ایک آزاد اور روشن ذہن کے لیے غامدی طرزِ فکر کو مسترد کرنے کے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ اس فکری نظام میں سفید فام استعمار, نوآبادیاتی دنیا اور اس دنیا کے قومی ریاست جیسے بدبودار ڈھانچوں سے رتی برابر بھی بیزاری نہیں پائی جاتی۔ جس نے بھی نوآبادیات کے ثقافتی و علمی اثرات کا مطالعہ کیا پے وہ جانتا ہے کہ کوئی بھی غیر سفید فام شخص اگر سفید فام تہذیب کی بالادستی اور اس بالادستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حاضر و موجود سے بیزار نہیں تو اس کی فکر نا تو اویجنل ہے نا سنجیدگی سے لیے جانے کے قابل۔
نا صرف یہ کہ غامدی مغربی استعمار کے حوالے سے مطمئن ہیں بلکہ وہ جدید مسلم فکر میں ایسے منفرد شخص ہیں کہ جو مسلم تہذیب کے اندر سامراج اور ملوکیت کی روایت سے بھی بیزار نہیں بلکہ اس کا وکیل ہے۔ جمال الدین افغانی, نامق کمال, عبدالرحمان کواکبی, شبلی نعمانی, محمد اقبال, سیدّ مودودی, سیدّ قطب ۔۔۔۔ جدید دور کے سب نامور مسلم مدبرین نے ملوکیت کو بالاتفاق روحِ اسلام کی ضد اور استبداد کو مسلمانوں کے جملہ مسائل کی جڑ, بلکہ واحد حقیقی مسئلہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ ان سے پہلے بارہ سو سال مسلم سامراجی نظاموں میں رہنے والے سلطانی فقہاء نے بھی ملوکیت کو حلال ٹھہرایا تو اکراہ کے ساتھ۔ مسلمانوں نے حالات سے سمجھوتہ کرکے ملوکیت برداشت تو کی لیکن ان کے ضمیر نے اسے کبھی قبول نا کیا۔
سعودی عرب میں شیخ ربیع مدخلی اور ہمارے ہاں جاوید غامدی اسلامی تاریخ کی دو انوکھی شخصیات ہیں جو جدید اسلامی فکر کے الٹے دھارے میں بہہ کر ملوکیت کو نا صرف حلال ٹھہراتے ہیں بلکہ چودہ سولہ سالہ اصولی اجماع کے خاف جالر اس کے مداح بھی نظر آتے ہیں۔
ان میں بھی شیخ ربیع مدخلی تو صرف روایتی مسلم طرز کی ملوکیت کو جواز فراہم کرتے نظر آتے ہیں لیکن غامدی اس سے بڑھ کر ہر طرح کے نئے پرانے استبدادی نظام (بشمول قومی ریاست اور نوآبادیاتی نظام پر کھڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت) کے حق میں بودے دلائل گھڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مشاجراتِ صحابہ پر ان کی گفت گو ہوشیاری سے سنی جائے تو علم ہوتا ہے کہ وہ ملوکیت کو کئی اعتبار سے خلافتِ راشدہ سے بہتر بھی سمجھتے ہیں۔
اس اعتبار سے مدخلی اور غامدی اسلامی تاریخ, بالخصوص جدید مسلم فکر میں سب سے ری گریسو یعنی رجعت پسند سیاسی فکر کے علم بردار ہیں۔
انسانی آزادی پر جن سیاسی قدغنوں کو مسلم ضمیر نے کبھی قبول نا کیا اور جدید مسلم مفکرین نے جن استبدادی قدروں کو یکسر مسترد کردیا ۔۔۔ غامدی بہت محنت سے ان کے لیے فکری قالین بچھاتے ہیں۔
اس اعتبار سے وہ اپنے تئیں اس چنگاری کو بجھانے کی اور اس مزاحمتی فکری روایت کو undo کرنے کی جرات کرتے ہیں جو حسین ابن علی نے شروع کی۔
جدید دور کے مفکرین میں وہ اپنے سیاسی افکار کے اعتبار سے علامہ اقبال کی
عین ضد ہیں۔
احمد الیاس