تین سو صفحات پر مشتمل زیرِ طبع کتاب ’’خلافتِ علیؓ احادیثِ نبویہ کی روشنی میں‘‘ کا پیش لفظ
پیش لفظ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على خير خلقه سیدنا ومولانا محمد وآله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، وبعد:
یہ چند صفحات ایک ایسے موضوع پر پیش کیے جارہے ہیں جس پر کچھ کہنا یا لکھنا مزاجاً کبھی مرغوب نہیں رہا، ليكن گذشتہ کچھ بیس پچیس برسوں میں مسلسل ایسے تجربات ہوئے اور وہ کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا جس سے اندازہ، بلکہ یقین ہوا کہ ہماری تاریخ کے اس انتہائی تاب ناک باب اور خلافتِ راشدہ کے ایک حصے کو جو امیر المؤمنین اور مولی المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے دور سے متعلق ہے، بری طرح مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے اور اس میٹھے زہر سے خصوصا ًنئی نسل متأثر ہورہی ہے۔ ٹھیٹھ دین دار نوجوانوں کو بھی اہل السنت والجماعت کے مسلمات سے اجنبیت محسوس ہونے لگی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ صورتِ حال کے اس ادراک میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ جس کو دیکھو اس مظلوم ذات پر ایک سے ایک بڑھ کر عجیب وغریب اعتراض لے کر پھر رہا ہوتا ہے۔یہ بھی تجربہ ہوا کہ کسی کے سوال پر مختصر جواب مزید الجھن کا باعث بن سکتا ہے اور ہر جگہ مفصل جواب ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے اس طرح کے موضوعات سے طبعی مناسبت نہ ہونے کے باوجود کچھ عرصے سے اس ضرورت کا احساس ہورہا تھا کہ اسلامی تاریخ کے اس حصے کا اس انداز سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جس سے حضرت علیؓ کی ذات اور خلافت پر اٹھنے والے اعتراضات کا ازالہ ہوجائے۔ یہ بھی احساس تھا کہ اس دور کی تاریخ کو سمجھنے کے معاملے میں ایک مسلمان کے لیے اہم کلید رسول اللہ ﷺ کے وہ ارشادات ہیں جن میں آپ نے اپنے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں پیشگی بہت کچھ بتایا ہے۔ تاریخ بھی خبر دینے والوں کی خبر سے وجود میں آتی ہےاور یہ تو سب سے سچی زبان سے صادر ہونے والی خبر ہے، بس یہ فرق ہے کہ یہ خبر واقعات سے پہلے دے دی گئی ہے۔ چناں چہ اسی احساس کے ساتھ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ’’حضرت علی کی خلافت : احادیثِ نبویہ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے ایک محاضرے کا انعقاد کیا گیا ، جس میں آخری درجات کے طلبہ اور علما نے شرکت کی۔ یہ محاضرہ تقریبا چار گھنٹے پر محیط رہا اور اسے ریکارڈ کرکے یوٹیوب اور فیس بک پر بھی نشر کیا گیا۔ براہِ راست سامعین اور ملک و بیرون ملک سوشل میڈیا پرسننے والوں سے معلوم ہوا کہ انھیں اس سے کافی فائدہ محسوس ہوا اور کئی الجھنوں کے ازالے میں مدد ملی۔
ہمارے فاضل دوست مولانا سید متین احمد شاہ صاحب (مدیر ’’فکر ونظر‘‘ اسلام آباد و فاضل جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد) نے یو ٹیوب سے سن کر بہت سلیقے سے اسے قلم بند بھی کردیا اور حاشیے میں حوالہ جات اور اصل عربی عبارات کا بھی اندراج کردیا۔ ہم تو اپنے طور پر اپنا کام کرکے فارغ ہوچکے تھے ، مختلف احباب کی فرمائش کے باوجود اس محاضرے کی مزید کسی انداز کی اشاعت کا ارادہ نہیں تھا ، بس خیال تھا اس تمہیدی محاضرے کے بعد کبھی موقع ملا تو خلافتِ راشدہ کے اس حصے پر اٹھائے جانے والے اشکالات پر کچھ مزید محاضرات ریکارڈ کرادیے جائیں گے، تاکہ محاضرات کے اس سلسلے کے ذریعے موضوع کی تکمیل ہوجائے، لیکن شاہ صاحب نے جس سلیقے اور خوب صورتی سے اس محاضرے کی تدوین کی اس سے ہماری بھی بھوک جاگ اٹھی کہ اسے تحریری شکل میں بھی شائع ہونا چاہیے، جو شاید کسی تحقیقی مجلے کے مفصل مقالے کے انداز میں ہوسکتا تھا، لیکن جب راقم الحروف نے نظر ِثانی کے دوران اس میں اضافات کیے تو ضخامت دوگنی سے بھی کہیں زیادہ ہوکر اتنی بڑھ گئی کہ الگ کتابی شکل میں شائع کیے بغیر کوئی چارا نہیں رہا۔ اگرچہ اصلا یہ ایک سلسلۂ محاضرات کی پہلی تمہیدی کڑی تھی، لیکن ایک لحاظ سے موضوع کے ایک گوشے پر مکمل بحث بھی ہے، اس لیے مزید کام کے انتظار میں اس کی اشاعت کو موقوف رکھنا مناسب معلوم نہیں ہوا؛ چناں چہ اب کتابی شکل میں یہ مواد آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
کام پر نظرِ ثانی کے دوران میں مراجعتِ کتب کا دوبارہ موقع ملا تو یہ احساس پہلے سے زیادہ ہوا کہ علیؓ اور اولادِ فاطمہؓ (اہلِ کساء) کی سیاسی فکر، جو ان کے اقوال اور طرزِ عمل دونوں سے سمجھ میں آتی ہے، اس میں جو نپا تُلا پن، توازن ، اعتدال اور خوب صورتی نظر آتی ہے، اس میں جس طرح سے تنوع اور مختلف حالات کے اعتبار سے مختلف رنگ نظر آتے ہیں، وہ ہماری تاریخ کا بہت درخشاں باب اور مختلف حالات میں امت کی راہ نمائی کا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ برگزیدہ ہستیاں بھی کسی مسلک کا نہیں پوری امت کا اثاثہ ہیں، اللہ کرے اہل السنت میں اس عظیم باب پر مزید علمی کام کی توفیق وافر ہو۔
یہ اصلاً نہ تو حضرت علی کے مناقب کی کتاب ہےکہ وہ اس سے کہیں زیادہ وسیع موضوع ہے، اور اس پر اردو سمیت دیگر زبانوں میں مواد دست یاب ہے، نہ مشاجراتِ صحابہ ہی براہِ راست اس خطاب کا موضوع تھا اور نہ براہِ راست عقیدہ وکلام اس کا موضوع ہے، بلکہ اس کی حیثیت اس خاص دور کی تاریخ کو ایک مسلمان کے زاویۂ نگاہ سے سمجھنے کے لیے ایک مقدمہ، مدخل اور تمہید کی تھی۔ اگر اللہ کو مقدر ہوا تو اصل موضوع کے مختلف گوشوں، جن کی نشان دہی خود اس خطاب کے شروع میں کی گئی ہے، پر بات ہوسکتی ہے؛ یعنی حضرت علی کی شخصیت اور تاریخ کے اس حصے کی اس طرح سے تصویر کشی کہ صحیح حقائق سامنے آکر بے جا اعتراضات کا خاتمہ ہوجائے، تاہم اس ساری بحث سے مشاجرات کے مسئلے کی طرف ذہن منتقل ہونا فطری امر ہے؛ اس لیے آخر میں بطور ضمیمہ اس موضوع پر اہل السنت کے عمومی نقطۂ نظر کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اورضمیمے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، جس میں اہل السنت والجماعت کی نمایاں شخصیات کی وہ عبارات بھی پیش کردی جائیں جن سے معلوم ہو کہ واقعی اہل السنت کا عمومی رخ وہی ہے جو ان احادیث سے سمجھ میں آرہا ہے۔ اس ناکارہ کے پاس ایسی عبارات کا کافی ذخیرہ موجود ہے، لیکن اس سے ضخامت کافی بڑھ جاتی، اس لیے فی الحال اس سے گریز کیا گیا ہے، البتہ درمیان میں خود متن یا حواشی میں بعض عبارات شامل کردی گئی ہیں، بالخصوص ایسی شخصیات کی جو ردِ تشیع کے حوالے سے کافی معروف ہیں۔
جیسا کہ خود کتاب میں بھی عرض کردیا گیا ہے کہ اس کے مخاطب وہ حضرات نہیں ہیں جو اس موضوع پر ہم سے مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں، بلکہ مخاطب صرف وہ حضرات ہیں جن کا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اس موضوع کو سمجھنے میں انھیں ہماری کسی کاوش سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس کاوش کا مقصد کسی کلامی یا مناظراتی بحث کا آغاز کرنا یا اس میں الجھنا بھی نہیں ہے، حتی کہ آج کے دور میں جسے ’’مثبت مکالمہ‘‘ کہا جاتا ہے وہ بھی اس کا مقصد نہیں ہے؛ اس لیے جن احباب کو اس سے کوئی فائدہ محسوس ہو وہ اس ناکارہ کے لیے دعاے خیر فرمادیں وگرنہ جس خیال پر وہ کار بند ہیں وہ انھیں مبارک ہو، اس لیے اس تحریر کے جواب میں سامنے آنے والے کسی بحث مباحثے کے جواب کا انتظار نہ رکھا جائے، یہ ناکارہ کسی مناظرے یا ’’مثبت مکالمے‘‘ کے لیے دست یاب نہیں ہوگا۔ یہ امید ضرور ہے کہ کوئی بھی مثبت یا منفی رائے قائم کرنے سے پہلے پوری کتاب کو ملاحظہ ضرور فرمالیا جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی اس حقیر کاوش کو قبول فرما کر اپنی ، اپنے حبیب ﷺ اور ان کی آل واصحاب کی محبت کا ذریعہ بناے۔ آمین!
محمد زاہد
جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آبادپاکستان
۲۱ جمادی الاولی ۱۴۴۰ھ