جاوید احمد غامدی صاحب کا متکبرانہ عجزاورمتشددانہ اعتدال

نکولس نسیم طالب لکھتا ہے کہ جسے عاجزی کہا جاتا ہے، وہ اکثر کامیابی سے چھپایا گیا تکبر ہوتا ہے۔ صوفیائے کرام فرماتے آئے ہیں کہ سب سے برا تکبر عاجزی کا تکبر ہے۔شاید یہ محض اتفاق نہیں کہ فی زمانہ صوفیاء کے سب سے بڑے ناقد جاوید احمد غامدی کی توصیف ان کے مزاج میں مبینہ طور پر پائے جانے والے عجز و انکسار کے حوالے سے ہوتی ہے لیکن ان کا یہ عجز و انکسار ان کے پیرو کاروں میں منتقل نہیں ہوسکا۔ انسانی نفسیات کے تمام اسرار و رموز جاننے کا کوئی دعویٰ تو نہیں ہے لیکن سادہ سا مشاہدہ ہے کہ غامدی صاحب کے انکسار اور ان کے پیرو کاروں کے تکبر کا یہ تضاد دراصل تضاد نہیں ہے بلکہ خود غامدی صاحب کی عاجزی کسی قدر کامیابی سے چھپایا گیا تکبر ہی ہے۔ اس تکبر کو عاجزی کا یہ تکبر بھی شاید دو آتشہ کررہا ہے۔

غامدی صاحب کی اعتدال پسندی کے قصیدے بھی ہم اکثر سنتے ہیں۔ یہ ہمارے انتہائی فکری و علمی افلاس کی نشانی ہے کہ صرف نیچی آواز، دھیمے لہجے اور دینی معاملات پر معذرت خوہانہ رویوں کو اعتدال سمجھا جانے لگا ہے وگرنہ اہم اور بنیادی نوعیت کے مسائل پر غامدی صاحب کے موقف انتہائی متشددانہ اور انتہاء پسندانہ ہیں۔ مثال کے طور پر تصوف کے حوالے سے انہوں نے ملک فضل الرحمان کی مخصوص سیاق و سباق اور معنی میں کی گئی یہ لائن اڑا لی ہے کہ تصوف متوازی دین ہے اور اسے سمجھے بغیر جنرلائز کرکے اسلامی تصوف کے حوالے سے فائر کرتے رہتے ہیں۔ (غامدی صاحب نے قریب سب اچھوتی باتیں ملک فضل الرحمان، امین احسن اصلاحی اور چند دیگر بزرگوں سے ہی اڑائی ہیں۔ ان کے اوریجنل افکار نا ہونے کے برابر ہیں)۔ جس شخص نے بھی عالم اسلام کی چودہ سو سالہ تہذیبی و فکری تاریخ کا بنیادی مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ لائن جنرلائزڈ سینس میں کس قدر انتہاء پسندانہ بات ہے۔ بندوق کی نالی اور لہجہ و الفاظ کی کرختگی سے ہٹ کر غامدی صاحب کے اس موقف اور انتہاء پسند وہابیوں (مثال کے طور پر داعش) کے موقف میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ موجودہ عالمی حالات میں تکفیر کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور غامدی صاحب نے مغرب و مغرب زدہ طبقے کی حساسیت کا خاص لحاظ رکھنا ہوتا ہے لہذا وہ صوفیوں کی کھلے عام تکفیر نہیں کرسکتے مگر اسلامی تصوف کو اسلام سے علیحدہ کرکے وہ امام غزالی، عبدالقادر جیلانی، شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ سمیت کوئی بارہ و سال کے تمام مسلم اکابر کو ملفوف انداز میں دائرہِ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انتہاء پسندی کیا ہوگی۔ غامدی صاحب کے پیرو کار لاکھ صفائیاں دیتے رہیں کہ تصوف کو متوازی دین کہنا صوفیاء کی ہلکی آنچ پر تکفیر نہیں ہے لیکن ان صفائیوں کا بھید تب کھلتا ہے جب خود غامدیت کو اسلام کےمتوازی دین کہا جائے۔ اس بات کو غامدی صاحب کا مکتب فکر تکفیر کے طور پر ہی لیتا ہے اور انتہائی برہم ہوجاتا ہے۔ ہم صوفیاء کے پیروکار ہونے کے ناطے واقعی تکفیر کے خلاف ہیں لیکن گستاخی کی معافی چاہ کر یہ کہنا چاہیں گے کہ غامدی صاحب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے بلکہ تعصبات کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس دائرے سے بہت آگے نکل رہے ہیں اور اس چکر میں خواہ مخواہ اس دائرے کو بھی خجل خراب کررہے ہیں۔

تصوف کے معاملے میں اگر آپ کو اعتدال پسندی پر موقف دیکھنا ہے تو سب سے پہلے علامہ اقبال اور ثانوی طور پر مولانا مودودی کا موقف دیکھیں۔ دونوں بزرگوں نے آج کی نسبت کہیں زیادہ صوفیانہ ماحول اور متصوفانہ معاشرے میں رہ کر صوفیاء کی غلطیوں (مثال کے طور پر ترکِ دنیا، سیاستِ اسلامیہ سے لاتعلقی، یونانی و عجمی فلسفیانہ اثرات) کی بہادری سے نشاندہی کی ہے اور اصلاحِ تصوف کی بات کی ہے لیکن دونوں نے تصوف کے بنیادی اصولوں یعنی تزکیہ نفس، حُسنِ اخلاق، محبت اور عمل میں اخلاص کیے حوالے سے اس کی تائید اور تعریف بھی کی اور صوفیائے کرام کی خدمات کو بھی سراہا۔ ان دونوں بزرگوں میں چونکہ اسلامی تہذیب اور ملتِ اسلامیہ کسی قسم کا احساس کمتری نا تھا اس لیے وہ اسلامی تہذیب و تاریخ کو پڑھتے تھے اور جانتے تھے کہ تصوف ِ اسلامی اپنی اصل میں اسلامی تہذیب کا خالص اندرونی فینومینا ہے اور افکار نہیں بلکہ پریکٹس کا نام ہے۔ ابن العربی اور شہاب الدین سہروردی مقتول سے شروع ہونے والی فلسفیانہ و کلامی تصوف کی بحثیں، متصوفانہ علم الکلام یا کلامی تصوف ہے۔ تصوف کی اصل کا لازمی حصہ یا تصوف کی اساس ہرگز نہیں۔ لیکن غامدی صاحب چونکہ لارڈ میکالے کے خواب کی تعبیر ہیں، عقیدے کے علاوہ ہر چیزمیں مغربی ہیں اور ایمانی مسلمان رہتے ہوئے تمدنی طور پر مغربی ہوچکے ہیں لہذا وہ مسلمانوں کی تمدنی تاریخ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اسے پڑھا جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ داعش اور دیگر خوارج اور وہابیوں کے ساتھ اس بات پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے بعد اسلام بارہ صدیوں کے لیے غائب ہوگیا تھا اور ایک اور متوازی دین تصوف رائج تھا، یہاں تک کہ جدید دور میں اسلام دوبارہ زندہ ہوا۔

میں ذاتی طور پر وحدت الوجود کا منکر تو نہیں لیکن اس طرح کے تصورات کے حوالے سے متشکک ہوں او ر حقیقی علم الکلام اور تصوف سے علیحدہ خالص کلامی روایت کا قدردان ہونے کے باوجود اقبال کے زیر اثر ابن العربی رح کے فلسفیانہ تصوف یا متصوفانہ فلسفے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ عوام کو ایسی بحثوں میں الجھانے کے حوالے سے تو میں سختی سے حضرت میاں میر قادری رح کے مشرب کا قائل ہوں کہ یہ باتیں روحانی تجربے سے سمجھ آتی ہیں، پڑھانے سمجھانے سے نہیں اور یہ تجربے خواص کو ہوتے ہیں جنہیں خواص کو اپنے تک رکھنا چاہیے، عوام کے سامنے نہیں لانا چاہیے۔ عوام کو صرف شریعت، ذکرِ الٰہی، محبت اور اخلاص فی العمل کی تعلیم دینی چاہیے، فلسفہ وحدت الوجود ان کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہئیے۔ ان باتوں کی وجہ سے بھی ہمارے ٹھیٹھ روایتی دوست اکثر ناراض ہوجاتے ہیں اور اسے انتہاء پسندی سمجھتے ہیں۔ لیکن غامدی صاحب انتہاء پسندی کی اس سطح پر ہیں جہاں وہ وحدت الوجود کو شدید ترین شرک کہتے ہیں۔ گویا غامدی صاحب کے اپنے ممدوح شاہ ولی اللہ دہلوی رح سمیت ابن العربی سے پیر مہر علی شاہ تک امت کے علماء، صلحاء اور بزرگانِ دین کی غاب اکثریت غامدی صاحب کے نزدیک بدترین قسم کی مشرک تھی۔ یہی سخت بات انجینئیر محمد علی مرزا اپنے انداز میں کرتا ہے تو ہم سب کو بہت برا لگتا ہے۔ یہی بات غامدی صاحب شوگر کوٹ کرکے کہتے ہیں تو لوگ سمجھے بغیر متاثر ہوئے جاتے ہیں۔

انجینئیر محمد علی مرزا کی کمزوریوں کی تصویر اس وقت زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب ہم مفتی محمداسحاق مدنی رح (جن کی علمیت کی تعریف خود غامدی صاحب فرما چکے ہیں) یا مفتی زبیر زئی رح کی سیرت کو دیکھتے ہیں۔اہل حدیث مکتب فکر کے یہ دونوں بزرگ علمی و فکری طور پر انتہائی قد آور تھے، حق گوئی کے راستے پر بھی انجینئیرسے بہت پہلے بہت استقامت سے چلتے رہے تھے اور جو باتیں آج انجینئیر کرتا ہے ان میں سے درست باتیں کہیں بہتر انداز میں، علمی و فکری گہرائی کے ساتھ کرچکے ہیں لیکن ان میں صوفی نا ہوتے ہوئے بھی صوفیاء جیسا سچا حلم، انکسار اور حسنِ اخلاق تھا جو انجینئیر صاحب میں نہیں ہے۔ لیکن میرے نزدیک انجینئیر کا یہ انداز اور تکبر و قصباتی نرگسیت بھی غامدی صاحب کے متکبرانہ عجز سے بہتر ہے۔ اس تکبر میں معذرت خواہانہ پن نہیں ہے جبکہ غامدی صاحب کی تعبیر دین اور مغربی سامراج کے حوالے سے ان کے رویوں کی طرح ان کا تکبر بھی معذرت خواہانہ ہے اور جعلی عجز کے پردے میں چھپایا گیا ہے۔ یہ قابلِ ترس صورتِ حال ہے۔

تصوف، سیاستِ اسلامیہ، اسلامی تہذیب، سنت کی آئینی و دینی حیثئیت، حدیث کی حجیت اور مہدی و مسیح جیسے انتہائی بنیادی مسائل پر سخت اختلاف کے باوجود میں غامدی صاحب کا احترام کیا کرتا تھا، ان کی بات سنا کرتا تھا اور کئی معاملات میں ان کے موقف کا قائل بھی ہوا اور ان سے سیکھا بھی لیکن سیدّنا و مولانا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے معاملے میں جس طرح سے غامدی صاحب نے بے حسی اور بغض کا اظہار کیا اور اس حوالے سے ان کی کچھ پرانی ویڈیوز منظر عام پر آئیں، اس کے بعد غامدی صاحب کے حوالے سے مجھے اپنی رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی

احادیثِ نبوی کی روشنی میں سیدّنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حیثئیت ملتِ محمدیہ کے لیے وہی ہے جو بنی اسرائیل کے لیے سیدّنا ہارون اور سیدّنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی تھی (سوائے اس کے کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔ جس طرح ہزار ہا خرابیوں کے باوجود بنی اسرائیل پرخدا کی حقیقی و حتمی مار سیدّنا ہارون علیہ السلام اور سیدّنا عیسیٰ علیہ السلام کی ناقدری اور نافرمانی کی بدولت ہی پڑی، اسی طرح سیدّناعلی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ناقدری و نافرمانی ایک مسلمان کے لیے سب سے ایسا جرم ہے جو بے شمار جرائم اور مصیبتوں کا دروازہ ہے۔ پھر جب آپ سیدّنا علی کی ذاتی حیثئیت کے ساتھ ساتھ ان کے خلیفہ راشد ہونے کو بھی مد نظررکھتے ہیں تو اس اعتبار سے یہ جرم مزید سنگین ہوجاتا ہے۔ اسی لیے سیدّنا علی کا معاملہ قطعی طور پر نون نگوشیبل ہوجاتا ہے۔

بند یہ عشق کا دروازہ نہیں کرسکتے

ہم علی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے

یہی وجہ ہے کہ امت نے ان لوگوں کو بھی ناصبی جانا ہے جو ایسی بات کریں کہ سیدّنا علی بھی حق پر تھے اور حضرت معاویہ بھی حق پر تھے۔

عام طور پر ناصبی یہی موقف دہراتے آئے ہیں کہ علی و معاویہ دونوں ہی اپنی جگہ ٹھیک تھے۔ غامدی صاحب اس سے بہت آگے نکلے ہیں۔ جو ہمت محمود عباسی، نور پوری اور فہد حارث جیسے بدنام زمانہ نواصب نا کرسکے وہ غامدی صاحب نے کی ہے۔ وہ نا صرف سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے حضرت معاویہ کی جنگ کی توجیہ پیش کرتے ہیں بلکہ امیر معاویہ کو اس غلطی(اور دیگر گناہوں مثال کے طور پر یزید کی جبری ولی عہدی) کے حوالے سے امت کا محسن بتاتے ہیں بلکہ ڈھکے چھپے الفاظ میں (جو دیگر لوگوں کے لیے ڈھکے چھپے ہوں تو ہوں، ہمارے لیے ہرگز ڈھکے چھپے نہیں)، سیدّنا علی رضی اللہ عنہ پر کیچڑ بھی اچھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ جب تلوار نکل آئے تو اس کا فیصلہ تلوار ہی کرتی ہے لہذا امیر معاویہ نے تلوار سے حکومت حاصل کی تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ ویسے تو یہ بات تاریخی طور پر ہی غلط ہے کہ امیر معاویہ نے تلوار سے حکومت حاصل کی کیونکہ وہ سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم یا امام حسن علیہ السلام سے کوئی جنگ نہیں جیتے، ان کی حکومت تو مکر و فریب، سیاسی رشوتوں، قبائلی و جرنیلی ہارس ٹریڈنگ اور دھونس اور دہشت کے بل پر قائم ہوئی تھی۔ لیکن اس بات سے قطع نظر اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ تلوار نکل آئے تو فیصلہ تلوار ہی کرتی ہے کا اصول اسلامی نکتہ نظر سے کتنا بھونڈا اور فاسقانہ ہے، اگر غامدی صاحب کی اس بات کو دیکھا جائے تو ایک بہت بڑا پنڈورا باس کھل جاتا ہے۔ یہ بات امیر معاویہ کے دفاع میں کی جارہی ہے اور امیر معاویہ کے مقابل سیدّنا علی ہیں۔ گویا سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر تلوار نکلانے کا الزام لگایا جارہا ہے کہ چونکہ علی نے تلوار نکالی لہذا معاویہ نے تلوار ہی سے جواب دینا تھا۔ یعنی قتلِ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ کا جو الزام روایتی ناصبی سیدّنا علی کے محبوب بیٹے محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی کے دستِ راست اور آرمی چیف مالک اشتر کو گالیاں دے کر سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر دھرتے ہیں، وہی غامدی نے اپنے سُڈو انٹیلیکچول انداز میں سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر دھر دیا۔ اور کیوں نا دھریں؟ غامدی صاحب کے کئی ممدوح مستشرقین (مثال کے طور پر وینچرز اوف اسلام والا مارشل ہڈگسن) نے کی ہے۔مغرب زدہ لوگوں کے لیے خاص طور پر تیار کی گئی ماڈرن وہابیت میں بھلا گورا کیسے غلط ہوسکتا ہے؟

پھر ہم نے ان گنہگار کانوں سے وہ ویڈیو بھی سنی جس میں غامدی صاحب فرما رہے ہیں کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تو اہل بیت میں سے بھی نہیں ہیں کیونکہ داماد اہل بیت نہیں ہوتا۔ سبحان اللہ! انتہاء پسندی اور کسے کہتے ہیں؟ بغضِ علی اور کس چڑیا کا نام ہے؟ میرے نزدیک سیدّنا علی سے زیادہ غامدی کا یہ بھونڈا حملہ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے کیونکہ سیدّنا علی رضی اللہ عنہ تو داماد بننے سے پہلے بھی رسول اللہ ﷺ کے چھوٹے بھائی اور لے پالک بیٹے تھے لیکن ہم اہلسنت مسلمان تو دامادی کی نسبت سے ہمیشہ سیدّنا عثمان ذولنورین رضی کو بھی اہلبیت میں شمار کرتے آئے ہیں۔ غامدی صاحب نے یہاں بھی پسوڑی ڈال دی ہے۔

لیکن ہم نے تو سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے سے اس ساری بحث کا آغاز ہی احادیث کے حوالے سے کیا ہے اور غامدی صاحب تو اپنے روایتی معذرت خواہانہ انداز میں حجیت حدیث کے بھی منکر ہیں اور احادیث سے یوں گزرتے ہیں جیسے کوئی نازک اندام نخریلی حسینہ شاپنگ مال میں کپڑوں کی مختلف دکانوں سے گزرتی ہے۔ جو مزاج کو بھلا لگا، وہ لے لیا۔۔۔ جو طبعِ نازک پر گراں گزرا۔۔۔ اس پر ناک بھوں چڑھا کر آگے بڑھ گئے۔ اپنا کوئی مستقل اور اصولی معیار حدیث غامدی صاحب آج تک پیش نہیں کرسکے۔ الغرض غامدی صاحب کی گمراہیوں کا سلسلہ اتنا طویل ہوگیا ہے کہ اب سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان جہالت و گمراہی کے اس مینار کو ڈی کنسٹرکٹ کہاں کہاں سے کرے۔ تصوف پر متوزی دین ہونے کا جو الزام غامدی صاحب لگاتے ہیں وہ الزام صد فی صد ان کے اپنے دین غامدیت پر صادق آتا ہے۔

احمد الیاس

۔۔۔۔

جاوید غامدی خلیفہ راشد کی عیب جوئی کرتے ہیں لیکن خلافت راشدہ کے باغی ابو یزید معاویہ بن ابو سفیان کے مداح ہیں ۔ انجینیئر محمد علی مرزا کا بیان