حضرت معاویہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے سیاست دان تھے

حضرت معاویہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے سیاست دان تھے, بڑی سخاوت کرکے انہوں نے لوگوں کے دل جیتے اور ان کے زمانے میں بڑی شاندار فتوحات ہوئیں۔

سیاست لفظ کا آج کل یہ مفہوم سمجھ لیا گیا ہے کہ کسی نا کسی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کا نام سیاست ہے۔ جھوٹ, بدعنوانی, دھوکہ, دھونس اور دیگر ایسے حربے جو عام زندگی میں برے سمجھتے جاتے ہیں, سیاست کی حد تک ٹھیک سمجھے جانے لگے ہیں۔ لفظِ سیاست کا یہ مفہوم بدقسمتی سے ہمارے مذہبی طبقے کے ذہن میں بھی بیٹھ گیا ہے۔

سیاست کا مقصد کئی لوگوں کے لیے اقتدار کا حصول ہوسکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب کا ایسا ہی معاملہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کریمین رض بڑے زبردست اور انتہائی کامیاب سیاست دان تھے لیکن ان کے ہاں وہ ناجائز حربے بالکل نہیں ہیں جو حضرت معاویہ کا خاصا تھے۔

اپنے مقاصد کے لیے ہوشیاری, چالاکی اور ذہانت بھی ایک چیز ہے جبکہ مکاری, فریب اور دھونس دوسری چیز۔ امیرِ شام کے ہاں ہمیں کئی مواقع پر مکاری, فریب اور دھونس نظر آتی ہے۔

رسول اللہ ص اور خلفائے راشدین رض کی بجائے حضرت معاویہ کو بطور سیاست دان آئیڈیلائز کرنے کا نتیجہ بے عمل علما جیسے کرداروں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ پورے عالمِ اسلام میں ایسے کئی کردار ہیں جو ذاتی زندگی میں تو نمازی پرہیزی ہیں لیکن ان کی سیاست اور کسی خالص دنیا دار, اقتدار کے لالچی سیاست دان کی سیاست میں کوئی فرق نہیں بلکہ وہ اکثر ناجائز سیاسی حربوں میں عام سیاست دانوں سے آگے ہی نظر آتے ہیں

حضرت معاویہ کے دفاع میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے سخی تھے, لوگوں کو خوش رکھتے تھے۔ اگر وہ لوگوں کو اپنے ذاتی پیسوں سے اللہ کی خاطر نواز کر خوش کرتے تو یقیناً یہ بڑی اعلیٰ خوبی ہوتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بیت المال سے لوگوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے تحت نوازتے تھے۔ اسے سخاوت نہیں, رشوت, غبن, کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے۔

فتوحات والی کہانی بھی حضرت کے دفاع میں پیش کی جاتی ہے۔ “چونسٹھ لاکھ مربع میل پر پرچم لہرانے” والی صریح گپ بڑی ڈھٹائی سے اڑائی جاتی ہے کیونکہ عوام تاریخ تو پڑھتے نہیں, انہیں دھوکہ دینا آسان ہے۔

سچ یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ کا عظیم فاتح حکمران صرف ایک ہے : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ یہ بات دو اعتبار سے درست ہے۔ اصول کے اعتبار سے اور حقائق کے اعتبار سے۔

الف) ہم اسلامی فتوحات بارے پڑھ کر کیوں خوش ہوتے ہیں ۔۔۔ کیا اس لیے کہ یہ اللہ کے سچے دین کی فتوحات تھیں جو سب انسانوں کے لیے آزادی, انصاف اور قانون کی نظر میں برابری کا نظام لایا ہے یا اس لیے کہ وہ ہماری قوم (مسلمان قوم) کی فتوحات تھیں ۔۔۔ اگر تو آپ موخر الذکر وجہ سے خوش ہوتے ہیں تو یہ مسلم قوم پرستی ہے اور اس میں اور وطنی یا لسانی یا نسلی قوم پرستیوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ لیکن اگر آپ اسلامی نظام اور قدروں کی فتح پر خوش ہوتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کیا کسی حاکم کی فتوحات کے بعد اسلام کی اقدار رائج بھی ہوئیں یا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدّنا عمر فاروق رض کے دور میں آزادی, برابری, بھائی چارے, انصاف, مشاورت, امانت جیسی اسلامی اقدار ہمیں رائج ہوتی نظر آتی ہیں لیکن حضرت معاویہ کے دور میں ان اقدار کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے جہاں فاروقی فتوحات اسلام کی فتوحات ہیں وہیں اموی فتوحات محض عرب مسلم قوم کی فتوحات ہیں۔ اگرچہ اسلام کا فیض کسی حد تک جاری رہنے کے باوجود بنو امیہ و بنو عباس کا دور بھی اپنے پیش رو, معاصر اور بعد میں آنے والی قریب قریب سب ہی غیر مسلم سلطنتوں سے بہتر تھا, لیکن اسلام کے بلند معیار پر یہ عرب مسلم حکومتیں بالکل پورا نہیں اترتیں تھیں۔

ب) حقائق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مبارک دور میں مسلمانوں نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ایک نوزائیدہ مقامی ریاست ہوتے ہوئے دو پرانی سپر پاور ایمپائرز کو بیک وقت گرایا۔ اصل معجزہ یہی تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان خود دو سپر پاوروں کی طاقت کی حامل سپر پاور بن گئے تھے اور ان کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی اور نسبتاً کہیں محدود وسائل کی حامل مقامی ریاستیں تھیں جن پر غلبہ پانا بالکل مشکل کام نا تھا بلکہ معمول کی بات تھی۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ڈالی ہوئی مضبوط بنیاد کے باوجود بنو امیہ ولید بن عبدالملک کا دور (705 تا 715 عیسوی) شروع ہونے تک (جس میں حضرت معاویہ کا پرامن اور مستحکم انیس سالہ دور حکومت بھی شامل ہے) ساٹھ سالوں میں المغرب البعید (شمال مغربی افریقی ساحل) کے قبائلی علاقوں کے سوا کوئی فتوحات نا کرسکے بلکہ پہلے سے فتح کیے ہوئے علاقوں کی بغاوتوں کو کچلنے کو ہی فتوحات بتایا جاتا ہے۔ اموی دور کی سب نمایاں فتوحات (سندھ, ترکستان اور اندلس) ولید بن عبدالملک کے دور کی ہیں, حضرت معاویہ کے دور کی نہیں۔

ہماری امیرِ شام سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ ہم انہیں کافر, منافق یا جہنمی کہنا یا ان پر لعنت یا گالی دینا حرام اور سخت گناہ سمجھتے ہیں کیونکہ بہرحال وہ مسلمان ہیں۔ اس حیثئیت میں ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے جیسا کہ سب مسلمانوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ انہیں رسول اللہ ص کا زمانہ اور زیارت کا شرف حاصل ہوا, وہ رسول خدا ص کے رشتے دار بھی ہیں۔ ان نسبتوں سے بھی ان کا احترام ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی جھوٹی شان گھڑی جائے اور ان کے دفاع میں غلو کیا جائے, جھوٹ بولا جائے اور ان کی غلطیوں اور کمزوریوں کو بھی خوبی بنا کر پیش کیا جائے۔

احمد الیاس