‎جھنڈے یا علم کی حرمت

‎میں نے کبھی اپنے گھر، گاڑی، آفس، میز یا شرٹ پر جھنڈا نہیں لگایا

‎جب کہ میرے پاس پاکستان ہی نہیں کشمیر کا جھنڈا بھی ہے.

‎کیوں کہ

‎مجھے احساس ہے کہ میں بہت کمزور ہوں، جھنڈے کی حرمت کا پاس بہت مشکل کام ہے

‎یوں تو عہد نبوی کے تمام علمبرداروں کی بہادری اور جاں فشانی کے واقعات حیرت انگیز ہیں

‎ہم یہاں صرف جعفر طیار کی بات کریں گے

‎خواجہ ابوطالب کے بیٹے، رسول اللہ کے چچا زاد، علی سے دس سال بڑے تھے.

‎وہی جن کے ہاتھ پر حبشہ کا بادشاہ نجاشی مسلمان ہوا تھا.

‎رومیوں کے مقابلے کے لیے رسول اللہ نے تین ہزار افراد پر مشتمل جاں نثار بھیجے

‎اور فرمایا

‎قائد جیش زید بن حارثہ ہوں گے، جو رسول اللہ کے متبنی رہے تھے

‎اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر طیار،

‎اگر وہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ

‎اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو جو علم اٹھا لے

‎جن کے دل میں ایمان کے بجائے صرف علم کی شمع روشن تھی، یعنی آل یعقوب کا ایک فرد

‎کہنے لگا، یہ تینوں تو شہید ہو جائیں گے، نبوت بن دیکھے نہیں بولتی

‎رومی ایک لاکھ تھے،

‎زید کے بعد جھنڈا جعفر کے ہاتھ میں آیا،

‎جس ہاتھ میں جھنڈا تھا وہ کٹ گیا، دوسرے ہاتھ میں تھام لیا

‎دشمن نے وہ بھی کاٹ ڈالا

‎دونوں کندھوں کو ملا کر جھنڈے کو تھام کر دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لیا

‎اور جب گردن کٹ کر گر گئی تو بھی جھنڈا نہیں گرنے دیا

‎تاآنکہ عبداللہ بن رواحہ نے تھام لیا

‎رسول اللہ مدینے کی مسجد کے منبر پر بیٹھ کر یہ سب دیکھ رہے تھے

‎اور

‎حاضرین کو میدان جنگ کی تازہ ترین صورت حال بتا رہے تھے

‎جعفر کو دو بازوؤں کے عوض دوملکوتی پر عطا ہوئے اور جنت میں فرشتوں کے ہمراہ اڑتے ہوئے دیکھے گئے

‎جھنڈا لہرانا ہی نہیں ہوتا

‎اس کی حرمت پر کٹ مرنا بھی ہوتا ہے

‎رضی اللہ عنہ

‎طفیل ہاشمی