ فَتَقُولُ: أمي الفرس، فقال الحسين رضي الله عنه: أَكَلْتَ بَظْرَ أُمِّكَ إِنْ لَمْ تُبْلِغْهُ عَنِّي مَا أَقُولُ لَهُ، قُلْ لَهُ: بِكَ وَبِأَبِيكَ وَبِقَوْمِكَ، وَآيَةِ مَا بَيْنِي وَبَيْنِكَ أَنْ تَمْسِكَ مَنْكِبَيْكَ مِنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
( ترجمہ اوپر گزرچکا ) .
٤٤٥٧ – درجته :
( د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري ) کہتے ہیں :
ضعيف بهذا الإِسناد، فيه عمير بن إسحاق وهو ضعيف، وبقية رواته ثقات.
اس سند سے یہ روایت ضعیف (*) ہے ، اس میں عمیر بن اسحاق ہے وہ ضعیف ہے، اور باقی راوی ثقہ ہیں .
وذكره البوصيري في الإِتحاف ( ١٢٤ ل/٣ )، وعزاه لإسحاق بن راهوية وسكت عليه .
بوصیری نے اس حدیث کو الإِتحاف ( ١٢٤ ل/٣ ) میں ذکر کرنے کے بعد اس کو اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اس حدیث پر سکوت کیا ہے .
تخريجه :
أخرجه ابن عساكر في تاريخه ( ٣٤٦/١٦ ) من طريق ابن سعد، عن إسماعيل بن إبراهيم السدي عن ابن عون، به، بنحوه .
اس روایت کو ابن عساکر نے اپنی تاریخ ( ٣٤٦/١٦ ) ابن سعد کے طریق سے بواسطہ اسماعیل بن ابراہیم السدی عن ابن عون اسی سند اور اسی کے مانند روایت کیا ہے .
( د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري ) کہتے ہیں :
قلت : لم أجده في ترجمة مروان بن الحكم في الطبقات الكبرى, ولعله في ترجمة الحسن أو الحسين رضي الله عنهما. وهما غير موجودتين في الجزء المطبوع من الطبقات .
طبقات ابن سعد میں میں نے مروان بن حکم کے ترجمہ میں اس روایت کو نہیں پایا، شاید یہ روایت حسن اورحسین رضی اللہ عنھما کے ترجمہ میں موجود ہو لیکن ان دونوں کا ترجمے کا یہ جز مطبوع جزء سے میں نہیں ہے۔
* لیکن یہ الگ سے كتاب الطبقات الكبرى – متمم الصحابة – الطبقة الخامسة کے نام سے موجود ہے اور یہ نسخہ شاملہ میں موجود ہے .
وذكره الذهبي بطوله في تاريخ الإِسلام ( ٦١-٨٠ ) ( في ترجمة مروان ) ( ص ٢٣١ ) وسكت عليه وللحديث شواهد متعددة في لعن الرسول – صلى الله عليه وسلم – بني أُمية، تقدم تخريجها في حديث رقم ( ٤٤٥٤ )، وعليه فإن حديث الباب بهذه الشواهد حسن لغيره، والله أعلم .
امام ذہبی نے اس حدیث کا ذکر تاریخ الاسلام میں ( ٦١-٨٠ ) مروان کے ترجمہ میں ( ص ٢٣١ ) میں طوالت کے ساتھ کیا ہے اور اس حدیث پر سکوت کیا ہے اور اس حدیث کے متعدد شواہد ہیں بنو امیہ پر رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی لعنت کرنے کے بارے میں اور ان شواہدات کا حديث رقم ( ٤٤٥٤ ) کی تخریج کے ضمن میں ذکر گزرچکا ہے، اور ان شواہدات کی بنیاد پر یہ حدیث اس باب میں حسن لغیرہ* ہے۔ واللہ اعلم
( * ) : اس حدیث کو ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ اور عمیر بن اسحاق اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہے اس کی اصل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو سھل بن سعد رضی اللہ عنھما سے مروی ہے۔ اس روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کرنے والے کو آل مروان کہہ کر ذکر کیا گیا ہے جبکہ آل مروان سے خود مروان کی ذات مراد ہے، جیسا کہ ہم نے احادیث کی تخریج کرکے ثابت کیا ہے۔ اور اس بارے میں ہم نے صرف روایات پر ہی اکتفاء کیا ہم نے ائمہ کے اقوال کی جانب توجہ نہیں کی جنہوں نے اپنے اقوال میں آل مروان سے مراد بذات خود مروان قرار دیا ہے۔
٤٤٥٨ – أخبرنا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أنا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ عمير بن إسحاق، فذكره، نَحْوَهُ. وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: قَدْ أَكْرَمَ اللَّهُ تعالى جَدِّي أَنْ يَكُونَ مَثَلَهُ مَثَلُ الْبَغْلَةِ، قَالَ: فخرج الرسول فاستقبله الحسين رضي الله عنه، وَكَانَ لَا يَتَعَوَّجُ عَنْ شَيْءٍ يُرِيدُهُ، وَقَالَ: فقال الحسين رضي الله عنه إني قد حلفت، قال الحسن رضي الله عنه: فَأَخْبِرْهُ، فَإِنَّهُ إِذَا لَجَّ فِي شَيْءٍ لَجَّ.
وقال : فاشتد على مروان قوله رضي الله عنه جِدًّا، يَعْنِي قَوْلَهُ: “أَنْ تُمْسِكَ مَنْكِبَيْكَ” إِلَى آخره.
٤٤٥٨ – درجته :
ضعيف بهذا الإِسناد، فيه عمير بن إسحاق، وهو ضعيف، وبقية رواته ثقات .
بوصیری نے اس حدیث کو الإِتحاف ( ١٢٤ ل/٣ ) میں ذکر کرنے کے بعد اس کو اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اس حدیث پر سکوت کیا ہے .
======
( 1 ) ابن أبي حاتم الرازي – الجرح والتعديل عمیر بن اسحاق کے متعلق لکھتے ہیں :
عمير بن اسحاق أبو محمد مولى بنى هاشم سمع ابا هريرة وعمرو ابن العاص والحسن بن علي روى عنه ابن عون ولا نعلم روى عنه غير ابن عون سمعت أبي يقول ذلك، نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلى قال أنا عثمان بن سعيد قال قلت ليحيى بن معين عمير بن اسحاق كيف حديثه؟ فقال ثقة.
عمیر بن اسحاق ابو محمد مولی بن ہاشم انہوں نے ابوہریرۃ و عمرو ابن العاص اور حسن بن علی سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے ابن عون نے روایت کی ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ابن عون کے علاوہ کسی اور نے ان سے روایت کی ہو میں نے اپنے والد ابو حاتم کو ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے، ہمیں خبردی عبد الرحمن نے ہمیں خبردی یعقوب ببن اسحاق نے جیسا کہ اس نے میری جانب لکھا کہتے ہیں ہمیں خبردی عثمان بن سعید نے کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا : عمیر بن اسحاق کی حدیث کیسی ہے؟ تو یحییٰ بن معین نے فرمایا : عمیر بن اسحاق ثقہ : یعنی قابل اعتماد ہے .
( 2 ) خليفة بن الخياط – الطبقات میں لکھتے ہیں :
وعمير بن إسحاق. روى عنه ابن عون, يكنى أبا محمد. قال خليفة: لا أعلم أحدًا روى عنه إلا ابن عون. الطبقة الثالثة: من أبناء المهاجرين ثم من قريش:
اور عمیر بن اسحاق ان سے ابن عون روایت کرتے ہیں . خلیفہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ عمیر بن اسحاق سے سوائے ابن عون کے کسی اور نے بھی روایت کی ہو۔ تیسرے طبقے کے تابعی ہیں مہاجرین کے بیٹوں میں سے ہیں قریشی ہیں۔
( 3 ) وقال عباس الدوري، عن يحيى بن معين: لا يساوي شيئا، ولكن يكتب حديثه. قال عباس: يعني لا يعرف ولكن ابن عون روى عنه قال: فقلت ليحيى: ولا يكتب حديثه؟ فقال : بلى . ( تاريخه: ٢ / ٤٥٦ )
مصطلح « ليسَ بشيءٍ » عند ابن معين .
بقلم: خالد الحايك.
قال في روايته لتاريخ يحيى (4/250): سمِعت يحيى يقول: “كان عُمَيْر بن إِسْحَاق لا يُسَاوِي شَيْئا، وَلَكِن يكْتب حَدِيثه”.
قال الدوري: “يعْنِي يحيى بقوله إِنَّه (ليسَ بِشَيْء)، يَقول: إِنَّه لا يعرف، ولكِن ابن عون روى عَنهُ، فَقلت ليحيى: ولا يكْتب حَدِيثه؟ قال: بلى”.
ونقل ذلك ابن عدي في ترجمته من «الكامل» (6/133) وفيه: “قال عباس: يعني يَحْيى بقوله (لا يساوي شيئا) أي أنه لا يعرف، ولكن ابن عون روى عَنْهُ، فقلت ليحيى: فلا يكتب حديثه؟ قالَ: بلى”.
قلت: ليس بشيء = لا يساوي شيئاً، وتفسير ذلك أنه لا يعرف من تلميذه عباس الدوري لعله بسبب قرينة عنده رافقت السؤال عنه؛ لأن ابن معين إذا لم يعرف الراوي قال فيه: «لا أعرفه» كما سبق بيانه.
ويُحتمل أن تفسير الدوري لهذا المصطلح بأنه لا يعرف في هذا الراوي فقط؛ أي ليس ذلك تفسيراً للمصطلح عموماً لقرينة كما أشرنا.
وهذا الراوي لما سئل عنه الإمام مالك، قال: “لا أعرفه، وحسبكم أنه روى عنه ابن عون”، وعمير هذا مدني، نزل البصرة، وحدث عنه ابن عون البصري فقط.
ولكن نُقل عن يحيى أنه عرفه كما في رواية عثمان بن سعيد الدارمي، قال: قلت ليحيى بن معين: عمير بن إسحاق، كيف حديثه؟ فقال: “ثقة” (الجرح والتعديل: 6/375).
والسؤال: هل ابن معين لم يعرفه أولاً، ثم عرفه، فوثقه؟ أم أنه عرفه ووثقه، ثم جرحه بقوله: إنه لا شيء!
الأقرب أنه وثقه ثم جرحه بهذا المصطلح، والله أعلم.
لنک : http://www.addyaiya.com/uin/arb/Viewdataitems.aspx…
( 4 ) وَقَال ابن عدي: وهو ممن يكتب حديثه، وله من الحديث شيء يسير (الكامل: 2 / الورقة 212) .
ابن عدی الکامل میں فرماتے ہین عمیر بن اسحاق ان لوگوں میں سے ہیں جن کی حدیث لکھی جاتی ہے، اور ان سے بہت کم احادیث مروی ہیں۔
( 5 ) وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس. ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال : ٣٧٠/٢٢ )
امام نسائی فرماتے ہیں : ان کے ساتھ ( حدیث روایت کرنے میں ) کوئی برائی نہیں ہے۔
( 6 ) وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب “الثقات ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال : ٣٧٠/٢٢ )
ابن حبان نے ان کا ذکر ثقہ راویوں میں کیا ہے۔ ( الثقات : ٢٥٤/٥ ) .
( 7 ) روى له البخاري في “الأدب”، والنَّسَائي.
عمیر بن اسحاق سے امام بخاری نے الادب المفرد میں روایت لی ہے اور نسائی نے بھی ان سے روایت لی ہے . ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال : ٣٧٠/٢٢ )
( 8 ) عمير بْن إِسْحَاق أَبُو مُحَمَّد مولى لبْني هاشم، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ وَعَمْرو بْن العاص والحسن بن على رضى الله عنهم، نسبه يحيى ابن موسى، حدثنا قريش بن انس حدثنا ابن عون . ( البخاری – التاریخ الکبیر )
عمير بْن إِسْحَاق أَبُو مُحَمَّد مولى لبْني هاشم ہے اس نے ابوہریرۃ اور عمرو بن عاص اور حسن بن علی رضى الله عنهم سے حدیث سنی ہے .
حاصل کلام : عمیر بن اسحاق کی توثیق مروی ہے قلیل الحدیث ہے، لہٰذا اس بنیاد پر جس نے عمیر بن اسحاق کی تضعیف کی ہے وہ مسترد ہے، جرح مفسر نہیں ہے، جبکہ یحییٰ بن معین ، ابو حاتم الرازی ، ابن عدی ، نسائی ، ابن حبان نے توثیق کی ہے ، امام بخاری نے الادب المفرد میں ان سے حدیث لی ہے اور ان سے سکوت کیا ہے ، لہٰذا عمیر بن اسحاق پر ضعف کا حکم کالعدم ہے۔
ابومصعب