حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ نے اپنا خلیفہ کیوں نہیں بنایا؟

قرآن اور سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی ، جو سب سے زیادہ رسول اللہ کے خلاف تھے، مخالفت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ ایک ایسے خاندان سے ہیں جو افرادی قوت، مادی وسائل اور مکہ کی شہری ریاست کے عہدوں میں بنو امیہ بنو عبد شمس اور بنو مخزوم وغیرہ کا ہم پلہ نہیں. قرآن نے ان کے اس اعتراض کو سورہ الزخرف میں یوں بیان کیا

یہ قرآن مکہ یا طائف کے کسی بڑے سردار پر کیوں نازل نہ ہوا.

تاريخ اور سیرت کے بے شمار واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی مخالفت کی اصل وجہ آپ کی سماجی حیثیت تھی. ورنہ قرآن کی تعلیمات، آپ کے اخلاق و کردار میں کوئی ایسی بات نہیں تلاش کی جا سکی جس پر مخالفت کی عمارت استوار کی جاتی. قریش کا ہی نہیں بلکہ مشہور مستشرق منٹگمری واٹ تک کا خیال بھی یہ ہے کہ آپ کا مشن اپنے قبیلے کو سرداری سے ہم آغوش کرنا تھا.

فتح مکہ کے بعد یہ طے ہوگیا کہ اقتدار اسلام کے پاس چلا گیا ہے . چنانچہ وہ افراد جو سیاسی بنیادوں پر اسلام کے خلاف تھے انہیں سرنڈر کرنا پڑا. فتح مکہ کے موقع پر ابوسفیان کا یہ کہنا کہ، ابوالفضل، تمہارا بھتیجا بادشاہ ہو گیا ہے، اسی سوچ کا آئینہ دار تھا. اس کے تھوڑے عرصے بعد حجہ الوداع نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ سارے جزیرہ نما عرب کے بلاشرکت غیرے حکمران ہیں. اس موقع پر آپ نے اپنی وفات کا بھی اعلان فرما دیا کہ اگلے سال ملاقات کا کوئی امکان نہیں. جس کا مطلب یہ تھا کہ اگلے سال امیر حج کوئی اور ہوگا. آپ کو یاد ہوگا کہ نو ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق کو امیر حج بنا کر بھیجا تو بطور سربراہ ریاست جن لوگوں کے ساتھ معاہدات تھے ان کے خاتمے یا تجدید کا اعلان کرنے کے لیے حضرت علی کو بھیجا گیا. گویا آپ کے سامنے یہی دو شخصیات تھیں جو آپ کی نمائندگی کے لئے مناسب ترین تھیں. ممکن ہے کہ آپ نے سوچا ہو کہ علی ابن ابی طالب کو ریاستی حکمران بنانے کی صورت میں اسلام پر ہونے والا وہ اعتراض پھر سے سر اٹھا سکتا ہے کہ یہ بنوہاشم کو اقتدار دلانے کی کوشش تھی اس لیے اپنا جانشین اپنے کزن اور داماد کو بنا دیا. یہ ایسا دھبہ ہوتا جسے پوری انسانی تاریخ دھراتی رہتی، اس لئے جانشین کسی دوسری شخصیت کو بنایا جائے لیکن علی کی صلاحیت، خدمات، جان نثاری اس امر کی متقاضی تھی کہ ان پر بھی اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا جائے

اسی لئے اس سفر سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر تمام صحابہ کرام کے سامنے علی کے مقام اور اپنی اور علی کی نسبت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا

من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ

یہ الفاظ جہاں نگہ مصطفوی اور مسلم سماج میں علی کے مقام اور مرتبہ کا تعین تھا وہیں شاید یہ لطیف میسج بھی تھا کہ جانشین کوئی دوسرا مقرر کیا جائے گا تاکہ اسلام پر عصبیت کا الزام نہ آئے. حیات طیبہ کے آخری ایام میں حضرت عمر کی خواہش تھی کہ آپ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ ہوں ۔حضرت عباس نے حضرت علی کو بتا دیا تھا نیز ابوسفیان بھی پیادے اور سواروں سے وادی کو بھرنے کی پیش کش حضرت علی کو کر چکے تھے

لیکن جن اہلبیت کے بارے میں اللہ نے خود گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عصبیت، ہوس اقتدار، لالچ، حسد اور تمام رذائل اخلاق سے پاک کر دیا ہے انہیں کوئی پیش کش جنبش نہ دے سکی.

رضی اللہ عنھم

طفیل ہاشمی