حکومت کے جس نظام کو اسلام نے پیش کیا ہے اس میں شک نہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک نے اپنے عملی نمونوں سے اس نظام پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ لیکن یہ بات کہ اپنے اس نظام کے قائم کرنے پر اسلام کو اتنا اصرار ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، مسلمانوں کا خون پانی سے زیادہ ارزاں نظر آنے لگے لیکن ہر قیمت پر اس نظام کے قائم کرنے کی کوشش میں مسلمانوں کو آخر وقت تک منہمک رہنا چاہیے، اسلامی نظامِ سیاست میں اتنی اہمیت صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ کے عملی نمونے نے پیدا کردی۔
اس راہ میں ادنیٰ سے ادنیٰ چشم پوشی یا مسامحت سے اگر وہ کام لیتے تو شاید نتیجہ نکالنے والے بعد کو نتیجہ نکال لینے کا اس کو بہانہ بنا لیتے کہ حکومت کے جس معیار کو خلفائے راشدین نے دنیا میں قائم کرکے دکھایا تھا, تھی تو وہ ایک معیاری حکومت لیکن اس میں ان بزرگوں کی ذاتی نیک نفسیوں کو دخل تھا۔ خواہ مخواہ حکومت کے اسی قالب پر اصرار کرنے کی ضرورت مسلمانوں کو نہیں ہے جیسا کہ ایک بڑا گروہ خواہ زبان سے اس کا اظہار کرتا ہو یا نا کرتا ہو, لیکن دل میں شاید یہی سمجھتا رہا یا ممکن ہے اب بھی سمجھتا ہو لیکن صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ کا طفیل ہے کہ عمل کر کے انہوں نے جو کچھ دکھایا یا زبان سے جو کچھ فرمایا وہ تو خیر اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس میں ان کی ذات تنہا نہیں ہے, لیکن حکومت کے اس نظام کو جو بدلنا چاہتے تھے ان کے مقابلہ میں ہر قسم کی مصلحت اندیشیوں سے بے پرواہ ہو کر آستینیں چڑھائے سر بکف میدان میں کود جانا اور اس طور پر کود جانا کہ بولنے والے تو صرف زبان سے بولتے ہیں کہ ہم اپنے نصب العین کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کے لیے تیار ہیں, لیکن جمل و صفین میں یہ کر کے دکھا دیا گیا کہ دس پانچ نہیں ہزار ہا ہزار بقول بعض لاکھوں تک نوبت قتل و شہید ہونے والے مسلمانوں کی پہنچی چلی جاتی تھی, کشتوں کے واقعی پشتے لگتے چلے جاتے تھے,مسلمانوں کی لاشوں کا پہاڑ جمع ہوتا چلا جا رہا تھا, لیکن یہ حد تھی کسی نصب العین پر اصرار کی کہ کسی قسم کا کوئی حادثہ یا کوئی مصلحت ان کو بال برابر بھی اس سے نہ ہٹا سکی۔
میں نہیں جانتا کہ کسی نصب العین کے حصول کی کوشش میں ان کی نظیر انسانیت کی تاریخ پیش کرسکتی ہے؟ سب کچھ اسی راہ میں لٹا دیا گیا بلکہ کربلا کے میدان میں تو اسی نصب العین کے پیچھے علیؓ کے گھرانے کا ایک ایک بچہ قربان ہو گیا اور اب سمجھ آتی ہے اہمیت اس سیاسی نظام کی جسے اسلام نے دنیا میں پیش کیا ہے۔ لوگوں نے اس پر بعد کو عمل کیا یا نہیں یہ الگ سوال ہے, لیکن جمل و صفین و واقعہ کربلا کے خون سے جریدہ روزگار پر جس نہ ختم ہونے والے اسرار کا نقشہءِ دوام قائم ہوگیا ہے کیا اس کو کوئی مٹا سکتا ہے اور جب تک کہ نقش قائم ہے اسلامی نظامِ سیاست کی اہمیت بہرحال دنیا میں قائم رہے گی۔”
– مولانا مناظر احسن گیلانی