بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر ریاست کو اپنی بقاء کے لیے اپنے مفادات کا خودغرضانہ تحفظ کرنا ہی پڑتا ہے، خواہ یہ خودغرضی اس ریاست کے لوگوں اور اسے چلانے والوں کے بھی نظریات کے خلاف ہی جاتی ہو۔ خود پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کی بڑی مثال ہے۔ ہم ایک نظریاتی ریاست ہیں لیکن سنکیانگ اور افغانستان کے معاملوں میں ہماری خارجہ پالیسی صریح خوڈ غرضی اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارا بھی ہمارے پاس نہیں۔
یہی معاملہ ایران اور ترکیہ جیسی مسلم اقوام کا ہے۔ ان کے حکمران بھلے اسلام پسند ہوں،لیکن عالمی نظام کی حرکیات ایسی ہیں کہ انہیں ریاستی خود غرضی پر مبنی پالیسی بنانی ہی پڑتی ہے۔ اسی سبب پاکستان نواز، ایران نواز، ترکی نواز لوگوں میں سوشل میڈیا پر طعن اوت تناؤ دیکھنے کو ملتاہے۔ لیکن چونکہ تینوں ملکوں کی حکومتیں زمینی حقیقیت کو سمجھتی ہیں لہذا حقیقت پسندانہ طور پراپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے اور ضرورت پڑنے پر دوسرے کی تانگ کھینچنے کے باوجود کبھی کھل کر ایک دوسرے کے کلاف نا بولتی ہیں نا تعلقات میں ایک خاص حد سے زیادہ تناؤ آنے دیتی ہیں۔
افغانستان میں ایران کے مفادات فارسی بولنے والے تاجکوں اور ہزارہ لوگوں سے وابستہ تھے۔ ہمارے لیے طالبان حکومت مسلط کرنا زندگی موت کا مسئلہ تھا۔الحمدللہ، ہمارا پلڑا بھاری رہا۔ ایرانی پروکسیاں بالکل دب کر رہ گئیں۔ ایران زچ تو بہت ہوا لیکن ریاستی سطح پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ نہین ہونے دئیے کیونکہ ایرانی خوفناک حد تک حقیقیت پسند قوم ہیں۔
اسی طرح آزربئیجان یا شام کے مسئلوں پر ترکیہ اور ایران کے مفادات بالکل مختلف ہیں۔ ایران کو آزربئیجان سے یہ مسئلہ ہے کہ آزربئیجان امریکہ و اسرائیل کا کٹر اتحادی ہے اور ایران کی بغل میں بیٹھ کر ایرانی آزربئیجان میں چھیڑ چھاڑ کی کوششیں کرتا ہے۔ دوسری طرف آزربئیجان ترکیہ کا کلیدی اتحادی ہے اور ترکوں کے روایتی دشمنوں یعنی آرمینیائیوں کا دشمن ہے۔ اسی طرح شام میں ایران اپنے مفادات (حزب اللہ اور حماس تک اپنی سپائی چین یقینی بنائے رکھنے اور داعش جیسے عناصر کو قابو میں رکھنے) کے لیے بشار الاسد کو سپورٹ کرتا ہے جبکہ ترکیہ اپنے پڑوس شام میں اپنی پسند کی حکومت چاہتا ہے، جیسا کہ ہم افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت چاہتے ہیں۔ مگر ان اختلافات کے باوجود ایران اور ترکی کی حکومتوں میں اعلیٰ سطح کی کوٓرڈینیشن ہے، کردوں اور قطر کے مسئلے پر دونوں ملکوں نے مل کر کام کیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔
ترکیہ اور پاکستان کیتعلقات اگرچہ مجموعی طور پر خوشگوار ہیں لیکن سنکیانگ کے مسئلے پر دونوں کا سٹینڈ بالکل مختلف ہے۔ ترکیہ کے چین سے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں جبکہ چین ہمارا کلیدی اتحادی ہے اور ہمارا مستقبل چین سے وابستہ ہے۔
لہذا مین سمجھتا ہوں کہ ہمیں جذباتی ہو کر ایران یا اردگان کو گالیاں اور منافقت کے طعنے نہیں دینی چائییں۔ پاکستان سمیت دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات کے ضمن میں خودغرضی کا ہی مظاہرہ کرتا ہے اورایسا کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن پاکستان مین رہ کر، پاکستانی ہوکر پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک کے مفادات کے لیے فکر مند رہنا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔انسان کا نظریاتی یا مسلکی جھکاؤ فطری طور پر ہوتا ہے اور ہم مسلک یا ہم نطریہ ریاست سے ہمدردی بھی سمجھ آتی ہے، لیکن جب ہم نظریے اور مسلک کی ریاست سب سے پہلے اپنے مفادات کو ہی رکھتی ہے تو بہتر ہے کہ آپ اپنے ملک کی ریاست کے مفاد ہی کو سب سے پہلے دیکھین اور مقدم رکھیں۔
اب یہاں بعض لوگ کہیں گے کہ اگر آپ ایران اور ترکیہ کو ان کی خود غرضیوں پر رعایت دے رہے ہیں تو سعودی عرب کو بھی دیں۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ پہلے جا کرقوم، ریاست اور حکومت کا فرق پڑھیں۔ ایران اور ترکیہ کے ریاستی مفادات واقعی ان کے قومی مفادات ہیں، ان کی حکومتیں بہر حال ان کی نمائندہ ھکومتیں ہیں۔ سعودی عرب کے مفادات اس نام نہاد ملک میں رہنے والے لوگوں یا عرب قوم کے نہیں، صرف ایک غاصب خاندان کے مفادات ہیں۔لہذا ایران اور ترکیہ جیسی سنجیدہ اور حقیقی ریاستوں کا تقابل ہی ریاض کی امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ سے کسی صورت درست نہیں۔ اس کٹھ پتلی انتظامیہ سے اچھے تعلقات رکھنا فی الوقت ہماری قومی مجبوری ہے، اس پر ہمین اعتراض نہیں۔ لیکن اس کٹھ پتلی انتظامیہ کو جائز ریاستوں والا احترام ہم شخصی طور پر بہرحال نہیں دے سکتے۔
مسلک کے آئینے سے بین الاقوامی تعلقات کو دیکھنا ویسے بھی شدید درجے کی جہالت ہے اور کبھی ایسے شخص کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے جو مسلکی بنیادوں پر خطے کی سیاست کو تجزیہ کرے۔ مسلک عالمی تعلقات کو ڈیفائین کرتا تو آزربئیجان اور ایران دشمن ہوتے نا فلسطینی مجاہدین اور ایران دوست ہوتے، ترکیہ و آزربئیجان دوست ہوتے نا ترکیہ و مصر دشمن ہوتے۔ سعودیہ کے تعلقات محمد رضا شاہ پہلوی اور یمن کی متوکل بادشاہت سے بہترین رہے ہوتے اور نا سعودیہ اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دیتا۔ لہذا جب خطے کی سیاست پر بات کرنے کسی پلیٹ فارم پر آئیں تو اپنا کالا، سفید، سبز مسلکی چشمہ گھر چھوڑ کر آئیں، وگرنہ جوکر لگیں گے۔
احمد الیاس