بنو امیہ کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے ان احادیث کو بھی سامنے رکھا جائے

بنو امیہ کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے ان احادیث کو بھی سامنے رکھا جائے ،جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اغیلمہء قریش سے خبردار کیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تکوینی طور پر اگرچہ یہ طے ہوچکا تھا کہ بنو امیہ نے آکر رہنا ہے ،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قطعاً خوش نہ تھے۔اور کیونکر ہوتے کہ اہل مدینہ کو انہوں نے خوفزدہ کرنا تھا، مکہ اور حرم مکی پر انہوں نے سنگباری کرنی تھی، کبد نبوی اور حفید رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خون میں انہی کے ہاتھ رنگنے تھے۔ خلافت صحابہ کا اختتام انہی کے ہاتھ ہونا تھا۔ سینکڑوں صحابہء کرام کے خون کا حساب انہی کی تلواروں پر ہے اور تاقیامت رہے گا۔

بنو امیہ میں سب سے زیادہ اسلامی فتوحات ولید بن عبدالملک کے عہد میں ہوئیں ، لیکن اس کے بعد اس کے بھائی سلیمان بن عبدالملک نے عالم اسلام کے تمام ان بڑے فاتحین کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ افریقہ کا فاتح موسیٰ بن نصیر بھیک مانگتے مانگتے مر گیا۔ طارق بن زیاد تاریخ کے اوراق سے ہمیشہ کے لئے گم کردیا گیا۔ قتیبہ بن مسلمہ باہلی کو بغاوت کا مجرم بنوا کر سر قلم کرا دیا۔ محمد بن قاسم رح کو سندھ سے معزول کرکے قید کردیا اور بعد میں بعض روایات کے مطابق کھال میں بند کرکے مروادیا۔

بنوامیہ بمعنی مروان واولادہ میں سے اگر ولید بن عبد الملک اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو نکال دیا جائے ، تو پیچھے غسالہ ہی بچتا ہے۔

عالم اسلام نے ان کو دل سے کبھی قبول نہیں کیا، اسی وجہ سے تو وہ قرن اول کی بہترین فضاء کے باوجود سو سال تک حکومت نہ کرسکے۔ حلانکہ ان کے بعد کی خلافتیں صدیوں تک چلتی رہیں۔

مختصراً یہ کہ ہم بلحاظ خاندان کسی کی برائی کے قائل نہیں ، ہاں یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ( مذکورہ بالا دو افراد کو نکال کر ) بنو امیہ کا فائدہ امت کے لئے کم اور نقصان زیادہ رہا۔

ہاں یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ جو حالات تھے، خاص کر فتنہ کے دور کے ، وہ ایسے تھے کہ بڑے بڑوں کی عقلیں حیران رہ گئی تھیں۔ اس وجہ سے ہم فوت شدگان کو برا کہنے کے قائل نہیں۔ ان کا انجام اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔

یہ ماننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ خلیفہ ولید کی اکثر فتوحات کی بنیاد امت کے سب سے بڑے ظالم حجاج کی مرہون منت رہی ہیں۔ یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ کبھی فاسق سے بھی اپنے دین کا کام لے لیتے ہیں۔

اللہ کریم ان کے اچھوں کی اچھائی پر ان کو بہترین اجر عطا فرماویں اور ان کے بروں کی برائی پر ان کی مناسب حال پکڑ فرمائے۔

آمین۔

مولانا علی عمران