میں نے ترجمہ قرآن پڑھانے کی ضرورت، اہمیت اور افادیت پر ایک پوسٹ لکھی جسے ایک طرف بہت زیادہ پسند کیا گیا دوسری طرف مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بہت سے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں بہت محنت اور تن دہی سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں.
اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی محنت کو قبول فرمائے اور ان کے کام کو مزید ترقی عطا فرمائے آمین
اسی ضمن میں کئی ایک دوستوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اس طرح ہر فرقہ اپنے فرقے کا ترجمہ پڑھائے گا اور اس سے اصلاح احوال کے بجائے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی.
تو
میں یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
ہمارے ملک میں اہل سنت کے مکاتب فکر یعنی بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث اپنی تمام شاخوں کے ساتھ فرقے نہیں ہیں
کیونکہ فرقہ عقائد میں اختلاف سے وجود میں آتا ہے اور ان سب میں ان امور میں کوئی اختلاف نہیں جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمان اور اسلام کی تعریف کرتے ہوئے گنوایا ہے یعنی جو اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ان میں اختلافات نہ ہونے کی وجہ سے یہ الگ الگ فرقے نہیں ہیں البتہ بعض مسائل میں تعبیرات کے اختلافات ہیں جو دنیا اور آخرت میں کہیں بھی تصفیہ نہیں ہو سکیں گے.
رہا شیعہ سنی اختلاف تو بنیادی طور پر یہ اختلاف عقیدے کا اختلاف نہیں تھا بلکہ سیاسی اختلاف تھا کہ خلافت کا اولین مستحق کون تھا. یہ سیاسی مسئلہ ہے جسے زبردستی عقیدے میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد عقائد جنم نہیں لے سکتے تھے.
تاہم جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو ایران اور سعودی عرب دونوں ممالک سے سرکاری طور پر طبع ہونے والے مصاحف میں ذرہ برابر کوئی فرق اور اختلاف نہیں ہے لہذا قرآن پر بھی اتفاق ہوا
البتہ قرآن کے ہر مترجم کا اسلوب، زبان و بیان، منھج، محاورہ اور الفاظ کی دروبست دوسرے سے مختلف ہوتی ہے جس سے قرآن پاک کے اصل مفہوم میں فرق نہیں پڑتا.
اس لئے
آپ کاتعلق جن اہل علم سے ہے اور جنہیں آپ مستند سمجھتے ہیں ان کا ترجمہ بے خطر زیر مطالعہ لے آئیں، اس سے فرقہ واریت نہیں پیدا ہو گی بلکہ اللہ سے تعلق مستحکم ہو گا.
یوں ہمارے ملک میں ایسے تراجم بھی موجود ہیں جن کی صحت پر تمام مکاتب فکر کے اہل علم کا اتفاق ہے.
اعانکم اللہ
طفیل ہاشمی