رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُمت کے لیے بطور مرکزِ رشد و ہدایت دو چیزیں، دو اتھاریٹیز چھوڑ کر گئے ہیں : کتاب اور اہلبیت۔
کتاب میں قرآن اور سنت دونوں شامل ہیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور سنت میں رسول کریم صلی اللٰہ علیہ و آلہ وسلم کے تعلیم کردہ فرائض بھی ہیں اور مستحبات بھی۔
سنت دو طریقوں سے ہم تک پہنچی ہے : عملی تواتر اور علمی تواتر۔ علمی تواتر کے ریکارڈ اور ریکارڈ کو جانچنے اور سجھنے کا نام حدیث اور علم الحدیث ہے۔ دونوں ذریعوں سے پہنچنے والی سُنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ثابت ہوجائے تو سنت قرآن کی طرح حجت ہے۔ قرآن اسلام کا تحریری دستور ہے اور سنت اسلام کا کیس لاء / کامن لاء۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
اہلبیت لفظ کے تین معنی ہیں :
پہلے معنی میں یہ رسول کریم کا سارا Household ہے۔ آپ کے والدین، آپ کو دودھ پلانے والی یا آپ کی پرورش میں حصہ ڈالنے والی تمام خواتین جنہیں آپ نے ماں کہا (مثلاً ام ایمن، حلیمہ سعدیہ، فاطمہ بنت اسد)، آپ کے مسلمان چچا حضرات اور پھپھی صفیہ، رضاعی بہن بھائی اور چچا زاد بہن بھائی، چاروں بیٹیاں اور تینوں بیٹے، سب نواسے نواسیاں، تمام امہات المومنین، غلام اور کنیزیں، سیدّنا زید بن حارث اور اسامہ بن زید اور سیدّنا سلمان فارسی ۔۔۔۔ الغرض بڑی تعداد میں لوگ شامل ہیں۔ یہ سب نسبتِ رسولؐ سے احترام اور مودت کر مرکز قرار پاتے ہیں۔
دوسری معنی میں یہ آپ کی گھر والیاں یعنی ازواج مطہرات ہیں۔ قرآن میں ایک مقام پر ایک خاص پس منظر میں اسی معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان کے حوالے سے خاص شرعی حکم ہے کہ یہ پاک بیبیاں رسول کریم ص کے بعد نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔
تیسرے معنی میں یہ وہ لوگ ہیں جو آل الکساء یا پنجتن پاک کہلاتے ہیں اور مباہلہ میں بھی رسولؐ کے ساتھ تھے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ رسولؐ کی آل اللہ کے حکم سے ان سے چلی۔ صدقہ و ذکات کی حرمت بھی ان کی اور ان کی آل کے حوالے سے آئی ہے اور مال غنیمت کا خُمس بھی ان کے نام پر وقف ہو کر اسلام کے فلاحی نظام کی بنیاد بنتا ہے۔ شان نزول کے اعتبار سے مفسرین نے سورہ کوثر کو بھی ان ہی کے حوالے سے سمجھا ہے۔
شریعت کی ماخذ اہلسنت اور اہل تشیع میں صرف رسول اللہ ص کی ذات ہے ۔اہلبیت شریعت کی تفہیم اور تشریح کے ضمن میں علمی و روحانی اتھارٹی قرار پائے ہیں۔
امامیوں یعنی اہل تشیع کے ہاں وہ اللہ کیطرف سے منصوص و معصوم ہیں۔ ہمارے نزدیک رسول اللہ ص کی نسبت سے ان کو یہ اعجاز حاصل ہے۔ علی بن ابیطالب کے تاویل قرآن پر جنگ کرنے، علی مع الحق و حق مع العلی، صلحِ حسن و شہادت حسین کے حوالے سے متعدد احادیث اس پر شاہد ہیں اور اہلسنت کا ہمیشہ اجماع رہا ہے کہ مشاجرات میں علی و حسنین ہی برحق یا کم از کم احق تھے۔
قرآئن اور احادیث کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ ثقلین یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑے ہوئے دو مراکزِ رشد و ہدایت میں یہی ارکانِ اہلبیت مراد ہیں جو آل الکساء، اہلِ مباہلہ، آلِ رسول ص اور ساقیانِ کوثر ہیں۔ کنفیوژن اور اختلاف کی صورت میں کتاب یعنی قرآن و سنت کے بعد علی و حسنین کریمین علیہم السلام کی طرف دیکھنے کا ہی حُکم ہے۔
احمد الیاس