“اس سے بدرجہا زیادہ غیر آئینی طرز عمل دوسرے فریق ، یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا جو معاویہ بن ابی سفیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شام کے گورنر کی حیثیت سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے اٹھے ، مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا ، گورنری کی طاقت اپنے اس مقصد کے لیے استعمال کی ، اور مطالبہ بھی یہ نہیں کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدمہ چلا کر انھیں سزا دیں ، بلکہ یہ کیا کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے حوالے کردیں تاکہ وہ خود انھیں قتل کریں۔ یہ سب کچھ دور اسلام کی نظامی حکومت کے بجائے زمانہ قبل اسلام کی قبائلی بدنظمی سے اشبہ ہے۔ خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبے کا حق اول تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شرعی وارثون کو پہنچتا تھا ۔ تاہم اگر رشتہ داری کی بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس مطالبے کے مجاز ہو بھی سکتے تھے تو اپنی ذاتی حیثیت میں ، نہ کہ شام کے گورنر کی حیثیت میں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رشتہ جو کچھ بھی تھا، معاویہ بن ابی سفیان سے تھا ۔ شام کی گورنری ان کی رشتہ دار نہ تھی ۔ اپنی ذاتی حیثیت میں وہ خلیفہ کے پاس مستغیث بن کر جاسکتے تھے اور مجرمین کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرسکتے تھے ۔ گورنر کی حیثیت سے انھیں کوئی حق نہ تھا کہ جس خلیفہ کے ہاتھ پر باقاعدہ آئینی طریقے سے بیعت ہوچکی تھی ، جس کی خلافت کو ان کے زیر انتظام صوبے کے سوا باقی پوری مملکت تسلیم کرچکی تھی۔ اس کی اطاعت سے انکار دیتے ، اور اپنے زیر انتظام علاقے کی فوجی طاقت کو مرکزی حکومت کے مقابلے میں استعمال کرتے ، اور ٹھیٹ جاہلیت قدیمہ کے طریقے پر یہ مطالبہ کرتے کہ قتل کے ملزموں کو عدالتی کاروائی کے بجائے مدعی قصاص کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود ان سے بدلہ لے ۔
اس مسئلے میں صحیح شرعی پوزیشن قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں اس طرح بیان کی ہے :-
“( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) لوگوں کو بلاامام چھوڑ دینا ممکن نہ تھا ، چنانچہ امامت ان کی باقی ماندہ صحابہ کے سامنے پیش کی گئی جن کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شوری میں کیا تھا ۔ مگر انھوں نے اسے رد کردیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو اس کے سب سے زیادہ حق دار اور اہل تھے، اسے قبول کرلیا تاکہ امت کو خون ریزی اور آپس کی پھوٹ سے بچاجاسکے جس سے دین وملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ تھا ۔ پھر جب ان سے بیعت کرلی گئی تو شام کے لوگوں نے ان کی بیعت قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو گرفتار کرکے ان سے قصاص لیا جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : پہلے بیعت میں داخل ہوجاو، پھر حق کا مطالبہ کرو اور تمہیں مل جائے گا ۔ مگر انھوں نے کہا آپ بیعت کے مستحق ہی نہیں ہیں جب تک ہم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو صبح وشام آپ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ۔ اس معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ صحیح تھی اور ان کا قول زیادہ درست تھا۔ کیونکہ اگر وہ اس وقت قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے تو قبائل ان کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوتے اور لڑائی کا یاک تیسرا محاذ کھل جاتا ۔ اس لیے وہ انتظار کررہے تھے کہ حکومت مضبوط ہوجائے اور تما م مملکت میں ان کی بیعت منعقد ہولے ، اس کے بعد باقاعدہ عدالت میں اولیائے مقتول کی طرف سے دعوی پیش ہو اور حق کے مطابق فیصلہ کردیا جائے ۔ علمائے امت کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام کے لیے قصاص کو موخر کرنا ایسی حالت میں جائز ہے جب کہ اس سے فتنہ بھڑک اٹھنے اور تفرقہ برپا ہونے کا خطرہ ہو۔”
“ایسا ہی معاملہ حضرات طلحہ رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا۔ان دونوں حضرات نے نہ تو حضرت علی ر ضی اللہ عنہ کو خلافت سے بے دخل کیا تھا ، نہ وہ ان کے دین پر معترض تھے ، البتہ ان کا خیال یہ تھا کہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے ابتداء کی جائے ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے رائے پر قائم رہے اور انھی کی رائے صحیح تھی ۔”
آگے چل کر قاضی صاحب آیت :
فقاتلو اتبغی حتی تفی الی امرا للہ ( الحجرات : 9 ) کی تفسیر پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان حالات میں اسی آیت کے مطابق عمل کیا تھا ۔ انھوں نے ان باغیوں کے خلاف جنگ کی جو امام پر اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے تھے اور ایسا مطالبہ کررہے تھے جس کا انھیں حق نہ تھا ۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتے اور اپنا مطالبہ قصاص عدالت میں پیش کرکے قاتلین پر مقدمہ ثابت کرتے ۔اگر ان لوگوں نے یہ طریق کار اختیار کیا ہوتا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ مجرموں سے بدلہ نہ لیتے تو انھیں کش مکش کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی ، عامہ مسلمین خود ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معزول کردیتے ۔”
خلافت و ملوکیت
از سید مودودی