کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ، جن کا ذاتی رجحان تکفیری خارجی گروہوں کی طرف ہے، نے چند روز قبل ایک پوسٹ استفساراً لکھی کہ
” علامہ تمنا عمادی،محمد جعفر شاہ پھلواروی اور غلام احمد پرویز تینوں ہی صوفی گھرانوں میں پیدا ہوئے اور خانقاہی ماحول میں پرورش پائی لیکن اس کے بعد تینوں ہی تصوف کے خلاف ہو گئے ۔ان کی یہ قلب ماھیت کیوں ہوئی؟
ہم جب ان تین شخصیات کی تحقیقات و نظریات پر غور کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ نظامِ خانقاہیت و تصوف سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواری اور محمد جعفر شاہ پھلواری نے نہ صرف تصوف کے مراسم کو شرک و بدعت کہنا شروع کردیا تھا بلکہ اس کے خلاف ننگی تلوار کی طرح نیام سے نکل آئے تھے ۔ ان دونوں حضرات کی تحاریر پر بنظرِ غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات کافی حد تک اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ دونوں ہی حضرات احادیث سے متعلق ایک خاص طرزِ فکر رکھتے تھے اور اپنی مرضی کی چند حدیثوں کو چھوڑ کر باقی احادیث اور تاریخ کے ذخیرے کی صحت کا انکار کرتے تھے ۔ جہاں تک غلام احمد پرویز صاحب کی بات ہے تو وہ اعلانیہ منکرِ حدیث تھے اور اس کا برملا دعویٰ بھی کرتے تھے۔ حجیتِ حدیث سے متعلق ان کے نظریات اور علامہ عمادی و جعفر شاہ پھلواری کے نظریات میں کچھ فرق ہے۔ غلام احمد پرویز نے ملائکہ سے لیکر جنت و جہنم ساری چیزوں کو ہی تختِ مشق بنا ڈالا یہاں تک کہ قربانی اور صلوٰۃ کو بھی نہ چھوڑا۔ لیکن اہل تصوف اور مکتب اہلبیت میں تنقید میں پرویز، عمادی اور پھلواری صاحبان خوارج اور نواصب کی صف میں نظر آتے ہیں ۔
جہاں تک علامہ عمادی کی بات ہے تو پہلے دن سے لیکر آخری دن تک وہ حجیت ِحدیث کے قائل تھے البتہ ان کے آخری دنوں کی تحقیق سے ہی حدیث سے متعلق ان کا اصل موقف پوری وضاحت سے سامنے آسکا تھا جس کا تذکرہ اپنے ایک مضمون میں محترم تنزیل صدیقی صاحب نے کیا ہے۔ خبر واحد کے ظن ہونے سے متعلق ان کے اور مولانا اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کے درمیان مذاکرہ بھی ہوا جبکہ “مسند احمد کی حقیقت” نامی ان کے کتابچے کا نقد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے لکھا۔ ان کی اسی طرح کی کچھ تحاریر کو ادارہ طلوع اسلام نے استعمال کیا جس کے جواب میں انہوں نے آخری عمر میں غلام احمد پرویز کے نظریات پر سخت تنقید کی اور حدیث کی حجیت سے متعلق اپنا موقف واضح کیا۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ انہوں نے اپنے شذوذ سے کبھی نہ ہی رجوع کا اعلان کیا اور نہ ہی کوئی وضاحت دی۔ امام طبری اور زہری سے متعلق ان کی رائے آخر وقت تک وہی تھی جو انہوں نے اپنی کتاب “امام زہری و طبری- تصویر کا دوسرا رخ” میں پیش کی۔ “نزول ِمسیح کے انکار” سے متعلق بھی انکا کوئی رجوع ثابت نہیں۔ جمع القرآن سے متعلق بھی وہ اپنی شاذ رائے پر موجود رہے تھے۔ اور ان سب باتوں سے انکا کوئی رجوع ثابت نہیں ہے۔
نزول مسیح، جمع القرآن اور صحیحین کی بعض روایات کے صحیح نہ ہونے سے متعلق علامہ تمنا عمادی کو اپنے ہم عصر کانگریسی مولوی مولانا ابو الکلام آزاد کے افکار سے بھی تائید حاصل تھی۔
بعینہٖ اسی طور کے شذوذ جناب محمد جعفر شاہ پھلواری صاحب کے بھی تھے جس میں سرفہرست ان کی ،۳۶۰ صفحات پر مشتمل کتاب “اسلام اور موسیقی ” ہے جو کہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب اسلام میں موسیقی کے جواز پر لکھی گئی ہے۔ تمنا عمادی اور محمد جعفر شاہ پھلواری میں ایک یکسانیت “تاریخ کا بیانیہ” بھی رہی جہاں ایک طرف سے تو علامہ تمنا عمادی نے “القصیدۃ الزہراؓ” میں صحابہ اور اہلبیت کے مشاجرات و تنازعات کے باب میں اپنا واضح جھکاؤ واضح طور پر حضرت علی رضی الل عنہ کے مخالف کیمپ بنام قصاصِ عثمانؓ کی طرف ظاہر کیا تو دوسری طرف محمود احمد عباسی کی ہر کتاب بشمول خلافت معاویہ و یزید کو علامہ عمادی کی پوری طرح سے فکری تائید حاصل رہی ۔ اسی طرح علامہ محمد جعفر شاہ پھلواری نے بھی تاریخ کے بیانئے میں اپنے آپ کو وکیلِ بنو امیہ کے طور پر ہی پیش کیا اور علامہ ابو الحسین عظیم الدین صدیقی مرحوم کی کتاب” حیاتِ سیدنا یزیدؒ” پر ایک تائیدانہ تعارف لکھ کر نہ صرف کتاب کی زبردست پذیرائی کی بلکہ اپنے تبصرے کو تصوف کے نقد پر ہی ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا:
“ہاں یہ نقطہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام سلاسلِ طریقت سیدنا علیؓ سے جا ملتے ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ ہر خانقاہ، ہر گدی، ہر آستانے اور ہر تکیے پر یہ ہوتا ہے کہ باپ مرا اور بیٹا گدی نشین ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ سلسلہ تو حضرت علیؓ کا ہے اور وہاں سنت حضرت معاویہؓ کی چل رہی ہے۔ یہ ہیں وہ حضرات جو ہمیشہ سنتِ معاویہؓ پر طعن کرتے ہیں مگر انہیں کی سنت اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور شاید ہمیشہ ہی مجبور رہیں گے اور اپنی زندگی کے اس داخلی تضاد کو کبھی دور نہ کرسکیں گے۔” (تعارف حیاتِ سیدنا یزیدؒ از محمد جعفر شاہ پھلواری)
جناب جاوید غامدی اور ان کے بعض مقلدین کی تحریر و تقریر میں تصوف کے خلاف جو شدت اور شرک و بدعت کے تکفیری فتوے نظر آتے ہیں اور بنی امیہ، معاویہ و یزید کی جو حمایت نظر آتی ہے اس کے پس منظر میں در حقیقت محمود عباسی، تمنائی عمادی، جعفر پھلواروی اور دیگر نواصب کی سوچ کار فرما ہے