” حضرت معاویہؓ کے ہاتھ میں اختیارات کا آنا خلافت سے ملوکیت کی طرف اسلامی ریاست کے انتقال کا عبوری مرحلہ تھا ۔ بصیرت رکھنے والے لوگ اِسی مرحلے میں یہ سمجھ گئے تھے کہ اب ہمیں بادشاہی سے سابقہ درپیش ھے ۔ چناچہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص جب حضرت معاویہؓ کی بیعت ہو جانے کے بعد اُن سے ملے تو اَلسَّلام علیکَ اَیُّھا الملِک کہہ کر خطاب کیا ۔ حضرت معاویہؓ نے کہا اگر آپ امیرالمومنین کہتے تو کیا حرج تھا ؟
انہوں نے جواب دیا ” خدا کی قسم جس طرح آپ کو یہ حکومت ملی ھے اُس طریقہ سے اگر یہ مجھے مل رہی ہوتی میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا ۔ ” ( ابن الاثیر )
حضرت معاویہؓ خود بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے خود کہا تھا کہ ” اَنا اَوّلُ الملوک ” میں مسلمانوں میں پہلا بادشاہ ہوں ۔ ( البدایہ والنہایہ )
بلکہ حافظ ابن کثیر کے بقول سُنّت بھی یہی ھے کہ اُن کو خلیفہ کے بجائے بادشاہ کہا جائے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ ” میرے بعد خلافت 30 سال رہے گی ، پھر بادشاہی ہو گی ۔” اور یہ مدّت ربیع الاوّل 41ھ میں ختم ہو گئی جب کہ حضرت حسنؓ حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے ۔ ( البدایہ والنہایہ )
اب خلافت علیٰ منہاج النّبوّۃ کے بحال ہونے کی آخری صورت صرف یہ باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہؓ یا تو اپنے بعد اِس منصب پر کسی شخص کے تقرر کا معاملہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیتے ، یا اگر قطعِ نزاع کے لیے اپنی زندگی ہی میں جانشینی کا معاملہ طے کر جانا ضروری سمجھتے تو مسلمانوں کے اہلِ علم و اہلِ خیر کو جمع کر کے اُنہیں آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہدی کے لیے اُمّت میں موزوں تر آدمی کون ھے ۔ لیکن اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف و طمع کے ذرائع سے بیعت لے کر انہوں نے اِس امکان کا بھی خاتمہ کر دیا ۔ “
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ خلافت و ملوکیت )