ایک بھائ نے مصالحت کر کے تاریخ کے اوراق میں یہ ثبت کر دیا کہ خانوادہ نبوت کے جینز میں ہوس اقتدار کی کوئی علامت نہیں.
اور
دوسرے بھائ نے آل رسول کے خون سے خلافت وملوکیت کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچ دی جسے سات سمندروں کے پانی سے بھی نہیں مٹایا جاسکتا.
یہ سیاست سے بے خبری یا حکمت عملی کی نارسائی نہیں تھی بلکہ سیاسی دانش کا معراج کمال تھا کہ ہوس اقتدار اور جوع الأرض کے مقابلے میں یوں دست برداری لکھ دی کہ
ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا .
نواسے نے نانا کی بات کا عملی ثبوت پیش کردیا کہ دنیا کی قیمت ہمارے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے.
اور جب قیصریت نے نانا کے دئیے ہوئے دین کے سیاسی نظم میں بادشاہت کے منحوس پنجے گاڑنے چاہے تو تب بھی دین کی اساس کو بچانے کے لیے دوسرا نواسہ آگے بڑھا اور بقول فیض
مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں، جاں ہار آئیں
دل والو، کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
یہ اس”ناکام حکمت عملی “کا نتیجہ ہے کہ قیصریت چودہ سو سالہ زندگی پانے کے باوجود کبھی ایک دن کے لئے بھی اپنے سلسلہ نسب کا اسلامی جواز تسلیم نہیں کروا سکی.
طفیل ہاشمی