ایک خوبصورت موضوع تحقیق

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اہتمام کیا تھا کہ ہر صوبے میں گورنر، قاضی اور بیت المال کے ناظم میں سے کوئی بھی دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتا تھا تاکہ عدل کی بالادستی یقینی بنائی جائے. بنو امیہ نے قاضیوں کا انتخاب گورنرز کے ہاتھ میں دے دیا اور وہ اپنی پسند کے قاضی لگانے لگے.. حسن المحاضره میں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے والی مصر مسلمہ کو لکھا کہ یزید کے حق میں لوگوں سے بیعت لی جائے. لوگ بے چون و چرا بیعت کرنے لگے لیکن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جو فسطاط میں اپنے والد کے قلعہ میں مقیم تھے، انکار کر دیا. مسلمہ نے کہا، عبداللہ کو کون راہ راست پر لا سکتا ہے؟ عابس نام کا ایک ڈان کھڑا ہوا اور اس نے کہا، میں

وہ پولیس کی نفری لے کر گیا، لیکن عبداللہ نہ مانے، آخر اس نے لکڑیاں اکٹھی کروائیں اور محل کو آگ لگا کر صحابی رسول کو زندہ جلانے کی تیاری شروع کر دی. عبداللہ جب لاچار ہو گئے تو باہر نکل آئے اور جو کچھ عابس کہتا رہا اسے دھرا دیا

الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان

اس کارنامے پر عابس کو مسلمہ نے مصر کا قاضی مقرر کر دیا.

اس کی علمی حالت یہ تھی کہ لکھنا پڑھنا سرے سے نہیں جانتا تھا. مروان بن حکم نے مصر کے دورہ کے دوران اس سے پوچھا، تم نے قرآن یاد کیا ہے،

نہیں

فرائض یعنی میراث کے مسائل جانتے ہو،

نہیں

دیگر کئی قضاۃ کی اہلیت بھی ایسی ہی تھی

اس دور کے قضاۃ کے احوال اور فیصلے لائق مطالعہ ہیں.

(امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، مولانا گیلانی، 49_52)

ہمارے ملک میں بھی ملوکیت نے سب سے پہلے عدلیہ کو زیر نگیں کیا.

جسٹس منیر سے لے کر کف گل فروش تک

طفیل ہاشمی