(وہابیہ اور غامدیہ کی خدمت میں ایک نارمل مسلمان کی کچھ گزارشات)
”کلچرل مسلمان“ کی اصطلاح کئی قارئین نے سن رکھی ہوگی۔ یہ اصطلاح ان افراد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو عقیدے کے اعتبار سے مسلمان نہیں رہتے لیکن پھر بھی عام مسلمانوں کا سا رہن سہن رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ السلام علیکم، وعلیکم السلام، ماشاء اللہ، انشاء اللہ جیسے کلمات ادا کرتے ہیں۔ عیدین، رمضان اور عاشور جیسے اسلامی ایونٹس کے اہتمام میں شریک رہتے ہیں، حتیٰ کہ عید اور جمعہ کی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں۔ بچوں کے نام مسلمانوں والے رکھتے ہیں اور ولادت، ازدواج اور مرگ وغیرہ پر اسلامی رسومات کی پابندی کرتے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں بہت سے ملحدین اور متشککین ایسے ہی ہیں۔
”کلچرل مسلمان“ کے اس فینومینا سے ہمیں علم ہوا کہ اسلام اپنی اصول میں عقیدہ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ایک کلچر، ایک ثقافت، ایک تمدن بھی وابستہ ہے جس کے سب سے عام مظاہر وہ ہیں جن کا ہم نے کلچرل مسلمانوں کے حوالے سے ذکر کیا۔ لیکن یہ تمدن صرف چند کلمات، تہواروں اور ولادت و ازدواج و مرگ کی رسومات تک محدود نہیں ہے۔ اس میں اسلامی آرٹ بھی ہے مثال کے طور پر مسلمانوں کا خاص فنِ تعمیر، خطاطی، سماع اور ادب وغیرہ جو بہت سے غیر مذہبی، حتیگھر ہ الحاد تک پہنچ جانے والے مسلم الاصل لوگوں کو بھی اپنائیت کے احساس کے ساتھ متاثر اور متوجہ کرتا رہتا ہے۔ اس میں تصوف بھی ہے جو اسلام کے الہامیِ اصولِ تزکیہِ نفس کی بشری روایت کا نام ہے اور اپنے ثقافتی مظاہر کے ذریعے بے شمار ایسے لوگوں کو بھی بلواسطہ طور پر ہی سہی، دین سے جوڑے رکھتا ہے جو خالص دین دار نہیں ہیں اور شاید اعتقادی طور پر کمزور ہیں۔ اس میں اسلامی علم الکلام بھی ہے جس کے تحت الشعوی ذہنی اثرات سے مسلم پس منظر رکھنے والے ملحد و متشکک و لا ادری بھی نہیں نکل پاتے۔ اس میں فقہ بھی ہے جو الہامی قانون کی بشری تفہیم ہے اور ہمارے تمدنی تجربے کا لازمی جزو ہے۔ یوں یہ رسومات، فنونِ لطیفہ، تصوف، علم الکلام، فقہ۔۔۔ سب مل کر ایک تہذیب بناتے ہیں جو اسلامی عقیدے اور قرآن و سنت کی طرح الہامی نہیں ہے لیکن اسی عقیدے اور قرآن و سنت سے وابستہ بشری تفہیمات اور تجربات کا لازمی نتیجہ ہیں۔ یہ تہذیب کروڑوں لوگوں کو کسی نا کسی سطح پر دین سے جوڑے رکھتی ہے جو اعتقادی اعتبار سے مضبوط نہیں ہیں یا قرآن و سنت پر سختی سے عمل کرنے کی روحانی قوت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ انسانی معاشرے میں ایسے متقی و پرہیز گار اور اچھی روحانی صلاحیت کے حامل لوگ جو صرف عقیدے کے زور پر بھی مسلمان رہ سکتے ہوں، کم ہی ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو خدا کے دین سے کسی نا کسی طور جوڑے رکھنے کے لیے یہی تہذیبی سہارے درکار ہوتے ہیں، اگرچہ یہ تہذیبی سہارے خدا کی طرف سے نا ہوں اور فقط بشری ہوں۔
یہ تہذیبی سہارے کس قدر اہم ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک واقعے سے کیا جاسکتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کا فتویٰ تھا کہ تعزیہ داری ناجائز ہے لیکن ایک بار انہیں بتایا گیا کہ راجھستان کا ایک دور دراز گاؤں ایسا ہے جہاں کے مسلمان پوری طرح ہندو رنگ میں ڈوبے ہیں، ان کے نام بھی آدھے ہندوانہ اور آدھے اسلامی ہیں، ان میں سے کسی کو اسلامی عقائد کا کوئی علم ہے نا کوئی عبادت کرنی آتی ہے۔۔۔ گویا وہ پوری طرح محض نام کے مسلمان ہیں۔ ہاں مگر وہاں سال میں ایک مرتبہ، محرم الحرام کے ماہ میں تعزیہ برآمد ہوتا ہے۔ یہی ایک ایسا کام ہے جو اس گاؤں کے مسلمان کہلوانے والے لوگ کرتے ہیں اور ہندو کہلوانے والے لوگ نہیں کرتے، اس کے علاوہ وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ وہ گاؤں اتنا دور افتادہ ہے کہ وہاں کوئی مولوی صاحب مستقل طور پر جا کر ان کی اصلاح بھی نہیں کرسکتے۔ اس صورتحال کو سن کر مولا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا کہ گرچہ تعزیہ داری میرے نزدیک غلط ہے، لیکن اس گاؤں کے مسلمانوں کو تعزیہ داری کسی صورت نہیں چھوڑنی چاہئیے کہ یہی ان لوگوں کا دین سے واحد ذہنی رابطہ ہے۔ صرف اسی تہذیبی چیز سے انہیں کچا سا احساس رہتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
میں ذاتی طور پر ایسے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی جانتا ہوں جو ذہنی و فکری طور پر متشکک، بلکہ سخت ملحد ہوگئے لیکن تہذیبی طور پر مسلمان رہے۔ ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ ان کی تشکیک اور الحاد دیرپا ثابت نہیں ہوئی، وہ آخر کار عقیدے کی طرف واپس آگئے اور بعض تو عملی دین داری میں بھی ہم جیسوں سے آگے نکل گئے جو کبھی تشکیک اور الحادکا شکار نہیں ہوئے۔اس کے برعکس جن لوگوں نے مسلمانوں کے ثقافتی مظاہر سے بھی پیچھا چھڑایا، وہ کبھی گھر(اسلام میں) واپس آتے نا دیکھے گئے۔
دراصل زندگی جسم و روح کے بندھن کا نام ہے۔ عقیدے اور ایمان کا تعلق روح سے ہے تو تہذیب کا تعلق جسم سے۔ جب ہم زندگی میں اسلام لانے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں جسم و روح دونوں پر اسلام لانا پڑتا ہے۔ یوں تہذیب کے ٹھوس (tangible) میڈیم کے بغیر الہامی اور اعتقادی دین بھی کبھی پائیدار نہیں ہوتا۔
اس نکتے کے حوالے سے مسلمانوں میں اس وقت تک کوئی الجھن پیدا نہیں ہوئی جب تک ان کے دنیاوی حالات ٹھیک تھے اور خود اعتمادی قائم تھی۔ لیکن اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں پر یہ انکشاف ہونا شروع ہوا کہ وہ مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اوران کی طاقت جاتی رہی ہے تو سب مسلمانوں نے تو نہیں، لیکن کئی مسلم ذہنوں نے سوال کرنا شروع کیا کہ ایسا کیوں ہوا؟
جن کم فہم لوگوں نے اس کا سبب دین کو قرار دے کر دین چھوڑنا تھا وہ تو چھوڑ گئے لیکن جو دین کے دائرے میں رہے انہیں یہ احساس ہوا کہ اللہ کا دین، یعنی اسلام کی اعتقادی اور کتابی بنیاد تو بے نقص ہے لیکن اس کے اوپرجو بشری تہذیبی عمارت کھڑی کی گئی ہے، اس میں مسائل ہیں، یہ بوسیدہ ہورہی ہے، نئے حالات کے مطابق اس میں رہنے میں مسائل کا سامنا ہے۔ مولانا شبلی، علامہ اقبال،حسن البنّا، مولانا مودودی، سعید نورسی، علی شریعتی جیسے معتدل مفکرین نے تو اس ضرور پر زور دیا کہ اس عمارت کی مرمت کی جائے، اس میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کو دور کیا جائے۔ ان بزرگوں نے بتایا کہ اسلام میں اصلاحِ دین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اصلاحِ فہمِ دین کی گنجائش اور ضرورت موجود ہے۔ یعنی عقیدہ تو وہی ہے جو قرآن میں ہے لیکن علم الکلام میں نئی راہیں کھل سکتی ہیں اور کھلنی چاہئییں۔ روحانی مبادی تو وہی رہیں گے جو نبیِ آخر الزمان ﷺ نے سکھا دئیے لیکن اصلاحِ تصوف ایک حقیقی امکان اووقت کا تقاضا ہے۔ شریعت تو ایک انچ تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن لیکن فقہ پر طاری جمود توڑا جاسکتا ہے اور توڑنا چاہئیے۔ اس ضمن میں ان مفکرین کو روایتی و کلیسائی علماء کی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی ہوا لیکن یہ بزرگان ڈٹے رہے۔
ان معتدل مفکرین کے علاوہ امت میں ایسے دو گروہ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام کی اس تہذیبی عمارت سے ایسی بیزاری محسوس کی کہ اس کی مرمت و اصلاح کی بجائے اس کے انہدام اور مسماری کا علم بلند کردیا۔
ان میں پہلا گروہ وہابی تحریک ہے جو جدید دور میں مسلمانوں کی پہلی بنیاد پرست تحریک تھی۔ اس تحریک کے نزدیک دین کی الہامی بنیادیں ہی کافی ہیں۔ تہذیبی عمار ت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ خود یہ تحریک بھی تہذیبِ اسلامی کی عمارت یعنی کلام و فقہ و تصوف و فنونِ لطیفہ کو مسمار کرکے مرحوم محمد بن عبدالوہابؒ اور دیگر وہابی علماء کی فہمِ دین کا خیمہ لگا کر ہی بیٹھے رہے کیونکہ ظاہر ہے، کھلے آسمان تلے کون بسر کرسکتا ہے؟
(نوٹ: اٹھارہویں صدی عیسوی میں اٹھنے والی وہابی تحریک کوتیرہ سو سال قدیم اہلِ حدیث مکتبِ فکر سے الگ رکھنا بہت ضروری ہے جو اسلام کا ایک انتہائی شاندار، قدیم، کلاسیکی اور واجب الاحترام مکتبِ فکر ہے اور خود بھی اسلام کی تہذیبی عمارت کی شان و شوکت بڑھاتا ہے)۔
مسلم تہذیبی روایت سے پوری طرح بیزار اور مایوس ہوجانے والا دوسرا گروہ وہ ”جدت پسند“ مفکرین ہیں کہ جن کے لیے میں بطورِ خاص تمدنی مرتد کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔ ان لوگوں کے عقیدے اور ایمان پر شک کرنے یا سوال اٹھانے کا ہمارے پاس کوئی شرعی واخلاقی جواز نہیں اس لیے ہم انہیں مسلمان ہی مانتے اور کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ان کا ایمان ہم سے کہیں زیادہ بہتر اور مضبوط ہو۔ لیکن یہ گروہ وہ ہے کہ عقیدے اور عبادات کے علاوہ کسی شئے میں مسلمان رہنے کا روادار نہیں، ہاں مگر وہابی تحریک کی طرح خیمہ نشین ہونے کی بجائے اسلامی عقیدے کی بنیادوں پربالکل مغربی طرز کی تہذیبی عمارت ایستادہ کرنے کا خواہاں ہے۔ تصوف ہو یا فقہ اور علم الکلام، رسول کریم ﷺ اوراہلبیت اور صحابہ اور اولیاء سے مسلمانوں کی والہانہ جذباتی وابستگی ہو یا مسلمانوں کی اجتماعی دینی عصبیت۔۔۔ انہیں سب سے چِڑ ہے اوریہ ان سب چیزوں کو دین سے الگ سمجھتے ہیں۔ اس مکتبِ فکر کی آدھی ادھوری آوازیں ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہیں لیکن ہمارے دور میں جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت اس سوچ کی مکمل اور بھرپور شکل سامنے لائی ہے۔
اب ہمارے سامنے دو دل چسپ گروہ ہیں: ایک وہ گروہ کہ جو عقیدے میں مسلمان نہیں ہے لیکن تہذیب میں پھر بھی مسلمان ہی رہنا پسند کرتا ہے، خواہ کتنی ہی سطحی اور معمولی سطح پر۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو عقیدے میں پکا مسلمان ہے لیکن مسلمانوں کی تہذیب سے بیزار ہے، اگرچہ وہ عملی ضرورتوں کے پیش نظر اس تہذیب سے عملی طور پر پیچھا نا چھڑا سکے۔ پہلے گروہ کو ہم ثقافتی مسلمان کا نام دیتے ہیں اور دوسرے گروہ کو تمدنی مرتد کہتے ہیں۔
اگرکوئی مجھے پوچھے کہ ان دونوں گروہوں میں سے میں کس کو فوقیت دیتا ہوں تو میں پورے اعتماد سے جواب دوں گا کہ میرے نزدیک تمدنی ارتدادکی روش ثقافتی مسلمان کے فینومینا کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ثقافتی مسلمان چاہے مسلمان نا ہوں، لیکن ان کے پاس دین کی طرف واپس آنے کا ایک راستہ موجود رہتا ہے جبکہ تمدنی مرتدین یعنی ایک طرف وہابی تحریک اور دوسری طرف غامدی صاحب اور ان کے ہم خیال لوگ مسلمان ہوکر بھی اس تہذیبی راستے کو ہی بند کررہے ہیں جو بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو بھی دین سے جوڑے رکھتا ہے۔ یہ بے شمار عام لوگوں کے لیے اصلاح اور نجات کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
کوئی شخص ایسے علاقے اور خاندان میں پیدا ہو جو تہذیبی طور پر مسلمان نہیں ہے اور وہ عقیدہ و شریعت کی حد تک مسلمان ہوجائے اور تہذیبی طور پر چینی، یورپی، لاطینی امریکی، جاپانی،روسی یا افریقی رہے تو یہ اس کی انفرادی کرداری پختگی اور مضبوط ذہن اور روحانیت کی نشانی ہے۔ اسے تہذیبی طور پر مسلمان ہونے کا بھی نہیں کہا جاسکتا (اگرچہ دیکھا گیا ہے کہ نو مسلموں کو مسلم ثقافتی مظاہر میں پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ دل چسپی اور لگاؤ ہوتا ہے اور وہ غامدی صاحب سے کہیں زیادہ مسلم تہذیب کا احترام کرتے ہیں)۔ لیکن ایک شخص جو مسلمان تہذیب میں پیدا ہوا اور گھٹ کر صرف عقیدے کی حد تک مسلم رہ گیا تو اس نے اپنے ارد گرد سے دین کا ایک حفاظتی نظام ختم کرلیا۔
اگر اسی طرز عمل کو اجتماعی سطح پر فروغ دیا جانے لگے اور تہذیبی اسلام کی نفی کرکے صرف اعتقادی و الہامی اسلام تک محدود ہونے کے حوالے سے وہابی فرقے یا غامدی صاحب اور ان جیسے لوگوں کی بات مان لی جائے تو یہ ہوگا کہ بہت کم لوگ مسلمان رہ جائیں گے۔ اکثریت دین سے ہی برگشتہ ہوجائے گی۔ یہ چیز ہم سعودی عرب میں کسی حد تک دیکھ بھی رہیں ہیں جہاں کے مسلمانوں سے ان کی مسلم تہذیب چھین لی گئی او ر انہیں عقیدہ و شریعت تک محدود کیا گیا۔ اب سعودی عرب کے اکثرمقامی مسلمان اسلام کے لیے ویسا لگاؤ اور اپنائیت محسوس نہیں کرتے جیسا دیگر مسلم ممالک میں عام ہے۔ اب وہ جسٹن بیبر کے کنسرٹ سے سے ڈبلیو ڈبلیو ای تک، مغربی تہذیب کے پست ترین مظاہر سے عشق میں اس طرح مبتلاہوگئے ہیں جس طرح تہذیبی مسلمان عرس کے میلوں اور محرم و میلاد کے جلوسوں میں جاتے ہیں۔
مسلمانوں کا مسئلہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے یہ ہے کہ وہ تقلید سے آزاد اور اپنی تہذیب سے بیزار ہوتے جارہے ہیں مگر اجتہاد اور اصلاحِ تہذیب کا نا ان کے اندر حوصلہ ہے نا اہلیت۔ نتیجہ یہ کہ وہ اپنے بزرگوں کی تقلید سے نکل کر مغرب کی تقلید میں پھنستے چلے جارہے ہیں جو ان سے ہو نہیں پاتی کیونکہ شرم آجاتی ہے اور اپنی تہذیب کو چھوڑ کرمغربی تہذیب میں منتقل ہونا چاہتے ہیں لیکن وہاں بھی اعتقادی اسلام آڑے آجاتا ہے کیونکہ مغربی تہذیب کے کئی مظاہر اسلام کے بنیادی عقائد سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک طرف وہابی فرقہ اور دوسری طرف غامدی صاحب جیسے لوگ مسلمانوں میں آزادانہ اجتہاد کی صلاحیت پیدا کرنے اور انہیں خود اعتمادی پر مبنی خود احتسابی و اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی بجائے (یقینی طور پر نادانی، کم علمی اور انجانے میں) اسلام کے بنیادی عقائد اور مغربی تہذیب کے کئی اساسی مظاہر میں تضاد سے ان کی توجہ ہٹا کر اور انہیں مسلم تہذیب سے نکلنے میں مدد فراہم کرکے آخر کار ان کے دین سے فرار کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔
احمد الیاس
