واپس آجائیں
یوں تو کچھ لوگ مناظر مزاج ہوتے ہیں اور ہر مکتب فکر میں ہوتے ہیں تاہم برصغیر میں اہل حدیث اور حنفی تعاون، رواداری اور احترام کی ایک طویل پائیدار روایت رہی ہے. اہل حدیث عالم قاضی سلیمان منصور پوری کی تالیف سیرت “رحمۃ للعالمین” عشق مصطفوی میں ڈوب کر لکھی گئی ایک ایسی تالیف ہے کہ جس کے بغیر اردو کتب سیرت کی لائبریری مکمل نہیں ہو سکتی. اہل حدیث محدث مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کی شرح ترمذی “تحفۃ الاحوذی” سے شاید کبھی کسی حنفی محدث یا فقیہ کی دلازاری نہیں ہوئ. برصغیر کے مسلم دلچسپی کے امور میں ہمیشہ دونوں مکاتب فکر کندھے سے کندھا ملا کر چلتے رہے. لاہور میں مولانا داود غزنوی، مولانا احمد علی لاہوری اور مفتی محمد حسن کا مخلصانہ تعلق آج بھی زبان زد علماء ہے. المیہ یہ ہوا کہ سعودی مالی تعاون کے بعد یہاں کا اہل حدیث کلچر اس قدر تبدیل ہو گیا کہ کوئی باعزت غیر سلفی اہل علم أن کی زبان درازی سے محفوظ نہیں رہا کیونکہ اس کے پیچھے اس فکر و فلوس کی طاقت تھی جس پر سے محمد بن سلیمان نے پردہ کھسکا دیا ہے. یہی فکر و مال اکثر دیوبندیوں کو بھی ریالات کے سیلاب میں بہا کر لے گیا نتیجۃ مقدس ناموں سے ناصبیت اور خارجیت کو اس قدر ترویج دی گئی کہ ایک طرف موجودہ دیوبندیت کا اپنی اساس سے فکری رشتہ ختم ہوگیا دوسری طرف اگر کوئی اکا دکا اہل علم اپنی اصل پر باقی رہا تو اس کے لئیے جینا دوبھر کر دیا گیا.
اب جب کہ مرکز فکر سلفیت جدیدہ نے اعتراف کر لیا ہے کہ دنیا بھر میں یہ فکر امریکہ کی رضا جوئی اور امتثال أمر کے لیے سوویت یونین کے خلاف سرد اور گرم جنگ میں شرکت کے لئے پھیلائی گئی تو برصغیر کے سلفی اور جدید دیوبندیوں سے عرض ہے کہ
اب واپس آ جائیں.
طفیل ہاشمی