بین الاقوامی معاملات کے مطالعے اور تجزیے میں مسلکی عینک

بین الاقوامی معاملات کے مطالعے اور تجزیے میں مسلکی عینک کے استعمال سے زیادہ بے وقوفانہ غلطی اور کوئی بھی نہیں ہے۔ مسلم دنیا کی سیاست پر بحث کرتے ہوئے یہ غلطی کم علم مغربی مبصرین بھی کرتے ہیں اور ہمارے اپنے لوگ بھی۔ کسی شخص کا مشرقِ وسطیٰ کے بین الاقوامی سیاسی حالات پر تبصرہ اسی وقت غیر سنجیدہ ہوجاتا ہے جب وہ سعودی عرب کو اہلسنت اور ایران کو اہل تشیع کے نمائندے کے طور پر پیش کرتا ہے۔

سعودی عرب اور ایران دو ریاستیں ہیں، تشیع یا تسنن کی پیشواء یا ٹھیکیدار ہرگز نہیں۔ ریاستیں اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت کام کرتی ہیں، مسالک کے تحت نہیں۔

ایران شیعہ اکثریتی ہے لیکن شیعہ اکثریتی پڑوسی ملک آزربائیجان کے خلاف آرمینیاکی حمایت کرتا ہے۔

یہی ایران جو شیعہ پڑوسی آزربائیجان کی مدد نہ کرنے کی اپنے شیعوں کو بظاہر یہ دلیل دیتا ہے کہ آزربائیجانی سیکولر شیعہ ہیں اور ان کا شیعہ اسلام، انقلابی شیعہ اسلام نہیں ہے، وہی ایران اپنے سٹریٹجک مفاد کے تحت شام میں بشار الاسد کی کٹر سیکولر حکومت کی حمایت کرتا ہے، وہ بشار الاسد جس کا علوی یا نصیری عقیدہ ایران کے انقلابی شیعہ اسلام سے تو کیا، روایتی تشیع کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔

ایران شیعہ ہے لیکن کٹر سنّی اسلامی تنظیم حماس کا پشت پناہ ہے اور حماس نے حالیہ کشیدگی میں اپنے قائدین اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل کے ساتھ جنرل قاسم سلیمانی کی تصویر کا فلیکس مسجد اقصیٰ میں آویزاں کر رکھا ہے۔

اُدھر سعودی عرب کا شاہی خاندان سنّی ہے لیکن سو فیصد سنّی تناسب رکھنے والے فلسطینی مسلمانوں کی تحریکِ آزادی یعنی حماس کو دہشت گردقرار دے رکھا ہے، وہ حماس جس کی اپنی آئیڈیولوجی پر گہری سلفی چھاپ ہے۔

سعودی عرب سنّی ہے لیکن یمن کے سنّیوں کے مقابل دہائیوں تک زیدی شیعہ حکمرانوں کی سپورٹ کرتا رہا کیونکہ وہ اس کے اتحادی تھے۔ لیکن جیسے ہی ان ہی زیدی شیعوں میں سعودی عرب کا مخالف ایک گروپ اٹھا، سنّی فرقہ وارانہ کارڈ فوراً نکال لیا گیا، زید یوں /حوثیوں پر ایرانی ایجنٹ ہونے کا الزام دھرا اور اور سنّی شیعہ کی تفریق کئے بغیر یمنیوں پر بمباری شروع ہوگئی۔

سعودی عرب مسلک کے لحاظ سے سلفی و حنبلی ہے لیکن پڑوسی سلفی و حنبلی ملک قطر کا خطے کے غیر سلفی و غیر حنبلی ممالک (امارات، بحرین، امارات، مصر) وغیرہ کے ساتھ مل کر کئی ماہ تک بدترین محاصرہ کیے رکھا کیوںکہ قطر سنّی مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں حماس اور اخوان المسلمین کا پشت پناہ اور مددگار ہے۔

بجا کہ ان ریاستوں کے حکمرانوں کے مسلک بھی ہوتے ہیں اور مسلکی عصبیتیں بھی۔ لیکن سیاست بڑی ظالم شئے ہے۔ انسان کو سخت عملیت پسند بنا دیتی ہے۔

اورنگزیب عالمگیر جیسے کٹر مولوی اور اینٹی ہندو، اینٹی شیعہ بادشاہ کا بھی عملی مصلحتوں کے پیش نظر یہ حال تھا کہ اس کے دور میں بیوروکریسی میں ہندوؤں اور شیعوں کی تعداد اکبر جیسے سیکولر بادشاہ کے دور کے مقابل کہیں زیادہ تھی۔ یہ تو پھر جدید دور کی قومی ریاستوں کی سیاست ہے۔ آپ کے محلے کے مولویوں کا تھیٹر نہیں ہے۔ اس میں سنّی وہابی شیعہ کارڈ صرف وہاں تک چلتے ہیں جہاں تک سوُٹ کریں۔ اس کے آگے راسخ العقیدہ سنّی بھی سنّیوں سے آنکھیں پھیر کر یہودیوں اور رافضیوں کا یار بن سکتا ہے اور کٹر شیعہ بھی شیعوں کو اکیلا چھوڑ کر سلفیت زدہ سنّیوں اور مسیحیوں کی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔

تحریر: احمد الیاس