“تصوف = متوازی دین”
قیصر شہزاد
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا مشہور و معروف ارشاد ہے کہ تصوف ایک متوازی دین ہے جس میں دین ِ اسلام کے متوازی تمام عناصر موجود ہیں مثلاً توحید کے متوازی وحدت الوجود، وحی کے متوازی کشف و الہام، نبوت کے متوازی ولایت وغیرہ ۔
ہمارا گمان یہ ہے کہ غامدی صاحب کے اس ارشادِ گرامی کو بذاتِ خود جتنی توجہ اور جس قدر اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ نہ تو ان سے اتفاق کرنے والوں نے دی اور نہ ان سے اختلاف کرنے والوں نے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں اس سے جہاں ایک طرف تصوف کا درست تناظر میں دفاع نہیں کیا جاسکتا وہیں خود غامدی صاحب کی تنقیدِ تصوف کی انفرادیت اور نیا پن سامنے نہیں آسکتا ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس مقدمے کو جو ان کی تصوف بارے تحقیق کا حاصل دکھائی دیتا ہے موضوعِ فکر بنایا جائے۔ ایسا کرنے کی سب سے پہلی شر ط یہ فرض کرنا ہے کہ یہ دعوی وہ نہایت سنجیدگی سے فرمارہے ہیں یعنی اس میں شامل الفاظ انہوں نے سوچ سمجھ کر چنے ہیں، الل ٹپ یا تہکمانہ انداز میں نہیں۔
تصوف کو غیر اسلامی اورناجائز سمجھنے والے ناقدین کا ایک طویل سلسلہ صدیوں سے چلا آتا ہے اگرہم غامدی صاحب کی تنقیدِ تصوف سے مذکورہ بالا دعوی نکال دیں یا اسے غیر اہم قراردیں تو پھر غامدی صاحب کی حیثیت صرف ایک مزید ناقدِ تصوف کی سی رہ جائے گی ، جو صوفیا ء کی کتابوں سے عبارتیں نکال کر انہیں اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ثابت کرتے یا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر اس دعوے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پھران کی حیثیت باقی ناقدین ِ تصوف سے بالکل منفرد دکھائی دیتی ہے۔ فلسفے کی معاصر تاریخ سے اگر مثال لانے کی اجازت ہو تو ہم کہنے کی جسارت کریں گے کہ ان کا یہ دعوی پہلے کے ناقدین تصوف سے بالکل اسی طرح الگ اور بڑا ہے جس طرح منطقی ایجابیت {لاجیکل پازیٹیوزم} والوں کی تنقیدِ مابعد الطبعیات پہلے کے ناقدین مابعد الطبعیات سےمنفرد اور زیادہ اساسی نوعیت کی تھی۔ ان لوگوں سے پہلے زیادہ تر ناقدین مابعد الطبعیاتی جملوں کو غلط یا حدود ِ علم سے ماوراء ہونے کے باعث ناجائز دعووں پر مبنی سمجھتے تھے۔لیکن منطقی ایجابیت والوں نے کہا کہ یہ جملے {مثلاًً کائنات اپنی اصل میں روحانی/ مادی ہے} نہ غلط نہ درست بلکہ پاگل سکھ کے “اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال اف دی لالٹین” کی طرح لایعنی ہوتے ہیں ۔ اس منطقی ایجابیت کا منطقی انجام کیا اور کیسے ہوا اورتصوف متوازی دین کے اس دعوے کا انجام کیا اور کیسے ہوگا، اسے فی الحال جانے دیجئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غامدی صاحب کی نقدِ تصوف کی انفرادیت اور اہمیت کا دارومدار ان کے دلائل یعنی مقدمات پر نہیں بلکہ اس نتیجے کے صیغے پر ہے اور اگر اس نتیجے کے متعلق ہمارا اساسی مفروضہ درست ہے تو اس انفرادیت اور اہمیت کو سب سے پہلے تسلیم کرنا پڑے گا۔
کسی زمانے میں غامدی صاحب کی اپنی زبانی {ایک آڈیو کیسیٹ میں، بالمشافہہ نہیں کہ ان سے ملاقات کا شرف ہمیں کبھی حاصل نہیں ہوا}سنا تھا کہ وہ بنیادی طور پر فلسفے اور ادب کے آدمی ہیں/تھے اگرچہ ان سے متاثر متعد د افرادکی جانب سے جو خوش قسمتی سے ہمارے دوستوں کی فہرست میں شامل ہیں، فلسفے سے نفرت آمیز رویے کا اظہار ہوتا دیکھتے رہتے ہیں۔ ہماری دانست میں اس کے پیچھے ایک نفسیاتی عامل کارفرما ہے لیکن اس کی وضاحت شاید بات پوری ہونے پر خود ہی ہوجائے۔
اب آتے ہیں غامدی صاحب کے استنباط کردہ نتیجے کی طرف ۔ فلسفے سے معمولی شد ھ بدھ رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ جب تک آپ اپنی گفتگو خصوصا ً مباحثے یا تنقید میں آنے والے اہم الفاظ اور اصطلاحات کا معنی یا مراد متعین نہ کریں آپ کی تنقید اور بغیر تعریف متعین کیے آپ کو جواب دینے سے الجھاؤ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور اس موضوع پر بحث کے زیادہ حصے سے بھی یہی کچھ سامنے آرہا ہے۔ پرانے زمانے میں اس بات کو ایک اصول کی صورت میں یوں بیان کیا جاتا تھا: الحکم علی الشئ فرع عن تصورہ یعنی کسی چیز پر آپ {اچھے ،برے ، جائز یا ناجائز وغیرہ کا} جو حکم صادر کرتے ہیں، وہ آپ کے ذہن میں موجود اس کے تصور سے پھوٹتا اور اسی پر مبنی ہوتاہے۔ لہذا دعوے کرنے سے پہلے اپنے تصورات میز پر رکھیں تاکہ معلوم ہو کہ سب شرکاء بحث ایک ہی شے کے متعلق بات کرنے جارہے ہیں۔ خود غامدی صاحب پر جو سیکولرازم کے داعی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے جو بحثیں چلتی رہتی ہیں، ان کی مثال سامنے رکھ لیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے ابنِ عربی ، مجددالف ثانی ، شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ وغیرہ کی کتابوں کے اقتباسات کی روشنی میں جو نتیجہ برآمد کیا ہے اور جو ان کی تنقید کے نچوڑ کے طور پر جانا جاتا ہے اس میں شامل اہم الفاظ کی تعریف ہماری ناقص معلومات کی حد تک انہوں نے بحث کے سیاق میں کہیں متعین نہیں کی یعنی ‘تصوف’ اور ‘دین’ یا کم از کم ان پر بات نہیں کی۔ ‘ ان دو کے علاوہ ‘متوازی ‘ کا لفظ بھی غور طلب ہے اور اس کے مضمرات سامنے لانا اشد ضروری ہے۔اس دعوے کی اساسی اہمیت اور غامدی صاحب کی انفرادیت کے اس پر دارومدار کی روشنی میں ایسا کرنا بہت ضروری تھا اور ہے۔ یعنی اس پر بات ہونی چاہیے کہ تصوف کیا ہےاور جو کچھ وہ ہے وہ کس بنیاد پر ہیں، اور دین کیا ہے یعنی اگر کسی شے کے دین ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار کس ‘ایک ‘ چیز پر ہے تو وہ کیا شے ہے ۔ اسی دوسرے سوال کے جواب سے یہ بھی طے ہوسکتا ہے کہ کسی شے کے دین کے ‘متواز ی’ ہونے کا مطلب کیا ہے۔اس آخری وضاحت سے شاید قارئین کویقین آجائے کہ ہمارا مقصدانہیں لفظی بحثوں میں الجھانا نہیں نہ تعریفات کی فہرست سازی کرکے ایک ایک تعریف کی تنقیح اور ردوقبول کرنا ہے۔آخر ہم “دخل” در نامعقولات کررہے ہیں “اضافہ” در نامعقولات نہیں!!
چنانچہ ہمیں ‘تصوف’ اور ‘دین’ کے جوہری اور امتیازی وصف کو واضح کرنا ہے اور ‘متوازی پن’کی شرائط کو سامنے لانا ہے تاکہ غامدی صاحب کی جدت و انفرادیت کا حق بھی ادا ہوسکے اور تصوف کے متعلق بھی بات کچھ واضح ہوسکے۔ چونکہ’ دین’ کے حوالے سے بات نسبتاً سادہ تر ہے اس لیے شروع اسی سے کیے لیتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہمیں دین کی تعریفات کی فہرست سے دلچسپی نہیں ۔ ہم سوا ل کو نہایت سادہ ، آسان اور “ڈُو ایبل” بنانے کے لیے صرف یہ پوچھتے ہیں اگر کسی ایک اور صرف ایک عنصر کا نام لینا ہو جس کے ہونے سے کوئی نظام ِ تعلیمات ‘دین’ بن جائے اور جس کے نہ ہونے سے کوئی نظامِ تعلیمات دین نہ رہے، تو وہ عنصر کیا ہوگا؟
ظاہر ہے ہمارے اپنے ذہن میں اس سوال کا ایک جواب موجود ہے اور وہی ذکر کرنے کے لیے ہم سارا میلہ رچا رہے ہیں لیکن ہماری نہایت خوش قسمتی ہے کہ جو جواب ہم دینا چاہتے تھے وہ یا اس کی طرف اشارہ ہمیں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے اپنے گھر سے مل گیا۔ غامدی صاحب کے شاگردِ رشید اور دامادِ عزیز جناب حسن الیاس صاحب نے ایک مرتبہ غالباً تحریکی سوچ کا دف مارنے کی غرض سے فیس بک پر ہی یوں ارشاد فرمایا تھا : “اسلام ضابطہء حیات نہیں ، اسلام ضابطہء نجات ہے۔” اے سبحان اللہ ! بس اس ارشادِ گرامی کے نصفِ اول پر ہم فی الحال خاموش ہیں لیکن نصفِ دو م کو ہم دل و جان سے قبول کرتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ یہ صرف اسلام کے نہیں بلکہ ‘دین’ کے اساسی اور جوہری عنصر کا بیان ہے۔ دین وہ ہے جو نجاتِ اخروی {اَلٹی میٹ سالویشن } دلانے کا وعدہ کرے اور دعوی کرے کہ اس کے باہر نجاتِ اخروی ممکن نہیں{نجاتِ اخروی کی مخصوص نوعیت یہاں غیر متعلق ہے}۔ چنانچہ قرآن ِ پاک میں ارشاد ہے: ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : قولو لا الہ اللہ تفلحوا۔ اور بائبل میں عیسی علیہ السلام کا قول نقل ہوتا ہے : ” لوگ صرف اور صرف میرے ذریعے باپ کے پاس جا سکتے ہیں” انجیل یوحنا باب ۱۴ آیت ۶۔دیگر صحائف اور مذہبی کتابوں اور مذہبی روایت، رہنماوں کے بیانات اور عملی رویوں سے بھی اس نوع کے دعاوی بآسانی مل سکتے ہیں۔ لیکن مثالوں کے انبا ر لگانا مقصود نہیں ، ہم جو بات سامنے لانا چاہتے ہیں وہ سامنے آگئی: اگر کسی تعلیم میں نجاتِ اخروی کا واحد راستہ ہونے کا دعوی موجود نہیں تو وہ دین کہلانے کی مستحق نہیں، اسے آپ فلسفہ کہیے، مابعد الطبعیات کہیے یا کچھ بھی اسے آپ دین یعنی ریلیجن نہیں کہہ سکتے۔
اب ‘دین ‘ کے اس مفہوم کے تحت وہ تمام تعلیمات ایک دوسرے کے متوازی ٹھہریں گی جن میں سے ہر ایک نجاتِ اخروی کا دارومدار خود کو قرار دیتی ہے۔ چنانچہ یہودیت ، عیسائیت اور اسلام تین متوازی ادیان ٹھہریں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک خود کو حسن الیاس صاحب کی اصطلاح میں ‘ضابطہء نجات ‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اب دوسرے اہم لفظ ‘تصوف ‘ کی جانب آتے ہیں جس پر اس کا تصور یا جوہر ی عنصرغامدی صاحب نے متعین کیے بغیراسلام کے متوازی دین ہونے کا حکم لگا دیا ہے۔ وہ فرما سکتے ہیں کہ چونکہ تصوف دین ہی کی طرح ایک معروف اصطلاح اور شے ہے لہذا اس کی تعریف متعین کرنا غیر ضروری اور وقت کا ضیا ع ہے۔ لیکن ہمیں لگتا یہ ہے کہ جن چیزوں کو انہوں نے تصوف قراردیا اور جن پر تنقید کے نتیجے میں تصوف کو متوازی دین قرار دیا انہیں نہ صرف یہ کہ کبھی کسی تعریف و توضیحِ تصوف میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ صوفیا ء سمجھے جانے والے بہت سے لوگوں نے واضح طور پر انہیں تصوف سے غیر متعلق، غیرضروری، بلکہ مقصدِ تصوف کے لیے خطرنا ک قرار دیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ خود ابنِ عربی نے بھی تصوف میں وحدت الوجود یا کسی بھی نظریاتی یا فلسفیانہ عنصر کو شامل نہیں کیا اور یار لوگ انہیں تصوف میں فلسفے کی آمیزش کرنے والا کہتے آئے ہیں۔
نہ تو وحدت الوجود تصوف کا اساسی عنصر ہے نہ وحدت الشہود، نہ کشف، نہ الہام، ۔ ایک انسان وحد ت الوجود کو مانے بغیر صوفی ہوسکتا ہے{شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ کو قادری سلسلے کا صوفی قرارد یا جاتا ہے اور تصوف کے متعلق ان کا رویہ خود عرب علماء کے باعثِ نزاع ہے۔ برسبیلِ تذکرہ غامدی صاحب تصوف کو عالمگیر ضلالت قراردیتے ہیں اور اہلِ حدیث مکتبِ فکر کی اس بنیاد پر تعریف کرتے ہیں کہ وہ برصغیر میں تصوف کی ضلالت سے بچنے والا واحد مذہبی گروہ ہے} اور وحدت الوجود کو ماننے والا شخص غیر صوفی بلکہ غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ یہی غامدی صاحب کے ہدفِ تنقید بننے والے دیگر عناصر کا معاملہ ہے۔
چنانچہ جن نظریات و اعمال کو وہ غیر اسلامی کہہ کر تصوف پر حکم لگاتے ہیں اگر وہ غیر اسلامی ثابت ہوبھی جائیں تو تصوف کا بال بیکا بھی نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ چیزیں تصوف کے جوہر سے تعلق نہیں رکھتیں اس لیےغامدی صاحب کا استدلال مغالطہء عملِ ناجائز {نان سیکویتُر: ‘چاول سفید ہیں لہذا زمین گول ہے’}ٹھہرتا ہے کہ نتیجہ مقدمات سے منطقی طور پر برآمد نہیں ہوتا۔ اگر ہم ان کے مقدمات تسلیم کربھی لیں تو تعارض میں الجھے بغیر نتیجے کا انکار کرسکتے ہیں۔
لہذا اس نکتے پر ان سے مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ حضور تصوف پر آپ کی تنقید تصوف پر نہیں کسی اور چیز پر ہے، تصوف تو دور کھڑا آپ پر {اور ہم پر بھی} ہنس رہاہے!
یہاں تک ہم نے یہ کہا کہ ‘دین ‘ کا جوہری عنصر ‘واحد/منفرد ضابطہ ء نجات ِ اخروی ‘ ہونے کا دعوی ہے اوروحدت الوجود وغیرہ تصوف کا جوہری عنصر {‘فلسفیانہ تصوف ‘کے نمائندے سمجھے جانےوالوں کے ہاں بھی } نہیں۔ یہا ں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارا پہلا دعویٰ ایجابی نوعیت کا جب کہ دوسرا سلبی نوعیت کا ہے، یعنی ہم نے دین کا جوہر ی عنصر تو بتادیا لیکن تصوف کا جوہر ی عنصر بیان نہِیں کیا۔ یہ بتایا ہے کہ تصوف کیا نہیں ہے، یہ نہیں بتایا کہ تصوف کیا ہے۔ اس سے بحث کرنا کہ تصوف کیا ہے ہمارے مرکزی مقصد کے پیشں نظر ہمارےلیے ضروری نہیں ۔ہم صرف یہ کہہ رہے کہ کہ آپ جسے تصوف کہہ رہے ہیں 1عق سوچ وہ تصوف نہیں ہے۔اگر ہمیں اس موضوع میں جانا ہو تو سب سے پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ تصوف کا مفہوم کون طے کرے گا اور کیسے۔ جس طرح ‘غامدیت’ نامی شے پر حکم لگانے سے پہلے اس کی تعریف متعین کرنا ہوگی لیکن اس سے پہلے یہ جاننا پڑے گا کہ کس کی بیان کردہ تعریف مانی جائے گی، مولانا زاہد الرشدی صاحب کی ، محمد دین جوہر صاحب کی، قاری حنیف ڈار کی یا پھر کوئی جاکر خود غامدی صاحب کو بھی زحمت دے گا یا نہیں۔ لہذا یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن چیزوں کو ہم تصوف کے جوہر سے باہر نکال رہے ہیں ان کا غیر اسلامی ، غلط یا کفریہ ہونا ہم لازماً یہاں تسلیم نہیں کررہے بلکہ اسے الگ موضوع سمجھتے ہیں جس سے ہمیں فی الوقت کوئی دلچسپی نہیں۔
اچھا اب غامدی صاحب کے اساسی دعوے میں شامل دونوں اہم الفاظ کے متعلق ہم نے اپنی گذارشات پیش کردیں۔ اب تیسرے لفظ “متوازی” کے حوالے سے ایک چھوٹی سی بات عرض کرکے ہم اپنی بات کا نتیجہ نکالتے ہیں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں ‘متوازی’ بنیادی طور پر جیومیٹری کی اصطلاح ہے اور ان دو خطوط کے متعلق استعمال کی جاتی ہے جن کا ایک دوسرے سے فاصلہ ہمیشہ یکساں رہے اور جو کسی بھی نکتے پر ایک دوسرے کو مَس نہ کریں۔ اب کشف و الہام یا وحد ت الوجو د و شہود کسی نکتے پر اسلامی عقیدے کو مس کرتی ہیں یا نہیں اسے رہنے دیں، نوٹ یہ کریں کہ متوازی ہمیشہ دو {یا زیادہ} ‘خطوط ‘ ہوتے ہیں۔ ایک خط کسی دائرے کے متوازی نہیں ہوسکتا {یہاں ہم پر کپکپی طاری ہورہی ہے کہ یارِ من عاصم رضا کی سلطنت میں پاوں رکھ دیا ہے، لیکن اب موصلوں کا کیا ڈر}لہذا اگر وحدت الوجود /کشف وغیرہ اسلام کے متوازی دین ہیں تو پہلے آپ کو ان کا ‘دین ‘ ہونا ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ آپ کیسے کریں گے؟ ایلیمنٹری ، مائی ڈئیر واٹسن!!دین کا جوہر{اللہ بھلا کرے پھر دین محمد جوہر یاد آگئے} آپ اوپر نکال کر رکھ آئے ہیں ، ذرا اسے لائیے اوردیکھئے کسی نے کبھی دعوی کیا کہ وحدت الوجود یا وحدت الشہود کو ماننا آخرت میں نجات کے لیے ضروری ہے؟ یا اگر آپ کسی روحانی ہستی کے کشف کونہیں مانیں گے تو آپ جہنم میں جائیں گے؟ اگر آپ دکھا دیں تو آپ کا یہ دعوی سچ ثابت ہوگا کہ یہ نظریات {تصوف نہیں}اسلام کے ساتھ ایک متوازی دین کھڑا کرنے کی کوشش ہیں۔ اور اگر نہ دکھاسکیں تو آپ کی تنقید کی حیثیت دیگر تمام ناقدینِ جیسی رہ جائے گےجو کسی عبارت یا عمل کے اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ، یا خطرناک عملی نتائج کا حامل ہونے کے قراردیتے آئے ہیں۔ ان لوگوں کے دلائل سے قائل ہونے والے بھی لاتعداد رہے ہیں اور انہیں غلط سمجھ کر رد کرنے والے بھی اور ہمیں فی الوقت ان میں سے کسی گروہ میں شامل ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمیں دلچسپی آپ کے نئے پن اور انفرادیت سے تھی جو ہمیں خطرے سے دوچار نظرآتی ہے۔کس واسطے کہ آپ کا دعوی تصوف کے متوازی دین ہونے کا ہے لیکن اس دعوے میں شامل نہ تو تصوف تصوف ہے نہ دین دین اور متوازی ہونے کا تو سوال ہی کیا۔
واللہ اعلم بالصواب