کیا جنگ صفین میں معاویہ بن ابو سفیان کی طرف سے جنگ بندی کی پیشکش شکست سے بچنے کی چال تھی؟ بنو امیہ کی طرفدار مورخ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر معاویہ و یزید کے دفاع میں سر گرم ہو گئیں اور دعوی کیا کہ حضرت علی کی فوج ایک کمزور بھیڑ تھی، امیر معاویہ کی فوج طاقتور تھی اور شکست سے بچنے کے لیے قرآن نیزوں پہ بلند کرنے کا واقعہ ہی نہیں ہوا
تبصرہ
ایک طرف یہ دعوی ہے کہ صفین کی جنگ کے وقت اتنے مصحف کہاں تھے کہ ان کو نیزوں پر بلند کیا جاتا اور دوسری طرف آرمینیا کی جنگ کی وجہ سے مصحف اٹھانے پڑ گئے
اور ڈاکٹریٹ یہ ہے کہ اس کا کوئی حوالہ نہ ثبوت
امہات کتابیں مگر کونسی حوالہ ندارد
یہ تو رافضیوں کے ذاکر کا قصہ ہو گیا کہ ایہہ روایت کتھوں پڑھی آ
تو جوابا کہا کہ ایہہ آپڑیں کولوں پڑھی اے
اور دوسرا ملا نصیر الدین کا واقعہ ہے کہ ملا کے پڑوسی نے ملا نصیرالدین پہ مقدمہ دائر کر دیا کہ موصوف نے عاریتاً صراحی لی تھی مگر جب واپس کی تو شکستہ حالت میں تھی
قاضی نے ملاں کو طلب کیا تو ملاں کا موقف یہ تھا
اول تو جب میں نے صراحی واپس کی تو وہ بلکل درست حالت میں تھی
، دوم یہ کہ جب مجھے ملی تبھی شکستہ تھی اور سوم یہ کہ میں نے کبھی ان سے صراحی لی ہی نہیں
اب پارٹ ٹو کی منطق ملاحظہ فرمائیں
”اول تو مصحف اٹھائے ہی نہیں گئے اگر اٹھائے گئے تو آرمینیا کی لڑائی کی وجہ سے اٹھائے گئے سوم یہ کہ سب کچھ امہات کتابوں میں لکھا تھا مگر ان کو بکری کھا گئی
ملک یاسر اعوان
عمرو بن عاص کی جنگی چال۔۔ اسے بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔۔
کاش مولا علی ع کا لشکر نیزوں پر بلند قران دیکھ کر دھوکہ نہ کھاتا تو یہ فتنہ جنگ جمل کی طرح اسی دن کچلا جاتا، اج شاید تاریخ کچھ اور ہوتی۔
ارتہ خشرہ
حضرت علی کی فوج کو ایک بھیڑ کہنے کی وجہ نہیں بتائی ڈاکٹر صاحبہ نے۔ حضرت علی کی فوج اپنے امیر المومنین کے تحت جنگ میں لڑ رہی تھی پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ایک فوج نہ ہو بلکہ ایک بھیڑ ہو؟
اسجد ابرار
علی سے محبت نہیں رکھے گا مگر مومن علی سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق
صیح مسلم 240

