پہلے خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللٰہ عنہ کا پہلا خطبہ خلافت :
’میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے ، نہ میں نے کبھی خدا سے اس کیلئے دعا کی ، نہ میرے دل میں اس کی کبھی حرص پیدا ہوئی ۔ میں نے تو اسے بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتداد برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا ۔ میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک بار عظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے ، جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ سوائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ ہی میری مدد فرمائی ۔ اب اگر میں ٹھیک کام کروں میری مدد کیجئے اور اگر غلط کام کروں مجھے سیدھا کردیجئے ۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے ۔ یہاں تک کہ میں اس کاحق اسے دلواؤں ، اگر خدا چاہے ۔ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک ایک کمزور ہے ، یہاں تک میں اُس سے حق وصول کروں ، اگر خدا چاہے ۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اﷲ کی راہ میں جدوجہد چھوڑے اور ﷲ اس پر ذلت مسلط نہ کردے ، کسی قوم میں برائی پھیلے اور اﷲ اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کردے۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اﷲ اور رسول ﷺ کا مطیع رہوں اور اگر میں اﷲ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے (طبری ، ابنِ ہشام)
دوسرے خلیفہ راشد سیدّنا عمر فاروق رضی اللٰہ عنہ کا پہلا خطبہ خلافت :
“لوگو میں تمہیں میں سے ایک انسان ہوں۔ اگر مجھے خلیفہ رسول ﷺ کی نافرمانی گوارا ہو سکتی تو میں ہر گز یہ ذمہ داری نہ لیتا۔ مجھے معلوم ہے لوگ میری سختی سے ڈرتے ہیں اور میری دوستی سے لرزا بر اندام رہتے ہیں۔ جو کوئی بھی یہ احساس رکھتا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے۔ مجھے رسول کریم ﷺ سے شرف صحبت حاصل رہا ہے۔ میں آپ ﷺ کا ادنی مطیع اور خادم تھا اور کسی بھی نرمی اور رحمدلی میں آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا۔ بارگاہِ رسالت ﷺ میں میری حیثیت ایک برہنہ تلوار کی تھی۔ حضور ﷺ جب چاہتے مجھے نیام میں رکھ لیتے اور جب چاہتے اِذن کار عطا فرما دیتے۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں اسی طرح رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنے ہاں یا د فرما لیا۔ آپ ﷺ آخر وقت تک مجھ سے راضی رہے اِس پر میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی خدمت ابو بکر صدیق ؓ کے سپرد کی گئی جن کے تحمل اور نرمی سے کسی کو انکار نہیں اور میں بھی ان کا اطاعت کیش کا مددگار اور معاون رہا میں اپنی سختی کو ان کی نرمی میں سمو دیتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں ہم سے جدا کر دیا۔ وہ دمِ آخر تک مجھ سے خوش رہے اور اے لوگوں اب تمہارے معاملات کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے دراصل یہ میری تمہارے ذریعے اور تمہاری میرے ذریعے آزمائش ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری سختی اب نرمی میں بد ل گئی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے بدستور قائم ہے جو لوگوں پر ظلم کر تے ہیں۔ جو لوگ امن سلامتی سے رہتے ہیں اور ایمانی جرات کا اظہار رکھتے ہیں ان کے لیے میں بہت نرم ہوں۔ اگر کوئی کسی پر زیادتی کرے گا تو میں اس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اُس کا رخسار زمین پر نہ لگا دوں اور دوسرے رخسار پر اپنا پاؤں نہ رکھ دوں تا آں کہ وہ حق کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ لوگو مجھ پر تمہارے چند حقوق ہیں یہ ضرور حاصل کرو مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ جب تم میں سے کو ئی میرے پاس آئے تو اپنا حق لے کر جائے۔ مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ میں تم سے خراچ اور غنیمت سے زیا دہ تمہا رے مال سے کچھ نہ لوں مجھ پر تمہارا حق یہ ہے کہ میں تمہا رے عطیات اور وظائف میں اضافہ اور تمہاری سرحدوں کی حفاظت کروں اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ جب تک تم جنگ پر جاؤ تو میں ایک باپ کی طرح تمہارے مال اہل و عیال کی حفاظت کروں۔ اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو مجھ سے درگزر کر کے میرا ہاتھ بٹاؤ نیکی کی تکمیل اور برائی سے گریز میں میری مدد کرو اور تمہاری جو خدمات اللہ تعالی نے میرے سپرد کی ہیں ان کے متعلق مجھے تنبیہ اور نصیحت کرو میں تم سے مخا طب ہوں اور اپنے اور تمہا رے لیے خدا سے مغفرت کا طالب ہوں ۔ (طبری)۔
تیسرے خلیفہ راشد سیدّنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ دستیاب نہیں ہوسکا۔
چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللٰہ عنہ کا پہلا خطبہ خلافت :
اللہ عز وجل نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو لوگوں کو ہدایت دینے والی ہے۔ اس کتاب میں ہر قسم کے خیر و شر کو بیان فرمایا: اب آپ لوگوں کو چاہیے کہ آپ خیر کو قبول کریں اور برائی کو چھوڑ دیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے فرائض کو ادا کیجیے ، وہ آپ کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ اللہ تعالی نے بہت سے امور حرام فرمائے ہیں جو قطعاً ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ تمام حرام کاموں سے بڑھ کر مسلمانوں کا خون حرام فرمایا ہے (اشارہ ہے قتل عثمان رض کی طرف) اور اس نے مسلمانوں کے ساتھ خلوص اور متحد رہنے کا حکم دیا ہے۔ مسلم وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر لوگ محفوظ رہیں، سوائے اس صورت کے کہ اللہ تعالی ہی نے اسے سزا دینے کا حکم دیا ہو۔
آپ لوگ موت آنے سے پہلے ہی عام اور خاص احکام سبھی پر عمل کر لیجیے کیونکہ لوگ تو آپ کے سامنے موجود ہیں اور موت آپ کو گھیرتی چلی آ رہی ہے۔ گناہوں سے ہلکے ہو کر موت سے ملاقات کیجیے۔ لوگ تو ایک دوسرے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں، آپ لوگ اللہ کے بندوں اور اس کے شہروں کی بربادی کے معاملے میں اللہ سے ڈریے کیونکہ آپ سے اس کا ضرور سوال کیا جائے گا۔ حتی کہ چوپایوں اور گھاس پھونس کے بارے میں آپ سے پوچھا جائے گا۔ اللہ کی اطاعت کیجیے، اس کی نافرمانی سے بچیے اور جو بھی خیر آپ کو نظر آئے، اسے قبول کیجیے۔ جو برائی بھی آپ کو نظر آئے، اسے چھوڑ دیجیے اور اس وقت کو یاد کیجیے جب آپ لوگ تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین پر کمزور تھے۔”( طبری ۔ 3/2-28)
—————————
پہلے مسلمان بادشاہ معاویہ بن ابی سفیان کا پہلا خطبہِ خلافت
“میں نے ابوبکر و عمر کے راستے پر چلنا چاہا لیکن نہ چل سکا۔ میں نے وہ راستہ اختیار کیا ہے کہ جو تمہارے لیے ترقی اور فائدے کا ہے، اگرچہ اس میں کچھ برائیاں ہیں، لہذا میری طرف سے تمہیں جو ملے اس پر خوش رہو، اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ جب خیر کا تسلسل رہتا ہے، چاہے خیر کم ہی ہو، تو فائدہ مند ہوتا ہے۔ قناعت نہ کرنا زندگی کو مشکل کردیتا ہے۔” (طبری)
احمد الیاس